... loading ...
سیاست میں خاندانی اثرات پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں برصغیر میں بھی یہ اثرات بہت گہرے ہیں برصغیر ہند جو کبھی ایک ملک ہوا کرتا تھا اب تین ممالک میں تقسیم ہو چکا پاکستان ‘بنگلہ دیش اور بھارت ان تینوں ممالک میں سیاست پر خاندانوں کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ ان تینوں ممالک میں سیاست خاندانوں کے گرد گھومتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اکثر سیاسی جماعتیں خاندانی دائروں کے محور میں ہی گردش کرتی رہتی ہیںاور اس میں کسی ملک کو استثنیٰ حاصل نہیں ہندوستان میں نہرو خاندان عملا کانگریس پر قابض ہے۔ تو بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن مرحوم کی بیٹی کسی اہلیت کے بغیر پارٹی کی قیادت کی حقدارٹھہری لیکن پاکستان کی صورتحال سب سے ا بتر ہے جہاں پیپلز پارٹی ،اے این پی (سابقہ نیشنل عوامی پارٹی) اور مسلم لیگ میں بھی یہ عنصرغالب نظر آتا ہے ،تو دینی سیاسی جماعتوں میں بھی ملوکیت موجود ہے یہ جماعتیں دعوے دار ہیں کہ ملک میں خلافت کا نظام رائج کریں گی لیکن ان جماعتوں کے اندر ملوکیت ہی رائج ہے ، جمعیت علماء اسلام (ف) ہو یا (س) یاجمعیت علماء پاکستان ہر جگہ ملوکیت ہی نظر آتی ہے، جمعیت علماء اسلام (ف) میں درویش صفت مفتی محمود کے منطق کے ماہر فرزند کے سوا کوئی جوہر قابل دستیاب نہیںتو جمعیت علماء اسلام (س) کا بھی یہ ہی حال ہے، جمعیت علماء پاکستان میں جید علماء کی موجودگی میں شاہ اویس نورانی ہی علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم کے جانشین قرار پائے ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں اے این پی (این اے پی) کی قیادت اب خاندان کی چوتھی نسل کو منتقل ہونے جارہی ہے خان عبدالغفار خان مدفون کابل اور خان عبدالولی خان کے بعد قیادت کا تاج خان عبدالولی خان کے قریبی ساتھی اجمل خٹک کے بجائے ولی خان کے فرزند اسفند یار ولی کے سر کی زینت بنا تو اب یہ تاج اسفند یار ولی کی اولاد کے سروں پر سجانے کی تیاری ہو رہی ہے مسلم لیگ کے یوں تو کئی دھڑے ہیںلیکن معروف مسلم لیگ( ن) ہی ہے یا تھوڑی بہت شناخت مسلم لیگ (ق )رکھتی ہے ۔
مسلم لیگ (ن ) کے قائد نواز شریف کو اعلی ترین عدالت کی جانب سے خائن اور کاذب قرار دیے جانے کے بعد اسمبلی میں اکثریت کی طاقت سے قانون تبدیل کرایا گیا اور نا اہل شخص کو پارٹی قیادت کے لیے بھی نااہل قرار دینے والے قانون کو آمریت کی یادگار قرار دے کر مسمار کردیا گیایہ درست کہ اسمبلی کو قانون میں ترمیم کا حق حاصل ہے لیکن وہ صورتحال کیا مضحکہ خیز ہوگی کہ ایک نا اہل شخص یہ تعین کر رہا ہو گا کہ اسمبلی میں پارٹی اور حلقہ کی نمائندگی کا اہل کون ہے، اگرچہ پارٹی میں نواز شریف سے زیادہ سینئر مسلم لیگی موجود ہیں جن میں راجہ ظفر الحق سب سے نمایا ں ہیں جن کے دامن پر طویل سیاسی کیرئیر کے باجود کوئی داغ نہیں لیکن آئندہ وزیر اعظم کے لیے پارٹی کی جانب سے شہباز شریف کو نامزد کیا گیا ہے اور پارٹی قیادت کے لیے مریم نواز شریف (مریم صفدر) کو تیار کیا جا رہا ہے (گویا چور ،چوکیداروں کا تعین کر رہا ہوگا)۔
مسلم لیگ کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی میں بھی قیادت کے لیے اہلیت کا واحد پیمانہ بھٹو خاندان سے وابستگی ہے سر شاہنواز بھٹوکی 1934میں قائم کردہ پیپلز پارٹی جس کا دوسرا جنم 29نومبر 1967کو ہوا ،کی قیادت پہلے سر شاہنواز بھٹو کے فرزند ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں میں رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اگرچہ پارٹی میںمخدوم محمد زماں طالب المولیٰ مشیر احمد پیش امام ڈاکٹر مبشرحسن غلام مصطفی جتوئی ایسے سینئرسیاست دان موجود تھے لیکن پارٹی کی قیادت پہلے محترمہ نصرت بھٹو اور مختصر دورانیہ کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہاتھوں میں چلی گئی محترمہ بے نظیر بھٹو نے تقریبا 25سال تک پارٹی کی قیادت کی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی روالپنڈی میں شہادت کے بعد بلاول زرداری کو قیادت سونپے جانے سے قبل ان کے نام کے ساتھ بھٹو کا سابقہ لگانا ضروری خیال کیا گیا۔ اب بلاول زرداری بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ جس وقت بلال زرداری کو پارٹی کا چیئر مین مقرر کیا گیا اس وقت ان کی عمر صرف 19سال تھی اور ابھی ان کی طالب علمی کا دور ختم نہیں ہوا تھا دوسری جانب پارٹی میں اہل اور بھٹو خاندان سے وفادار افراد کی کمی نہیں تھی جن میں سب سے نمایاں نام مخدوم محمد امین فہیم کا ہے۔
مخدوم خاندان کی پارٹی اور بھٹو خاندان سے وفاداری کس شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ مخدوم محمد زماں طالب المولیٰ نے اس وقت پارٹی کو بکھرنے سے بچایا جب محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطن تھیں اور ملک پر ضیاء الحق کی آمریت کا اندھیرا چھایا ہوا تھا اس دور میں مخدوم محمد زماں طالب المولیٰ پر حکمران نے ترغیب و تحریص اور جبرکا کونسا ہتھکنڈہ نہ آزمایا مخدوم محمد زماں طالب المولیٰ کو اگرچہ حوالہ زندان نہیں کیا گیا کہ ایسا کرنا ملک خصوصا سندھ میں عملا آگ لگانے کے مترادف ہوتا۔ مخدوم خاندان سندھ کی دوسری بڑی گدی سے تعلق رکھتا ہے اور مخدوم سرور نوح کی جماعت کے مریدوں کی تعداد کم و بیش 40 لاکھ ہے۔
ضیاء الحق کے دور میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو جلا وطن تھیں تو مخدوم محمد زماں طالب المولیٰ نے پارٹی کو سنبھال کر رکھا اور جب پروز مشرف کی آمریت میں بے نظیر بھٹو نے ایک مرتبہ پھر خود سابقہ جلاوطنی کا فیصلہ کیا تو مخدوم محمد زماں طالب المولی کے فرزند مخدوم محمد امین فہیم قانون کی ضرورت پورا کرتے ہوئے اگرچہ پیپلز پارٹی کے چیئر مین بنے لیکن انہوں نے اس مرحلہ پراپنی پارٹی کے نام کے ساتھ پارلیمینٹرین کا سابقہ لگایا یوں پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر مین محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں اور اس پارٹی کی اسمبلیوں میں نمائندگی کرنے والی پارٹی کا نام پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین تھا جس کی سربراہی مخدوم محمد امین فہیم کر رہے تھے ۔جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی مہلت ختم ہوئی تو مخدوم خاندان کی ساری قربانی اور ایثار کو نظر انداز کرتے ہوئے اس وقت اسمبلی کی رکنیت کا اہل نہ ہونے کے باوجود بلاول زرداری کو بلاول بھٹو زرداری میں تبدیل کرتے ہوئے پارٹی کا چیئر مین مقرر کردیا گیا۔ اس کے باوجود ان تمام پارٹیوں کا دعویٰ ہے کہ ملک میں جمہوریت ان کی وجہ سے ہی برقرار ہے۔
اگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر نظر ڈالیں تو صرف ایک جماعت ایسی نظر آتی ہے جن میں حقیقی جمہوریت بھی ہے اور ملوکیت کا اس میں دخل نہیں۔ اس کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی حیات میں ہی جماعت کی قیادت میاں طفیل محمدکے حوالے کردی تھی، اگرچہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے فرزند جماعت کے رکن تھے لیکن قیادت فرزند نہیں اہل فرد کو منتقل ہوئی سید ابو الاعلیٰ مودودی اس کے بعد تقریبا 7سال حیات رہے۔ جب میاں طفیل محمد نے محسوس کیا کہ اب وہ جماعت کی ذمے داریاں پوری کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں تو انہوں نے بھی اپنی بیٹوں کے رکن جماعت ہونے کے باوجود امارت کی ذمے داری استصواب کے ذریعہ اپنے قیم ( پارٹی سکریٹری) قاضی حسین احمد کے حوالے کردیں اور ارکان جماعت کو واضح ہدایت کی کہ انہیں مرکزی شوریٰ کا رکن منتخب نہ کیا جائے کہ اس طرح امیر پر اپنے پیشرو کی موجودگی دبائو کا باعث بن کر آزادنہ فیصلہ کرنے میں رکاوٹ بن سکتی ہے جب قاضی حسین احمد کی صحت نے جواب دیا اور انہوں نے امیر کے استصواب سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا توسید منور حسن جماعت اسلامی کے امیر قرار پائے ۔
مولانا سید ابولاعلی مودودی 30سال تک امیر رہے میاں طفیل محمد نے یہ ذمے داریاں 15سال تک ادا کیں قاضی حسین احمد 22 سال تک اس منصب پر فائز رہے سید منور حسین صرف 5سال اس منصب پر فائز رہے اور اب سراج الحق جماعت اسلامی کے امیر ہیں سید ابولاعلی مودودی سے سراج الحق تک امیر جماعت اسلامی بننے والوں میں کوئی خونی رشتہ نہیں ہے لیکن ایک بہت مضبوط تعلق ہے دین کا تعلق۔ جو سارے خونی رشتوں پر بھاری ہے ان سب کی نظر میں اسلام کے پہلے غزوہ بدر کا وہ منظر ہے ،جب لشکر کفر میں شامل ایک فرد کو ایک انصاری صحابی باندھ رہے ہیں تو اس نے اپنے بھائی جو اسلام قبول کرکے لشکر اسلام کا حصہ تھے کو پکارا کہ دیکھو انصاری مجھے باندھ رہا ہے میری مدد کرو تو اس صحابی نے اس کو باندھے اور گرفتار کرنے والے انصاری صحابی کو پکار کر کہا کہ اس کو مضبوطی سے باندھنا کہیں یہ بھاگ نہ جائے اس کی ماں بہت مال دار ہے وہ اس کی رہائی کے لیے بہت زیادہ فدیہ دے گی۔
ایک اور روایت حضرت ابوبکر صدیقؓ سے منسوب ہے حضرت ابو بکر صدیقؓ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں آپ کے صاحبزادے فتح مکہ تک اپنے آباء کے دین پر قائم تھے اور تقریبا ہر جنگ میں لشکر کفر کا حصہ ہوتے تھے انہوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا اس کے کچھ عرصہ بعد ایک نشست میں انہوں نے اپنے والد کو بتایا کہ بدر کے مقام پروہ( حضرت ابوبکر صدیقؓ) اس کی تلوار کی زد میں آئے تھے لیکن اس نے ہاتھ روک لیا تھا کہ سامنے باپ تھا اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ تیرا ہاتھ رک ہی جانا تھا کہ تو اس وقت جاہلیت پر قائم تھا اور جاہلیت میں خونی رشتہ مقدم ہوتا ہے۔ اگر تو میری تلوار کی زد میں آتا تو تیرا سر تن سے جداہوجاتا کہ دین میں رشتہ نہیں رب سے تعلق مقدم ہوتا ہے ۔ آج مسلم ممالک کا اصل مسئلہ ملوکیت ہے اور جہاں ملوکیت نہیں ہے ان ممالک سے ملوکیت والوں کی نفرت کو دین کا رنگ دیا جاتا ہے۔