... loading ...
کچھ دنوں قبل ضلع مظفر گڑھ کے شہر نما قصبے’’ خان گڑھ ‘‘ میں بابائے جمہوریت نوابزدہ نصراللہ خان کے مرقد پر حاضری کے لیے پہنچا تو نواب خاندان کے آبائی قبرستان کے دروازے مقفل تھے ۔ اپنے کزن کی معاونت سے دیوار پھلانگ کر قبرستان کے اند ر داخل ہو کر پاکستان کی سیاست میں جمہورکے تحفظ کی توانا علامت کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کامیاب ہو ا ۔نواب زادہ نصر اللہ خان سے میری عقیدت نے کچھ عرصہ پہلے اُس وقت بھی انگڑائی لی تھی جب لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب ’’ بوہڑ والے چوک ‘‘ میں اُن کی رہائش گاہ میٹرو اور اورنج ٹرین پر قربان ہو رہی تھی ۔ اُن کی اِس’’ بیٹھک ‘‘میں اُن سے ملاقات کی ایک یاد ہمیشہ امر رہنے والی ہے۔ جب مُجھے ایک اخبار کے لیے پاکستان کی سیاسی تاریخ کی اس بلند قامت شخصیت سے گفتگو کا موقع ملا تھا ۔ نوابزادہ کی شاعری اُن کی گفتگو میں جہاں رس گھولتی وہاں حریت ِ فکر کا ابلاغ بھی کرتی تھی ۔ سب جانتے ہیں کہ وہ ’’ ناصر ‘‘ تخلص کیا کرتے تھے ۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں اُن کے جن اشعار نے بہت زیادہ شہرت پائی ان میں سے ایک مجھے اس طرح سے یاد ہے۔ کہ
کتنے بے درد ہیں کہ صَر صَر کو صبا کہتے ہیں
کتنے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیاء کہتے ہیں
ہماری قومی سیاست میں ُان کی انفرادیت کی آنچ جمہوریت سے وابستگی برقرار رکھنے والی قربانیوں کا ثمرہ ہے ۔ آمرانہ قوتوں کے ہاتھوں لخت لخت ہوتی جمہوریت اور ڈکٹیٹروں کے مصاحبوں کی وجہ سے برباد ہوتی سیاست کو اُنہوں نے ہمیشہ استعمار کی ظلمت سے بچانے کی کوشش کی ۔وہ آمریت کے باغیوں کے لیے حوصلے کی چٹان تھی۔ جمہوریت کی خاطر اُنہیں اکثر جلتے ہوئے سانس کاتنے او ر دُکھ بگولے اُوڑھنے پڑ تے تھے ۔ اپنی عمر کے آخری سالوں میں اُنہوں جنرل پرویز مشرف کے دورمیں نواز شریف کا بھرپور ساتھ دیا تھا لیکن جب راتوں رات شریف خاندان مسلم لیگ ن کے لیے قائم مقام صدر کے طور پر جاوید ہاشمی کے نام کی پرچی ہوا میں اُچھال کر سعودی عرب کے شہر جدہ کے ’’ سرور پیلس ‘‘ کے مکین ہو گئے تو نوابزادہ نصر اللہ خان ناصر بول اُٹھے تھے ۔کہ’’ ہم نے سیاسی زندگی میں پہلی بار ایک کاروباری شخص پر بھروسہ کیا اور مات کھا گئے ۔‘‘شریف فیملی سے ایک ایسی ہی شکست پاکستان کی تاریخ میں ’’ غازی تختہ دار ‘‘ کا خطاب پانے والے مولانا عبد الستار خان نیازی نے بھی کھائی تھی جب اُنہوں نے ’’ نفاذِ اسلام ‘‘ کے وعدے پر پہلے نواز شریف کی وفاقی کابینہ میں وزارت مذہبی اُمور اور بعد میں وزارت بلدیات کے قلمدان سنبھالاتھا ۔ایسا ہی ملتا جُلتا ایک واقعہ کچھ یوں ہے کہ 2008ء کے عام انتخابات میں جب ایک سیاسی اتحاد کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیا گیا تو میاں نواز شریف نے اُس فیصلے سے بغاوت کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا تھا مگر اس سیاسی چال کے مقابلے میں عمران خان ڈٹے رہے اور اُن کی جماعت انتخابات سے باہر رہی ۔ ان تینوں واقعات پر ہمارے ایک دوست نے بڑا گہرا تبصرہ صادر فرمایا ہے کہ
’’ رانجھے کی بنسی کی لے پر جنگل روتا ہے
ہیر کے آنگن شہنائی نے ڈیرے ڈالے ہیں
میثاق جموریت کی ایک کلیدی فریق جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے اگلی باری کو اپنا بنانے کے لیے ایک طویل عرصہ تک روشنی کا محافظ بن کر اندھیروں کی وکالت کی ۔اپنی اس ’’ جمہوریت دوستی ‘‘ پر شاید انہیں کوئی پچھتاوا بھی ہے کہ وہ بار بار طعنہ دیتے ہیں کہ علامہ طاہر القادری اور عمران خان کے دھرنا ایام میں انہوں نے میاں نوازشریف کی حکومت کو بچا کر جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچایا تھا ۔ آج وہ اُس اتحاد کا حصہ ہیں جو میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے علیحدگی پر قناعت کرنے کو تیار نہیں اور چھوٹے میاں کو بھی باہر نکالنے پر کمر بستہ ہے ۔ میاں صاحبان اور ان کے ساتھی جس آصف علی زرداری کو میثاق جمہوریت کا باغی قرر دیتے ہیں اُسی مبینہ باغی کا تازہ ارشاد سامنے آیا ہے کہ
’’ نوابزادہ نصر اللہ خان کی کمی علامہ طاہر القادری کی صورت میں پوری ہو گئی ہے ‘‘۔
ہماری سیاست کی رنگا رنگی اور مرنجا مرنجی میں ہمارے سیاست دانوں کی اُفتاد طبع اور وقتاً فوقتا سامنے آنے والے فرمودات ماحول کو ظریفانہ رنگ دے دیتے ہیں ۔ آصف علی زرداری بہت دلچسپ گفتگو کرتے ہیں ۔ اُن کی گفتگو پر بعض اوقات گہرائی اور گیرائی کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ مطالب و مفاہیم اس انداز سے واضح ہوتے ہیں کہ ہر کوئی مرضی کا مطلب اخذکر سکتا ہے ۔ اور ان کے فرمودات کا اصل مدعا اُن کے بغیر کوئی دوسرا مشکل سے ہی جان پاتا ہے ۔ ان کی سیاست کو جاننے کی کوشش کرنے والوں کا حال ناہید خان اور ان کے شوہرِنامدار جیسا ہوتا ہے جو ایک عرصہ سے صدا لگاتے پھر رہے ہیں کہ
’’ بول میرے مٹی کے مادھو بول ‘‘
جسٹس علی باقر نجفی رپورٹ کے پبلک ہونے کے بعد علامہ طاہر القادری نے احتجاج کی جو نئی تحریک شروع کی ہے اس میں انہیں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہوئی ۔ اپنی آل پارٹیز کانفرنس میںوہ ان دنوں جماعتوں کی ایک دوسرے کے ساتھ سخت مخالفت کے باوجو د انہیں اپنے دائیں بائیں بٹھانے میں کامیاب ہو گئے ۔
موجودہ سیاسی صورتحال کے سلگتے ہوئے موضوعات میں علامہ طاہر القادری کی کوششوں سے حکومت کے خلاف ایک وسیع المقاصد سیاسی اتحاد کی تشکیل اور شریف برادران کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے ممکنہ نتیجے کے طور پر کسی نئے این آر او کے خدشات نمایاں ہیں ۔ آصف علی زرداری نے علامہ طاہر القادری کو نوابزادہ نصر اللہ خان کا متبادل قرار دے کر انہیں متحدہ اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی جانب متوجہ کیا ہے ۔ بعض مبصرین آصف علی زرداری کے نئے قول سے یہ مطلب بھی اخذ کررہے ہیں کہ آصف علی زرداری کسی ایسی متحدہ اپوزیشن میں شمولیت پر رضا مندی کا اشارہ دینا چاہتے ہیں جس میں عمران خان کی پی ٹی آئی بھی شامل ہو ۔ بحرحال کسی بھی گمان کو ہم یقین کا لبادہ اُوڑھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
پاکستانی قوم کا وہ طبقہ جس کی خواہشات کا اظہار آجکل شیخ رشید احمد کی تقاریر اور بیانات سے ہوتا ہے وہ موجودہ سیاسی سیٹ اَپ میں جوہری تبدیلیوںکا خواہش مند ہے۔ایسے میں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے نوابزادہ نصر اللہ خان برصغیر کی سیاسی تاریخ ، سیاست کے فلسفہ سیاسی کارکنوں کی ذہنی اور قلبی حد بندیوں سے ہمیشہ آگاہ رہنے کے ساتھ ساتھ وقت اور حالات پر گرفت رکھنے کا ہُنر بھی جانتے تھے اور یہی اوصاف ابھی تک ہماری سیاست کو ان کا ثانی فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ صائمہ اسحاق کا کہنا ہے کہ
کچھ حقائق اُسے بتانے ہیں
کچھ پہ رکھنی ہے ماہرانہ چُپ