... loading ...
شوگر ملز مالکان چونکہ 95%برسراقتدار ٹولوں سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ کسی قانونی، اخلاقی تقاضوں سے اپنے آپ کو مبرا سمجھتے ہیں ۔اس پر طرہ یہ کہ انوکھا حکم عدالتوں نے جاری کررکھا ہے کہ جنوبی پنجاب کی تین شوگر ملیں چونکہ غیر قانونی طور پر نصب کی گئی تھیں اس لیے انہیں یہاں سے اکھاڑا جائے اور انہیں فوری مستقل طور پر بند کرنے کا حکم جاری کررکھا ہے۔ اب جن کسانوں نے جنوبی پنجاب میں ان تین ملوں کی وجہ سے مزید ڈیڑھ لاکھ ایکڑ سے زائد زمین پر گنا صرف اس لیے کاشت کیا تھا کہ وہ ان ملوں کو فروخت کرکے اپنے بال بچوں کا دال دلیہ چلائیں گے۔اب وہ کہاں جائیں؟ اور اس کاشت شدہ گنے کی فصل کو کہاں لے جائیں؟ یہ جہانگیر ترین کی درخواست پر ایسا عدالتی فیصلہ کیا گیا ہے۔ان کی اور ان کے رشتہ داراحمد محمود صدر پی پی پی جنوبی پنجاب کی بھی شوگر ملیں ادھر ہی ہیں۔
اب کسانوں کو لوٹنے کا عجیب و غریب کاروبار جاری ہے۔اول تو گنا ہی حکومتی مقرر شدہ قیمت 180/-فی من کی بجائے 100/- سے 120/-روپے تک فی من خریدا جارہا ہے۔ پھر وزن کی کٹوتی ایک گنا سے بھرے ہوئے ٹرالے پر کوئی چالیس من سے بھی زائد کی جارہی ہے اور سادا کاغذ پر گنے کا تول درج کرکے کسانوں کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔اس پر قیمت اس لیے نہیں لکھی جاتی کہ پھر تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ کسان کسی مجاز عدالت یا انتظامیہ کے پا س درخواست/شکایت کرسکتے ہیں ۔جنوبی پنجاب سے ملحقہ سندھ میں تو ویسے ہی 90%ملوں کا ’’قبضہ ‘‘ جناب آصف زرداری کے پاس ہے اور انہوں نے کل قیمت کی 1/10قیمت پر بہت ساری ملیں اونے پونے داموں ’’خرید‘‘ کررکھی ہیں۔ بلکہ زیادہ بہتر ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ اصل مالکان جان جانے کے خوف سے خود ہی ملوں سے نکل گئے ہیں۔
اس طرح معمولی قیمت کی لکھائی پڑھائی کے بعد ملوں کی ملکیت آصف زرداری کے پاس ہے ۔ وہاں گنا کاریٹ 182/-روپے مقرر ہوا مگر وہ جنوبی پنجاب کی ملوں کی طرح تقریباً 120/-روپے کے اوپر نیچے گنا خریدنے کی وجہ سے وہ بھی اسی ریٹ پر گنا خرید رہے ہیں۔ کئی ملوں نے تو ابھی تک بھی کرشنگ شروع نہیں کی۔گنا کی سینکڑوں ٹرالیاں ملوں کے باہر کھڑی ہیں اور گنا سوکھ رہا ہے،جس کا مکمل فائدہ سودخور نودولتیے سرمایہ دار مل مالکان کو ہی ہوگا کہ جیسے جیسے گنا دھوپ میں سوکھے گا اس کی مٹھاس بڑھتی چلی جائے گی یعنی چینی زیادہ تیار ہوگی۔ مگر تولنے میں تو کسانوں کو سراسر نقصان ہوگا۔ درمیان میں گھُسے ہوئے آڑھتی نما دونمبر بلیک میلربھی حکومت کی شہ پر اپنی کمائی کررہے ہیں۔
کسانوں کو بلیک میل کرکے خود گنا خرید کر مالکان سے گٹھ جوڑ کرکے ملوں کو سپلائی کرتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ کسان کی کھال نیچے سے اوپر تک مکمل ادھیڑی جارہی ہے اور جن زمینوں پر ابھی گنا کھڑا ہے وہاں پر گندم کی بوائی لیٹ ہورہی ہے جس سے گندم کی فصل کی بھی تباہی کا اندیشہ ہے۔ سپریم کورٹ اگر از خود نوٹس لے کر جنوبی پنجاب کی بند کردہ تین شوگر ملوں کو صرف موجودہ سال کیلیے چلانے کا حکم جاری کردے تو ہی کسانوں کا گنا فروخت ہوسکے گا۔ وگرنہ جنوبی پنجاب اور ملحقہ سندھ کے کسان اس دفعہ دووقت کی روٹی حتیٰ کہ نان جویں کو بھی ترسیں گے اوران کا اربوں کا نقصان کئی سالوں بعد بھی پورا نہ ہوسکے گا ۔ کسانوں نے بیج کھاد ، بوائی کٹوائی کی رقوم بینکوں اور آڑھتیوں سے قرضہ کے طور پر لے رکھی ہیں ، ان کی ادائیگی اس سال نہ ہوسکی تو پھر ان کسانوں کا خدا ہی حافظ ہے۔
کسان بورڈ 11جنوری کو پنجاب اسمبلی کے سامنے کاشت کاروں کے حقوق کیلیے احتجاجی تحریک کا آغاز کررہا ہے۔ کسان اتحاد و دیگر کاشتکار تنظیمیں پہلے ہی جلو س ، جلسے اور دھرنے کرچکی ہیں ۔ مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ شوگر ملوں کی لوٹ مار پر انتظامیہ بھی بے بس ہے۔ انہوں نے ڈھیروں مال متال مل مالکان سے بٹور رکھا ہے ۔ جہاں جہاں ملز موجود ہیں وہاں کے ڈی سی او، اے سی اور پولیس افسران و متعلقہ ایم پی اے ، ایم این اے کو حصہ بقدر جسہ مل مالکان حفظ ماتقدم کیلیے پہلے ہی دے دیتے ہیں تاکہ وہ کوئی ایسا ویسا حکم جاری نہ کریں جو مالکان کے مفاد میں نہ ہو اور کسی بھی احتجاج پر اسی طرح ’’چپ کا روزہ‘‘ رکھے رہیں ، جیسے وہ نشہ آور اشیاء کی فروختگی پر کرتے ہیں ۔ وہ اس طرح ’’درگزر‘‘ کرتے رہتے ہیں کہ (’’ماہانہ بھاری نذرانہ‘‘ جس کا حصہ ’’ایمانداری سے‘‘ اوپر تک پہنچتا رہتا ہے جس میں ایک پیسے کی بھی اونچ نیچ یا ہیرا پھیری نہیں ہوسکتی۔ کہ بیوروکریسی کا یہ انتہائی منظم مافیا ہے)۔
مال لگاتے رہو اور جیسے مرضی جس قسم کا چاہو نشہ برسرعام فروخت کرتے رہو۔ کرپٹ بیوروکریسی اور پولیس افسران اگر نہ چاہیں تو نہ تو مل مالکان من مرضی کرسکتے ہیں نہ ہی نشہ کا کاروبار یوں دھڑلے سے چل سکتا ہے۔ حکمران تو اپنے ہی ذاتی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اس لیے انہیں کسی کسان پر ظلم کا کیسے خیال آسکتا ہے ؟ ’’تجھے پرائی کیا پڑی ، اپنی نبیڑ تو‘‘ کے مصداق شریفین سبھی اپنی رام کہانیوں میں مست ہیں ! اور گنے کے کاشتکاروں سے کٹوتیوں اور وزن کی ہیرا پھیریاں کر کے دن دیہاڑے مل مالکان ڈاکہ زنی میں ملوث ہیں ۔ مگر چونکہ تقریباً ساری ملز اقتداری افراد کے قبضہ میں ہیں ا س لیے ان کے خلاف کسی قسم کا ایکشن لینا ’’ ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘ اگر کسانوں و کاشتکاروں کا مسئلہ احسن طریق پر حل نہ کیا گیا تو حکمرانوں کا موجودہ دور سیاہ تاریخ کا ایسا باب بن جائے گا جس میں گنے کے کاشتکاروں کو زندہ درگور کرڈالا گیا تھا۔
اقتداری و اپوزیشنی سیاسی جماعتیں دیگر معاملات پر تو جلسے جلوس اور دھرنے کرتی رہتی ہیں مگر کسی سیاسی’’ مچھندر‘‘ نے آج تک مہنگائی یا کسانوں کے گھمبیر مسئلہ پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ صرف اس لیے کہ وہ مزدوروں ، کسانوں کے طبقے سے تعلق نہیں رکھتے ’’جس تن لاگے اس تن جانے‘‘ کی طرح لوٹ کھسوٹ کا یہ کاروبار اس وقت تک جاری رہے گا جب تک یا تو مزدوروں کی منتخب یونینوں کو ملوں کا کاروبار حوالے کیا جائے یا پھر طبقات کی تعداد کے مطابق متناسب نمائندگی کے اصولوں پر انتخابات ہوں ۔ اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی توآہوں سسکیوں اور مظلوم کسانوں کی صدائیں عرش معلی سے ٹکرا جائیں گی ۔ اندیشہ ہے کہ منجدھار میں ڈولتی نیا کہیں گہری کھائی میں ڈوب نہ جائے۔