... loading ...
(دوسری قسط)
1990ء کے عام انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد نے اکثریت حاصل کر لی۔ میاں نواز شریف نے چھ نومبر 1990ء کو وزارت عظمیٰ کا حلف اُٹھا لیا۔ بلوچستان میں میر تاج محمد جمالی (مرحوم) وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ۔ تاج جمالی (مرحوم) آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے بعد ازاں مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے ۔ قسمت ساتھ تھی اور وزارت اعلیٰ کا تاج ان کے سر پر سج گیا ۔تاج جمالی17نومبر 1990ء سے بائیس مئی1993ء تک صوبے کے چیف ایگزیکٹو رہے ۔ یعنی اس عرصے بعد راندہ ِ درگاہ کر دئیے گئے ۔ ان کے خلاف بساط نواب ذوالفقار علی مگسی اور اُن کے دوستوں نے بچھائی ۔ چنانچہ نواب مگسی نے خود 13مئی 1993ء کو وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھال لیا۔ جس پر وہ 19جولائی 1993ء تک متمکن رہے ۔ القصہ، مسلم لیگ کی اپنی صفوں میں بغاوت پھوٹ پڑی۔ اٹھارہ اپریل1993ء کو صدر غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی توڑ دی ۔نواز شریف نے صدر کے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ۔ عدالت کے حکم پر ا سمبلیاں بحال ہو گئیں ۔27مئی کو نواز شریف نے اعتماد کا ووٹ بھی لے لیا۔ حکومت کے خلاف دبائو پوری شدت سے بر قرار تھا ۔چناں چہ اٹھارہ جولائی 1993ء کو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے قومی اسمبلی توڑنے کے لیے صدر غلام اسحاق خان کو ایڈوائز بھیج دی اور صدر نے اسمبلی توڑنے کا فرمان جاری کیا۔ جس کے بعد چھ اکتوبر 1993ء کو قومی اور نو اکتوبر کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان کیا گیا ۔
ان عام انتخابات کے نتیجے میں 19اکتوبر کو بے نظیر بھٹو نے دوسری مرتبہ وزیر اعظم پاکستان کا حلف اُٹھا لیا۔ اور بلوچستان میں نواب ذوالفقار علی مگسی پھر وزیر اعلیٰ بن گئے ۔ ذوالفقار علی مگسی کی حکومت 20اکتوبر 1993ء سے اکتوبر 1996ء تک قائم رہی ۔ پیپلز پارٹی کے اپنے ہی صدر فاروق احمد خان لغاری نے اسمبلیاں توڑ دیں۔جس کے بعد تین فروری 1997ء کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں 17فروری 1997کو میاں محمد نواز شریف نے دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا حلف لے لیا۔بلوچستان میں جمہوری وطن پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت بنی ۔چونکہ میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے لہٰذا اُن کی دلچسپیاں بلوچستان حکومت میں بھی برابر موجود تھیں۔ صوبے میں سردار اختر مینگل وزیر اعلیٰ بن گئے ۔ میاں نواز شریف ان کی حکومت پر ضرب لگانے سے خود کو روک نہ سکے ۔ سیاسی جال بچھایا گیا ۔ عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی اگرچہ یہ تحریک واپس لے لی گئی تھی مگر سردار اختر مینگل کے خلاف بدستورمسائل موجود تھے ۔ اس کھینچا تانی کے پیش نظر سردار اختر جان مینگل نے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے ساتھ بلوچستان نیشنل پارٹی بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ بی این پی اسرار زہری، سردار بہادر خان بنگلزئی، سید احسان شاہ،اسد بلوچ اور محمد علی رند اس عمل میں میاں نواز شریف کی جماعت کے مدد گار بن گئے ۔ ان افراد نے بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے نام سے اپنی الگ جماعت کی بنیاد رکھ دی۔
بی این پی مینگل کہتی ہے کہ سردار اختر مینگل کی حکومت کے خلاف میر حاصل بزنجو اور نواب ثناء اللہ زہری کا کردار بھی مثبت نہ تھا۔ اس اسمبلی میں مسلم لیگ کے چار یاپانچ ارکان تھے ۔ سردار اختر مینگل 22فروری 1997ء سے تیرہ فروری 1998تک وزیر اعلیٰ رہے ۔ میدان صاف کرنے کے بعد مسلم لیگ کے جان محمد جمالی وزیر اعلیٰ بن گئے ۔ان کی وزارت اعلیٰ چودہ اکتوبر 1999ء تک رہی ۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر کے نواز شریف کو گرفتار کر لیا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔اس طرح ان حکومتوں کا خاتمہ ہو گیا۔میاں محمد نواز شریف نے 2013ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد سردار اختر مینگل کی حکومت ختم کرنے کے اقدام پر ندامت کا اظہار کیا اور اپنی جماعت کے اس فعل پر مینگل خاندان اور بی این پی سے معافی مانگی ۔ پرویز مشرف نے اکتوبر 2002ء میں اپنی نگرانی میں عام انتخابات کا انعقاد کرایا۔ مسلم لیگ قائد اعظم تشکیل دی جا چکی تھی۔بلوچستان میں ان انتخابات کے بعد ہوا کا رُخ دیکھ کر آزاد ارکان بھی اس جماعت سے وابستہ ہو گئے ۔ جام محمد یوسف وزیر اعلیٰ بن گئے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی حزب اختلاف میں بیٹھ گئی۔ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) صوبے میں اقتدار میں پوری طرح شامل ہو گئی ۔اچھی اچھی وزارتیں بھی لے لیں یہاں تک کہ سینئر صوبائی وزیر بھی مولانا عبدالوسع بن گئے تھے ۔
بلوچستان کی ایم ایم اے گویا جمعیت علماء اسلام ہی تھی جس نے جماعت اسلامی اور جمعیت اہلحدیث کو خواتین کی مخصوص نشستوں پر ایک ایک سیٹ دے رکھی تھی ۔ گویا فیصلوں اور اقدامات کی مجاز جمعیت علماء اسلام ہی تھی ۔ مولانا محمد خان شیرانی ان کے سیاسی امام تھے جو اقتدار میں اچھا حصے لینے میں امامت کا گُر خوب جانتے ہیں ۔مولانا شیرانی جنرل مشرف کو بھی بہت پسند تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف ایم ایم اے کی سیاسی مزاحمت کے قائل نہ تھے ۔مرکزی حکومت میں ایم ایم اے حزب اختلاف میں تھی اور یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ ایم ایم اے قائمہ کمیٹی کی چیئر مین شپ بھی نہیں لے گی ۔ مولانا محمد خان شیرانی نے اس کے برعکس غالباً پورٹ اینڈ شپنگ کی قائمہ کمیٹی کی چیئرمین شپ قبول کر لی تھی اور ایم ایم اے توڑنے میں بھی کردار ادا کیا۔ کوئٹہ کے گورنر ہائوس میں پرویز مشرف کی ایک تقریب میں جس میں مولانا شیرانی موجود تھے تو پرویز مشرف نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مجھے مولانا شیرانی بہت پسند ہیں اور مجھ میں اور ان میں بہت سارے قد ر مشترک ہیں۔ غرض 26اگست 2006ء کو نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔ عوامی و سیاسی احتجاج میںآدھا بلوچستان جل گیا۔ صوبے میں علیحدگی یا مسلح مزاحمت کی چنگاری مزید بھڑک اُٹھی۔ سردار اختر جان مینگل کی جماعت کے اراکین سینٹ، صوبائی اور قومی اسمبلی سے احتجاجاً مستعفی ہو گئے ۔سینیٹر ثناء اللہ بلوچ نے استعفیٰ دینے میں پس و پیش سے کام لیا جس پر پارٹی قائد سردار اختر مینگل ان سے کافی عرصہ نالاں بھی رہے۔انہی دنوں آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم )کے نام سے ایک سیاسی اتحاد بنا ۔ اس اتحادنے پرویز مشرف کے وردی میں صدارتی انتخابات لڑنے کے فیصلے کے خلاف مزاحمت کی اور صدر پرویز مشرف پر دباو ڈالتے ہوئے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ اس فیصلے کے تحت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، ایم ایم اے اور نیشنل پارٹی کے ارکان بلوچستان اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے۔ اس صورتحال میں حکومتی اتحاد کو مشکلات درپیش تھیں ۔
مقتدر حلقوں نے ارکان کے استعفے روکنے کی متوازی کوششیں شروع کر دیں۔ ایم ایم اے (جے یو آئی) کے رکن اسمبلی آغا فیصل احمدزئی جن کے پاس مواصلات اور تعمیرات کا قلمدان تھا اور جمعیت اہلحدیث کی آمنہ خانم کو ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔2اکتوبر 2007میں ان جماعتوں کے اراکین اسمبلی نے اسپیکر جمال شاہ کاکڑ کو استعفے پیش کر دئیے۔ اُس دن بلوچستان اسمبلی میں بہت زور زبردستی دیکھنے کو ملی ۔لازمی بات تھی کہ حکومت پرویز مشرف کی تھی اور وہ کچھ بھی کرنے پر قادر تھے ۔ سیکرٹری اسمبلی اور دوسرے افسران گویا یرغمال بنا ئے گئے ۔ اسمبلی کے تقدس کی پامالی کی روداد مولانا عبدالواسع نے اُسی وقت میڈیا کے سامنے بیان کر دی تھی۔ آغافیصل احمدزئی 2002ء کی صوبائی حکومت کے خاتمے کے بعد گمنامی میں چلے گئے ۔ جام یوسف کی حکومت نے بہر حال اپنی مدت پوری کر لی۔ پرویز مشرف کی پالیسیوں نے ملک کو بلوچستان میں مسلح مزاحمت یا علیحدگی کی تحریک تحفے میں دی۔ تحریک طالبان یا دوسری مذہبی شدت پسند تنظیمیں ان کے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اتحادی بننے کا ثمرہ ہے پرویز مشرف ہی کی پالیسی کی وجہ سے افغانستان میں بھارت کو زبردست اثر و نفوذ حاصل ہوا ہے۔ (جاری ہے)