... loading ...
نواز شریف نے کہا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن پاکستان کا حامی تھا مگر اسے باغی بنایا گیا ٗ میرے ساتھ ہونے والا سلوک لیڈروں کو باغی بناتا ہے ٗ میرے دکھوں کو اتنا زخم نہ لگاؤ کہ میرے جذبات سے باہر ہوجائے ٗآئین توڑنے والوں کا کبھی حساب نہیں لیا گیا ٗ سزا پہلے سنائی جارہی ہے اور الزامات بعد میں ڈھونڈے جارہے ہیں ٗ میرے خلاف کوئی بغض تھا تو مجھے بتا دیا جاتا ٗعمران خان کو صادق اور آئین قرار دینے والے ججوں کو سلیوٹ کرتا ہوں۔ مجیب الرحمان محب وطن تھا اُسے غدار بننے پر مجبور کیا گیا۔ نوز شریف کا کہنا تھا کہ مجھے بھی عدل نہیں دیا جارہا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ عمران خان جس تھالی میں کھاتا ہے اسی میں چھید کرتا ہے‘ ایک خاندان کی عزت داؤ پر لگا کر خود پردے میں چھپ گیا ہے۔ اس خاندان کے بچے وضاحتیں دے رہے ہیں۔ نوازشریف نے کہا عدالتوں کے فیصلے بولتے ہیں، منصف خود نہیں۔ انصاف کا معیار سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا ہمارے خلاف انتقامی کارروائی ہو رہی ہے۔ میں ہر سازش کا مقابلہ کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ خیالی تنخواہ پر نااہل کرتے ہیں‘ کہہ دیتے ہیں کہ نوازشریف آپ کی شکل اچھی نہیں۔ کوئی اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار ہی نہیں‘ مجھے بتایا جائے میں نے کیا کیا ہے‘ کوئی بتائے تو صحیح‘ کرپشن تو دور کی بات الزام تو بتایا جائے اگر کوئی خوردبرد کی تو سامنے لاؤ۔ عمران خان نیازی سروس اور لاکھوں ٹرانزیکشن تسلیم کر رہا ہے۔ میں نے سو روپے کی کرپشن بھی کی ہوتی تو سیاست میں نہ آتا۔ عمران کیخلاف جے آئی ٹی نہیں بنی نہ کیس نیب میں گیا۔ اس کیس میں کہا جاتا ہے کہ 5سال سے پیچھے نہیں جانا۔ اس شخص کو تسلی دی جاتی ہے کہ بچے یہ آپ کا اثاثہ نہیں ہے۔ مائنس نوازشریف نہیں ہوا۔ نوازشریف دوبارہ پارٹی صدر بن گیا۔ فیصلہ کرنے والے سوچ رہے ہوں گے کہ نوازشریف کی صدارت ختم کی جائے۔
مشرف کی ذاتی کوشش تھی کہ مجھے سزائے موت دیدے۔ اگر وہ برداشت کرلیا تو یہ بھی کرلیں گے۔ نواز شریف نے کہا کہ شیخ مجیب الرحمن پاکستان کا حامی تھا مگر اسے باغی بنایا گیا ٗ میرے ساتھ ہونے والا سلوک لیڈروں کو باغی بناتا ہے ٗ میرے دکھوں کو اتنا زخم نہ لگاو کہ میرے جذبات سے باہر ہوجائے ٗآئین توڑنے والوں کا کبھی حساب نہیں لیا گیا ٗ سزا پہلے سنائی جارہی ہے اور الزامات بعد میں ڈھونڈے جارہے ہیں ٗ میرے خلاف کوئی بغض تھا تو مجھے بتا دیا جاتا ٗعمران خان کو صادق اور آئین قرار دینے والے ججوں کو سلیوٹ کرتا ہوں ٗ اگر وزیر اعظم کو عدالت میں جانا پڑتا ہے تو ایک ڈکٹیٹرکے لیے بھی یہی قانون ہونا چاہیے ٗسپریم کورٹ کے ساتھ کوئی جھگڑا یا تصادم نہیں صرف چند ججز کے ساتھ اختلاف ضرور ہے ہم نے عدلیہ کی بحالی کی تحریک چلائی ٗ اب عدل کی بحالی کے لیے نکلنا ہوگا ٗکچھ مخالفین مجھے پارٹی کا صدر دیکھنا نہیں چاہتے ٗ سینیٹ میں حق میں قرار داد کا پاس ہونا غیبی مدد ہے۔ سابق وزیر اعظم نے کہاکہ ہمیں ان تمام معاملا ت کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کہ 1971 میں ہم نے ایسا کیا کیا کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اور یہ وہی لوگ تھے ٗجنہوں نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر پاکستان بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ نوازشریف نے کہاکہ پاکستان بنانے میں سب سے زیادہ جدوجہد بنگالیوں نے کی ٗ ہم نے انہیں دھتکار کر اپنے سے علیحدہ کردیا جس کا نتیجہ ملک کے دولخت ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔انہوں نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ پر جسٹس حمود الرحمن نے جو کمشن بنایا اس میں ہر چیز کا تفصیلی جائزہ لیا اور سچی رپورٹ شائع کی تاہم ہم میں سے کسی نے اس رپورٹ پر عمل نہیں کیا ٗ اگر ہم اس پر عمل کرتے تو آج کا پاکستان مختلف ہوتا۔
نواز شریف نے کہا کہ 7 سال ملک سے باہر رہا ہوں، ہتھکڑیاں برداشت کی ہیں، ظلم برداشت کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری 70 سالہ تاریخ کیا ہے اور کس طرح ہمارے یہاں آئین توڑے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے اس کا کبھی حساب نہیں لیا اور جو قومیں اپنا احتساب وقت کے ساتھ نہیں کرتی وہ اس طرح کے دن کو دیکھتی ہیں۔اپنے خلاف مقدمات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں اور میری بیٹی روز احتساب عدالت میں پیش ہورہے ہیں جبکہ عوام کو یہ تک نہیں پتہ کہ یہ کیس کس بنیاد پر ہے۔انہوں نے کہاکہ قوم کو پتہ چلنا چاہیے کہ نواز شریف کا ٹرائل کس بنیاد پر ہو رہا ہے اور ان کے اوپر کیا الزامات ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جب پاناما میں کچھ نہیں ملا تو مجھے اقاما کی بنیاد پر نکال دیا گیا جبکہ دوسرا شخص اپنے تمام الزامات کو مان رہا ہے تو بھی اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ٗ 5 مہینے پہلے ملک ترقی کررہا تھا لیکن اس ترقی کو روک دیا گیا اور اس کے ذمہ دار شاہد خاقان عباسی نہیں بلکہ میرے خلاف دیا گیا وہ فیصلہ تھا۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ ناانصافیوں سے لوگ بڑے تنگ ہیں۔ آئین کی حکمرانی کے لیے آپ کو ساتھ دینا ہو گا۔ کہتے ہیں اورنج لائن بند کر دوں گا۔ آپ کی مہربانی سے اورنج لائن پہلے ہی بند رہی ہے۔ ہسپتالوں کے دورے کرو لیکن یہ بھی دیکھیں عدالتوں میں انصاف ہو رہا ہے یا نہیں۔ شریف خاندان کی حرمت کو داؤ پر لگا کر خود چھپ گئے۔ شریف خاندان کو توپوں کے سامنے بٹھا دیا۔ میرے دور میں جو ترقی رہی اسے روکنے کی کوشش کی گئی۔ یہ 2018ء سے پہلے مارشل لاء لگتا تو کسی کو پتہ نہیں چلتا تھا اب ایسا نہیں ہے میری نااہلی کا فیصلہ غلط تھا۔ کسی بھی چیز سے ڈر نے اور گھبرانے والا نہیں۔ کچھ لوگوں نے پارٹی صدارت کے بل پر ووٹ نہیں دیا عوام میں حاکمیت کا حق صرف اور صرف عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے۔ ججز نے مارشل لاء کو ویلکم کیا میں ایک اصول کے تحت کھڑا ہوا ہوں۔ ملک کو مصبتوں سے نکالنا ہے انہوں نے نام لیے بغیر کہا کہ ایسا مت کریں توبہ کر لیں اللہ سے معافی مانگیں۔
جو حکمران خود غیر جمہوری قوتوں کے بل بوتے پر اپنے وجود برقرار رکھے ہوئے یا جنہوں نے آمریت کی کوکھ سے جنم لیا ہے ایسے حکمران قانون کی بالا دستی کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک ہر شخص ہر ادارہ بکاؤ مال ہوتا ہے۔ سیاست میں اُن کے نزدیک صرف طاقت کا حصول ہوتا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود کے ذہن کے کسی گوشے میں پروان نہیں چڑھی ہوتی کیونکہ اُن کے خمیر میں یہ ہوتا ہے کہ ہر جائز اور ناجائز طریقہ اپناؤ اور اپنی کرسی کو مضبوط کرو۔ ایوب خان ، بھٹو، ضیا الحق، بے نظیر مشرف ، زرداری اور نواز شریف ہمای ملکی سیاست میں فعال کردار کے حامل ہیں۔ باقی چھوٹے موٹے سیاستدان یا مذہبی رہنماء صرف بطور پریشر گروپ ہی فعال رہے ہیں اور موجود دو میں بھی ایسا ہی ہے۔ ریاستی اداروں کی عزت و تکریم سے ہی ملک میں امن و سکون او ر خوشحالی کی فضاء قائم ہو پاتی ہے۔قانون معاشرے کی بہبود کے لیے ہوتے ہیں۔ مقننہ قانون بناتی ہے عدلیہ اُسکی تشریح کرتی ہے اور حکومت اِس پر عمل در آمد کرواتی ہے۔ گویا کہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار عدلیہ کا ہے لیکن اُس فیصلے پر اُس کی روح کے مطابق نفاذ کیے جانے کا اختیار حکومت کے پاس ہوتا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے عدلیہ کے فیصلوں پر من و عن عمل درآمد کرواتے ہیں۔ گویا مققنہ نے قانون بنا کر اپنا فرض ادا کردیا۔ عدلیہ نے قانون کے مطابق فیصلہ کردیا اور اُس فیصلے کو منوانا کے لیے طاقت/ نافذ کے کرنے کی قوت صرف حکومت کے پاس ہوتی ہے۔ آزاد عدلیہ کے نظریے کے مطابق انتظامیہ کے زیر تحت عدلیہ نے کام نہیں کرنا ہوتا ۔ بلکہ انتطامیہ اِس حوالے سے عدلیہ کے احکام پر عمل درآمد کروانے کی سو فی صد ذمہ دار ہوتی ہے۔ جن ملکوں میں شرح خواندگی سو فی صد ہے وہاں پر جمہوری نظام کے ثمرات نظر آتے ہیں لیکن جہاں وڈیرہ شاہی، سرمایہ دارنہ اور جاگیر دارانہ نظام ہو وہاں انسان کی عزت و توقیر نہیں بلکہ طاقت کو فوقیت حاصل ہے ایسا ہی تیسری اور چوتھی دُنیا کے ممالک کا پرابلم ہے وہ یوں کہ انسانوں کو نام نہاد جموریت جانوروں کی طرح ہانک رہی ہوتی ہے۔ یہاں نام نہاد جموریت کے طریقہ کار میں صرف وڈیرے سرمایہ دار، با اثر، لوگ ہی انتخابات جیت کر عوام پر باد شاہت کرتے ہیں۔ شیخ مجیب کے ساتھ نواز شریف نے خود کو مماثلت دی ہے۔اللہ پاک پاکستان پر رحم فرمائے۔