وجود

... loading ...

وجود

ثناء اللہ زہری نے عہدے کی قربانی دے کربلوچستا ن اسمبلی کوتحلیل ہونے سے بچالیا

جمعرات 11 جنوری 2018 ثناء اللہ زہری نے عہدے کی قربانی دے کربلوچستا ن اسمبلی کوتحلیل ہونے سے بچالیا

جرات رپورٹ
بلوچستان میں کئی دن سے جاری سیاسی کشمکش اورغیریقینی صورت حال کا وزیر اعلی نواب ثنااللہ زہری کے استعفے سے کسی حدتک خاتمہ ضرورہوگیا لیکن سیاسی بحرا ن برقرارہے ۔ اس حوالے سے اگریہ کہاجائے توغلط نہیں ہوگاکہ نواب ثناء اللہ زہری نے وزارت اعلی کے عہدے کی قربانی دے کر بلوچستان اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچا لیا۔ بلوچستا ن میں حکومتیں گرائے جانے کی روایت خودن لیگ کے سربراہ نوازشریف نے سرداراخترمینگل کی حکومت گرا کر ڈالی۔ اس کے بعد یہ رویت چل پڑی بلوچستان کی حالیہ صورت حال خودن لیگ کی ہی پیداکردہ ہے ۔بلوچستان اسمبلی میں دو جنوری کوو عدم اعتماد کی تحریک چلی تھی حکومت میں شامل کئی ن لیگی اراکین اوروزراء اپنی ہی جماعت وزیراعلی کوہٹانے پرتل گئے ۔ اس ساری صورت حال میں ن لیگ کی مرکزی قیادت خاموش تماشائی بنی رہی ۔ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کوئٹہ آئے ضرورلیکن تحریک عدم پیش کیے جانے سے صرف ایک دن قبل ان کی آمد وروانگی باغی اراکین پرکوئی خاص تاثرقائم نہ کرسکی اوروہ خالی ہاتھ واپس جاتے ہوئے نواب ثنا ء اللہ زہری کومستعفی ہونے کامشورہ ضروردے گئے جس پرانھوں نے فوری عمل بھی کیا اورگورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے بھی ان کا استعفیٰ منظور کرنے میں دیرنہیں لگائی ۔

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے اس طرح اچانک مستعفی ہونے سے یہی واضح ہوا ہے کہ انہیں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کا یقین تھا‘ لہٰذا انہوں نے سوچا ہو گا کہ تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے سے بہتر ہے‘ خود ہی دستبردار ہو جائیں۔ ان کے مستعفی ہونے کے باعث اپوزیشن اور ان کی اپنی جماعت کے منحرف ارکان کو تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی‘ لیکن یہ بات بہرحال قابل غور ہے کہ آیا اس کے نتیجے میں اس صوبے میں پیدا ہونے والا سیاسی بحران ختم ہو گیا اوراسمبلی بھی تحلیل ہونے سے بچ گئی ہے اور زہری کی جگہ جو رکن اسمبلی وزیرِ اعلیٰ کی مسند پر بیٹھے گا‘ اسے حکومتی ارکان کا مکمل اعتماد اور تعاون حاصل رہے گا اور وہ حکومت کی آئینی میعاد ختم ہونے تک اس عہدے پر برقرار رہ سکے گا؟ ان سارے معاملات کے بارے میں فی الحال کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی‘ لیکن اگر ایسا ہوا‘ یعنی نیا وزیر اعلیٰ لایا گیا اور وہ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے تک اپنی سیٹ پر برقرار رہا تو ان حلقوں اور افراد کے تجزیے غلط ثابت ہو جائیں گے‘ جو بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ بلوچستان میں سیاسی بحران بالقصد پیدا کیا گیا‘ اور اس کا مقصد بلوچستان اسمبلی تحلیل کرنا ہے تاکہ اس کی بنیاد پر باقی صوبائی اسمبلیاں بھی توڑی جا سکیں اور اس طرح امسال مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے الیکشن میں حکمران جماعت کو اکثریت حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔

اگرچہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان یہ وضاحت کر چکا ہے کہ صوبائی اسمبلی برخاست ہونے سے سینیٹ الیکشن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور یہ بروقت ہوں گے۔ بلوچستان کی سینیٹ نشستوں پر الیکشن بعد میں بھی کرایا جا سکتا ہے مگر یہ خدشہ موجود تھا کہ معاملہ بلوچستان اسمبلی پر نہیں رکے گا بلکہ دوسری صوبائی اسمبلیاں اور بعد ازاں قومی اسمبلی بھی اس کی زد میں آئے گی۔یاد رہے کہ بلوچستان کے 65 رکنی ایوان میں مسلم لیگ ق کی 5، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کی 14، نیشنل پارٹی کی 11 اور مسلم لیگ نون کی 21 نشستیں ہیں۔ مسلم لیگ نون، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق اتحادی ہیں۔ ایوان میں مجلس وحدت المسلمین کی ایک نشست ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) 8 نشستوں کے ساتھ اپوزیشن کی بڑی جماعت ہے۔ اپوزیشن میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی 2، اور اے این پی کی ایک نشست ہے۔ اگر آئینی تقاضوں کے مطابق پْرامن طریقے سے نیا وزیر اعلیٰ منتخب کر لیا گیا تو بلوچستان میں پیدا ہونے والا سیاسی بحران خود بخود ختم ہو جائے گا۔ بلوچستان کے معاملات پر غور کے لیے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز اسلام آباد میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی۔ ملاقات میں وزیر اعلیٰ کے مستعفی ہونے کے بعد کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا۔ یہ سارے صلاح مشورے اپنی جگہ‘ لیکن یہ واضح ہے کہ بلوچستان میں اکثریتی پارٹی کا سربراہ ہونے کے باوجود نواز شریف اپنے وزیر اعلیٰ کو نہ بچا سکے‘ یعنی ثنااللہ زہری پر عدم اعتماد کرنے والے اپنی ہی پارٹی کے ارکان کو رام کرنے اور تحریکِ عدم اعتماد واپس لینے پر رضا مند کرنے میں ناکام رہے۔

دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ اور برسرِ اقتدار جماعت کے باغی ارکان میں اختلافات گہرے ہیں؛ چنانچہ یہ سوال اہم ہے کہ اگلا وزیر اعلی صوبے کے معاملات کو ہموار طریقے سے آگے لے جانے میں کامیاب ہو سکے گا یا نہیں۔ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا ایک آئینی اور جائز طریقہ ہے؛ لیکن یہ عام طور پر اپوزیشن کی طرف سے پیش کی جاتی ہے‘ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کے خلاف یہ تحریک پیش کرنے والوں میں کچھ حکومتی ارکان کا شامل ہونا مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ معاملات اس نہج تک کیوں پہنچے اور جب صورتحال خراب ہو رہی تھی تو اس وقت اس کو سدھارنے اور بہتر بنانے پر کیوں توجہ نہیں دی گئی۔

دوسری جانب سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری کے استعفے کے بعد حکمران جماعت مسلم لیگ کم و بیش 15 اراکین صوبائی اسمبلی کے ‘باغی دھڑے’ کے فیصلے کا انتظار کرے گی جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ اگلے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے منصب کیلیے کس امیدوار کی حمایت کی جائے۔منگل (9 جنوری) کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے والے نواب ثنااللہ زہری کی جگہ سنبھالنے کے لیے سابق وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی، سابق وزیر اعلیٰ صالح بھوتانی اور نوابزادہ چنگیز مری کو امیدوار قرار دیا جا رہا ہے تاہم مسلم لیگ ن کے باغی دھڑے اور نیشنل پارٹی دونوں کے حمایت یافتہ سرفراز بگٹی کو عہدے کے لیے مضبوط امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے رہنما جان اچکزئی نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار کی حمایت یا اپوزیشن میں بیٹھنے کے حوالے سے ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی۔ پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ بیٹھ کر مشاورت کرے گی کہ وزارت اعلیٰ کے لیے مشترکہ امیدوار میدان میں اتارا جائے یا پھر اپوزیشن میں بیٹھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت بلوچستان میں ترقیاتی عمل کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والی بڑی کامیابیوں کے سلسلے کو جاری رکھنا چاہتی ہے تاکہ اس لعنت سے چھٹکارا پایا جا سکے۔وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات مشاہداللہ خان نے نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بلوچستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پارٹی باغی اراکین اسمبلی کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ قانون دانوں کی جانب سے پارٹی ڈسپلن کی کہاں خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اگر انہوں نے پارٹی کے وزیر اعلیٰ ثنااللہ زہری کے خلاف ووٹ دیا تو صرف اسی صورت میں ان کے خلاف پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کا سوال اٹھتا ہے۔ ہم صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ہم اسے مناسبت سے اپنا فیصلہ کریں گے۔

سابق وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ باغی اراکین اسمبلی کو اپنی شکایات پارٹی قیادت کے پاس لے کر آنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ہم انتظار کریں گے اور دیکھیں گے کہ 15 سے 16 ووٹوں کے حامل یہ لوگ آنے والے دنوں میں کیا کرتے ہیں اور اسی حساب سے اپنی حکمت عملی طے کریں گے۔حکمران جماعت کا اصرار ہے کہ بلوچستان میں جاری قیادت کے بحران کا آنے والے سینیٹ انتخابات کے نتائج پر برا اثر نہیں پڑے گا اور پرویز رشید نے آئندہ دس دنوں کو انتہائی اہم قرار دیا تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جا سکے کہ کہیں ثنااللہ زہری کو عہدے سے پٹانے میں ‘دیگر عناصر’ تو ملوث نہیں۔ادھر جان محمد جمالی کی قیادت میں کام کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے باغی دھڑے نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ آئندہ چند دنوں میں ثنااللہ زہری کے جانشین کا انتخاب کر لیں گے۔منگل کی رات نجی ٹی وی چینل گفتگو کرتے ہوئے جان محمد جمالی نے کہا کہ اگلے وزیرِاعلیٰ کا انتخاب ہم کریں گے۔ ہمیں مسلم لیگ ن کے 15 سے زائد قانون دانوں کی حمایت حاصل ہے اور اس سلسلے میں پارٹی اور اتحادیوں کے درمیان مشاورت جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ انکشاف کیا کہ وہ اس معاملے پر پارٹی سربراہ نواز شریف سے متفق نہیں تھے۔ ‘نواز شریف بلوچستان سے زیادہ پنجاب کے معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں۔ میں مسلم لیگ کا ہی حصہ رہوں گا کیونکہ میرا خاندان 1933 سے اس پارٹی سے منسلک ہے لیکن وزیر اعلیٰ کا انتخاب لاہور میں نہیں کیا جائے گا۔بلوچستان اسمبلی میں 11 نشستوں کے حامل نیشنل پارٹی کے صدر سینیٹر میر حاصل بزنجو نے سابق صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔اس وقت بلوچستان اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے اعتبار سے مسلم لیگ 21 سیٹوں کے ساتھ پہلے، پختونخوا ملی عوامی پارٹی 14 سیٹوں کے دوسرے اور نیشنل پارٹی 11 سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام(فضل الرحمان) کی آٹھ، مسلم لیگ ق کی پانچ، بلوچستان نیشنل پارٹی کی دو جبکہ مجلس وحدت المسلمین، بی این پی عوامی اور آزاد امیدوار کی ایک ایک سیٹ ہے۔توقع کی جاتی ہے کہ بلوچستان کا آئندہ وزیر اعلیٰ ان معاملات پر توجہ مبذول اور مرکوز رکھے گا‘ جو زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کا باعث بنے۔


متعلقہ خبریں


عمران خان تین مطالبات پر قائم، مذکرات کا پہلا دور بے نتیجہ وجود - منگل 26 نومبر 2024

تحریک انصاف کے اسلام آباد لانگ مارچ کے لیے مرکزی قافلے نے اسلام آباد کی دہلیز پر دستک دے دی ہے۔ تمام سرکاری اندازوں کے برخلاف تحریک انصاف کے بڑے قافلے نے حکومتی انتظامات کو ناکافی ثابت کردیا ہے اور انتہائی بے رحمانہ شیلنگ اور پکڑ دھکڑ کے واقعات کے باوجود تحریک انصاف کے کارکنان ...

عمران خان تین مطالبات پر قائم، مذکرات کا پہلا دور بے نتیجہ

اسلام آباد لانگ مارچ،تحریک انصاف کا مرکزی قافلہ اسلام آباد میں داخل، شدید شیلنگ وجود - منگل 26 نومبر 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی کال پر پاکستان تحریک انصاف کے قافلے رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اسلام آباد میں داخل ہوگئے ہیں جبکہ دھرنے کے مقام کے حوالے سے حکومتی کمیٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات بھی جاری ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان چونگی 26 پر چاروں طرف سے بڑی تعداد میں ن...

اسلام آباد لانگ مارچ،تحریک انصاف کا مرکزی قافلہ اسلام آباد میں داخل، شدید شیلنگ

پاکستان میں انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا سروس دوسرے دن بھی متاثر وجود - منگل 26 نومبر 2024

پاکستان بھر میں انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا سروس دوسرے دن پیرکوبھی متاثر رہی، جس سے واٹس ایپ صارفین کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ تفصیلات کے مطابق ملک کے کئی شہروں میں موبائل ڈیٹا سروس متاثر ہے ، راولپنڈی اور اسلام آباد میں انٹرنیٹ سروس معطل جبکہ پشاور دیگر شہروں میں موبائل انٹر...

پاکستان میں انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا سروس دوسرے دن بھی متاثر

اٹھارویں آئینی ترمیم پر نظرثانی کی ضرورت ہے ،وزیر خزانہ وجود - منگل 26 نومبر 2024

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے اعتراف کیا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم، سپریم کورٹ کے فیصلوں اور بین الاقوامی بہترین طریقوں کے پس منظر میں اے جی پی ایکٹ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے وزیر خزانہ نے اے جی پی کی آئینی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے صوبائی سطح پر ڈی جی رسید آڈٹ کے دف...

اٹھارویں آئینی ترمیم پر نظرثانی کی ضرورت ہے ،وزیر خزانہ

حکومت کا پی ٹی آئی سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان وجود - منگل 26 نومبر 2024

وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ حکومت کا دو ٹوک فیصلہ ہے کہ دھرنے والوں سے اب کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے ۔اسلام آباد میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج کرنے والوں کا رویہ سب نے دیکھا ہے ، ڈی چوک کو مظاہرین سے خال...

حکومت کا پی ٹی آئی سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان

جو کرنا ہے کرلو،مطالبات منظور ہونے تک پیچھے نہیں ہٹیں گے ،عمران خان وجود - منگل 26 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد اور ڈی چوک پہنچنے والے کارکنان کو شاباش دیتے ہوئے مطالبات منظور ہونے تک ڈٹ جانے کی ہدایت کی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے بانی کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ سے عمران خان سے منسوب بیان میں لکھا گیا ہے کہ ’پاکستانی قوم اور پی ٹی آئی...

جو کرنا ہے کرلو،مطالبات منظور ہونے تک پیچھے نہیں ہٹیں گے ،عمران خان

پی ٹی آئی احتجاج ،کارکنان علی امین گنڈاپور پر برہم ، بوتل مار دی وجود - منگل 26 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اسلام آباد میں احتجاج کے دوران کارکنان پیش قدمی نہ کرنے پر برہم ہوگئے اور ایک کارکن نے علی امین گنڈاپور کو بوتل مار دی۔خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں کارکنان اسلام آباد میں موجود ہ...

پی ٹی آئی احتجاج ،کارکنان علی امین گنڈاپور پر برہم ، بوتل مار دی

سیاسی ٹرائل آمرانہ حکومتوں کیلئے طاقتور عدالتی ہتھیار ہیں، جسٹس منصور علی شاہ کا بھٹو ریفرنس میں اضافی نوٹ وجود - منگل 26 نومبر 2024

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس میں اپنا اضافی نوٹ جاری کر تے ہوئے کہا ہے کہ آمرانہ ادوار میں ججزکی اصل طاقت اپنی آزادی اور اصولوں پر ثابت قدم رہنے میں ہے ، آمرانہ مداخلتوں کا مقابلہ کرنے میں تاخیر قانون کی حکمرانی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے ۔منگل کو...

سیاسی ٹرائل آمرانہ حکومتوں کیلئے طاقتور عدالتی ہتھیار ہیں، جسٹس منصور علی شاہ کا بھٹو ریفرنس میں اضافی نوٹ

حکومتی کوششیں ناکام، پی ٹی آئی کے قافلے پنجاب میں داخل، اٹک میں جھڑپیں وجود - پیر 25 نومبر 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی کال پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی قیادت میں قافلے پنجاب کی حدود میں داخل ہوگئے جس کے بعد تحریک انصاف نے حکمت عملی تبدیل کرلی ہے ۔تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج میںپنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے قافلے...

حکومتی کوششیں ناکام، پی ٹی آئی کے قافلے پنجاب میں داخل، اٹک میں جھڑپیں

پنجاب بھر سے تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد مارچ میں شریک وجود - پیر 25 نومبر 2024

تحریک انصاف ک فیصلہ کن کال کے اعلان پر خیبر پختون خواہ ،بلوچستان اورسندھ کی طرح پنجاب میں بھی کافی ہلچل دکھائی دی۔ بلوچستان اور سندھ سے احتجاج میں شامل ہونے والے قافلوںکی خبروں میں پولیس نے لاہور میں عمرہ کرکے واپس آنے والی خواتین پر دھاوا بول دیا۔ لاہور کی نمائندگی حماد اظہر ، ...

پنجاب بھر سے تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد مارچ میں شریک

جتنے راستے بند کر لیں ہم کھولیں گے، علی امین گنڈاپور وجود - پیر 25 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت جتنے بھی راستے بند کرے ہم کھولیں گے۔وزیراعلیٰ نے پشاور ٹول پلازہ پہنچنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی رہائی کی تحریک کا آغاز ہو گیا ہے ، عوام کا سمندر دیکھ لیں۔علی امین نے کہا کہ ...

جتنے راستے بند کر لیں ہم کھولیں گے، علی امین گنڈاپور

پی ٹی آئی کا احتجاج، حکومت کریک ڈاؤن کیلئے تیار، انٹرنیٹ اور موبائل بند وجود - پیر 25 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے ہونے والے احتجاج کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس، رینجرز اور ایف سی کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے جبکہ پنجاب اور کے پی سے جڑواں شہروں کو آنے والے راستے بند کر دیے گئے ہیں اور مختلف شہروں میں خندقیں کھود کر شہر سے باہر نکلنے کے راستے بند...

پی ٹی آئی کا احتجاج، حکومت کریک ڈاؤن کیلئے تیار، انٹرنیٹ اور موبائل بند

مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر