... loading ...
شاعرعلی شاعر
تنقید نگار سعادت حسن منٹو کے بارے میں اچھی رائے رکھے یا بری۔ یعنی وہ منٹو کو اچھا افسانہ نگار مانے یا فحش و عریانیت پھیلانے والا قلم کار۔ یہ اس کی صواب دید پر منحصر ہے۔ کیوں کہ جب کوئی شخص اپنی آنکھوں پر تعصب کی عینک لگا کر دیکھتا ہے تو اسے اس شخص کی خو بیاں بھی خامیاں نظر آتی ہیں اور جب کوئی تنقید نگار توصیف و تعریف یا دوستی کی عینک سے دیکھتا ہے تو اسے اس شخص کی خامیاں بھی خوبیاں نظر آنے لگتی ہیں اور وہ تنقید نگار تعصب کی عینک لگا کر کہہ دیتا ہے کہ منٹو کے افسانے متنازعہ ہیں۔ اس کے افسانے عریانیت پھیلانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ یا پھر یہ کہہ دے کہ منٹو نے جو کچھ لکھا، وہ روپے پیسے کمانے اور اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کی خاطر لکھا۔ تو اس طرح ڈیمانڈ پر لکھا گیا ادب ڈائجسٹوں کے لیے تو قابلِ قبول ہوسکتا ہے مگر اسے ادب میں کوئی مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔
اور جب تنقید نگار تعریف و توصیف کی نظر سے دیکھتا ہے تو وہ بغیر دلائل کے لکھ دیتا ہے کہ سعادت حسن منٹو ایک Legend افسانہ نگار ہے۔ اس کے افسانوں میں آفاقیت ہے۔ موضوعات کا تنوع ہے، معاشرے کی دکھتی رگوں پر سعادت حسن منٹو نے ہی ہاتھ رکھا ہے۔ وہ ایک سچا قلم کار ہے۔ اس جیسا کوئی دوسرا افسانہ نگار پیدا نہیں ہوسکتا۔
مذکورہ بالا دونوں آراء کی روشنی میں، جب ہم سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں دونوں آراء میں بڑا جھول نظر آتا ہے۔ بڑا تعصب نمایاں ہوتا ہے اور تنقید نگار پر شک کی نظر پڑی ہے۔ شکوک کی، شہبات کی انگلیاں اُٹھتی ہیں۔ کیوں کہ دونوں آراء میں شدت پسندی سے کام لیا گیا ہے۔ ان میں دراصل تنقید کا حق ادا نہیں کیا گیا۔ سنی سنائی باتوں کو لکھ دیا، یا بیان کردیا گیا ہے۔ یعنی چبے چبائے نوالوں کو دوبارہ چبایا گیا ہے۔ نقاد نے خود مطالعے کے دریائے بے کنار میں اُتر کر گوہرِ نایاب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ جو گوہرِ نایاب نقد کی صورت میں دوسروں کے ہاتھ لگے، اس کی آب و تاب کو دیکھ کر تعریف کردی،یا زیادہ سے زیادہ جو کچھ انہیں ساحل پر نظر پڑا آیا، اسی کو منٹو نے افسانہ نگاری سے منسوب کردیا ہے۔
ایک نقاد کا کام یہ نہیں ہوتا۔ ایک نقاد غیر جانب دار شخص ہوتا ہے۔ وہ تخلیق کار کا نہ تو دوست ہوتا ہے اور نہ دشمن۔ وہ تو تخلیق سے تحقیق کرکے محاسن و معائب تلاش کرتا ہے۔ وہ کسی کی شخصیت، عہدے، دولت، شہرت یا دوستی سے مرعوب نہیں ہوتا ۔ اسے تو اپنا فرض مکمل ایمان داری اور دیانت داری سے پورا کرنا ہوتا ہے۔ اسے تو دن کو دن اور رات کو رات کہنے کی سچائی قبول کرنا ہوتی ہے اور اسے اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے تخلیق کے دامن میں نہاں ثبوت و دلائل پیش کرنے ہوتے ہیں۔ جس کے بعد ایک عام شخص بھی مان لیتا ہے کہ اس نقاد نے جو کچھ لکھا ہے، وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ کیوں کہ وہ اگر دن کو دن لکھ رہا ہے تو سورج کی کرنیں، بادِ سحری، چڑیوں کا چہچہانا، سورج کا طلوع ہو کر اپنی منزل کی طرف سفر کرنا، صبحِ کاذب کے بعد صبحِ صادق کا ہونا، پو پھٹنا، اجالا چھاجانا اور تیرگی کو روشنی کا نگل جانا، لوگوں کا بیدار ہوناجانا، اور اپنے اپنے رزق کی تلاش میں نکلنا، اپنے کاروبار سنبھالنا ، بازاروں اور سڑکوں کی رونق اس کی سچائی کی دلیلیں ہیں۔ اور اگر وہ رات کو رات کہتا ہے تو پھر وہاں سورج کے بجائے چاند چمک رہا ہوگا۔ ستاروں کے جھرمٹ ٹولیوں کی شکل میں محوِ گفتگو ہوں گے، تیرگی کو جگمگا رہے ہوں گے،چاند کو مسکرا کر دکھا رہے ہوں گے، آسماں کی نہ ختم ہونے والی وسعت میں اپنے ہونے کا ثبوت پیش کررہے ہوں گے۔ چاند اپنا سفر مکمل کررہا ہوگا۔ جنگلوں میں تیرگی اپنا تسلط قائم کررہی ہوں گی، مگر چاند نی تیرگی سے برسرِ پیکار ہوگی۔ رات کی سیاہی کے دامن میں کوئی ننھا سا دیا ٹمٹما کر، تاریکیوں کو چڑا رہا ہوگا، کوئی جگنو روشنی اِدھر سے اُدھر لیے پھر رہا ہوگا، اجالے بے بسی سے تاریکی کی چادر میں قید ہوگئے ہوں گے۔ روشنی پر تیرگی با زورِ بازو قابو پاچکی ہوگی۔ یہ تمام دلیلیں رات ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔
اسی طرح کسی بھی تخلیق کے محاسن دلائل سے ثابت کرنا، اور معائب کی نشان دہی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا عیب بیان کرنا، تنقید کہلاتا ہے۔ یعنی کسی بھی شے کی خوبیاں اور خامیاں بغیر کسی لائو لپیٹ کے نشان زد کردینا ہی غیر جانب دار تنقید کہلاتی ہے۔ ہمارے نقاد تعریف و توصیف لکھ دینے کو تنقید نگاری کا نام دیتے ہیں۔ کوئی معائب کی تلاش میں سرگرداں رہنے کو تنقید نگاری کا نام دیتا ہے۔ یہاں تک کہ تبصراتی مضامین کو تنقید کہا جانے لگا ہے۔
ان تمام باتوں کو پسِ پشت ڈال کر اگر ہم تنقید کا حق ادا کریں اور کسی تخلیق کا جائزہ لیں تو ہمیں اس تخلیق پر مکمل عبور ہونا چاہیے، اس کے بارے میں مکمل معلومات ہمارے خزانۂ علم میں موجود ہو۔ اس صنفِ سخن یا صنفِ نظم و نثر کے تمام پہلوئوں پر ہماری نظر ہو۔ مثال کے طور پر اگر ہم افسانہ نگار کے فن پر گفتگو کرنا چاہ رہے ہیں، یا تنقید لکھ رہے ہیں تو لازمی ہے کہ ہمیں افسانے سے اور اس کے لوازمات سے متعلق تمام تر آگہی حاصل ہو۔
ہمیں معلوم ہو کہ سب سے پہلا افسانہ کس نے لکھا۔
افسانہ کس زبان میں اور کس سن میں لکھا گیا۔
اسے اُردو میں سب سے پہلے ترجمہ کس نے کیا ۔
طبع زاد افسانہ کس نے تخلیق کیا۔
اُردو افسانے کا خالق کون ہے۔
افسانہ نگار نے اُردو کے سب سے پہلے افسانے کا موضوع کیا بنایا۔
اس کا عنوان کیا رکھا۔
کیا اس افسانے کا عنوان افسانے سے مطابقت رکھتا تھا۔
اس کے بعد کن کن افسانہ نگاروں نے ان کی تقلید کی۔
ان کے ہمراہ کون کون افسانہ نگار چلنے کیلئے تیار ہوئے
کون کون افسانہ نگار دور تک ان کے ساتھ مسافت طے کرتے رہے۔
افسانہ کن کن ادوار سے گزرا۔
اس میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
اسے کس کس نے سہارا دیا۔
کس کس تکنیک سے نکھارا اور سنوارا۔
افسانے پر کیسی کیسی مصیبتیں نازل ہوئیں۔
یہ کن کن نشیب و فراز سے گزر کر منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں رہا۔
اس کے خلاف کیا کیا سازشیں ہوئیں۔
کس کس افسانہ دشمن شخص یا گروہ نے اس کی صورت مسخ کرنے کی کوشش کی۔
کس نے اسے وسعت دینے کا کام کیا۔
کس کے انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام کرنے کی کوشش کی۔
تبدیل ہوتے ہوئے حالات اور بدلتے ہوئے زمانوں نے اس پر کیا کیا اثرات مرتب کئے۔
یہ زندگی کو یا اس کے مسائل کو حل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہا ہے۔
یہ معاشرتی، معاشی، سیاسی، تہذیبی، تمدنی، سماجی اور عام زندگی میں کیا کردار ادا کرتا رہا ہے۔
یہ حالات اور ماحول کے لحاظ سے کیا کیا رو بدل کرچکا ہے۔
جنگِ عظیم اوّل و دوئم کے بعد اس میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
ا نگارے کے افسانوں نے عوام و خواص کے اذبان و قلوب کو کس طرح متاثر کیا۔
حکومت نے ان افسانوں کو ضبط کرنے کا حکم کیوں دیا۔
سعادت حسن منٹو جیسے ترقی پسند افسانہ نگار پر مقدمہ کیوں قائم کیا گیا۔
برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے اس پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔
بعد از تقسیم ہندوستان افسانہ نگاروں کی ہجرت اور انسانیت سوز مظالم اور کارروائی نے افسانے کا رخ کس طرف کردیا۔
ترقی پسند تحریک نے افسانے کی نشوونما اور پرورش میں کیا نمایاں کردار ادا کیا۔
علامت و تجرید کا افسانے میں سہارا کیوں لیا گیا۔
علامت و تجرید سے کیا فوائد اور نقصانات سامنے آئے۔
جدیدیت کی تحریک نے جنم کیوں لیا۔
جدیدت نے ترقی پسند تحریک کی بیخ کنی کیوں کی۔
لوگ علامت سے دور کیوں ہوگئے۔
قاری تجرید سے کیوں بے زار ہوا۔
کہانی افسانے سے کب غائب ہوئی اور کب واپس آئی۔
1960ء کے بعد افسانہ کس نہج پر پہنچا۔
16 دسمبر 1971ء کے سانحے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر افسانے میں کن موضوعات کا اضافہ ہوا۔ ان موضوعات پر کھل کے کس کس افسانہ نگار نے لکھا۔
اس کی دہائی میں ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کا نام و نشان کیوں مٹ گیا۔
ایک نئی جہت بیانہ کے نام سے افسانے میں کیوں رواج پاگئی۔
کب کہانی افسانے میں واپس آئی اور تجرید و علامت سے جان کب چھوٹی۔
بیانیہ کا انداز کیوںپسندکیا جانے لگا ۔
قاری کی توجہ دوبارہ افسانے کی طرف کیسے مبذول ہوئی۔
آج کل افسانہ کس ڈگر پر چل رہا ہے۔
اس کی منزلِ مقصود یعنی مستقبل کیا ہے۔
یہ تمام باتیں جو شخص جانتا ہوگا ،وہی غیر جانب دار نقد و نظر میں حصہ لے سکتا ہے اور اچھی تنقید لکھ سکتا ہے۔ میری نظر میں ایسے اشخاص کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے جو تنقید کے فن سے آشنا ہوں گے اور اس علم کے ماہر و عالم ہوں گے۔
اگر کوئی شخص تیرنا نہ جانتا ہو، اور دریا میں چھلانگ لگادے تو اس کے ڈوبنے کے سوا کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا آج کل کے نام و نہاد اور خود ساختہ نقاد ایسا ہی کرتے ہیں جو کسی بھی کتاب پر تبصراتی مضمون لکھ کر یا توصیفی سند لکھ کر تنقید نگاری کا نام دیتے ہیں یا مطالعہ کے دریا میں تیرنا جانے بغیر چھلانگ لگادیتے ہیں اور گوہرِ نایاب پانے کے متمنی ہوتے ہیں تو ایسے بے وقوف لوگوں کے ہاتھ میں مٹی و کنکر کے سوا کچھ نہیں آتا ۔اور جب وہ دنیا کے سامنے مٹھی کھولتے ہیںتو انہیں شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اور عوام و خواص کے منہ سے ایک غیر محسوس قہقہہ بلند ہوتا ہے جس کی آواز صرف اس نام نہاد اور خود ساختہ نقاد کو سنائی دیتی ہے جس نے یہ حماقت کی ہوتی ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس اس کارروائی اور بے عزتی کے باوجود بھی وہ اپنی ڈگر سے ہٹتا نہیں ہے۔ ڈھٹائی سے جما رہتا ہے اور پھر ایسے نام نہادوں سے غیر خالص اور نان جینوئن لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اپنے بارے میں لکھواتے ہیں۔ اپنی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں اور سستی شہرت خریدلیتے ہیں جو ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے۔
اس تمہید کے بعد اگر ہم سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیں تو ہمیں ان کے تمام قلمی کارناموں میں حقیقت نگاری ملتی ہے۔ لہٰذا ہم منٹو کو ایک حقیقت نگار کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اور نہ اس میں مبالغہ نظر آئے گا۔ منٹو کی افسانہ نگار کی بنیاد حقیقت نگاری ہے۔ جس کے تحت انہوں نے اپنی قلمی نگارشات، کاوشات اور تخلیقات پیش کی ہیں۔ منٹو نے اگر افسانے لکھے ہیں تو اس میں بھی حقیقت نگاری کی ہے۔ ڈرامے لکھے ہیں تو اس میں بھی حقیقت نگاری کی ہے۔ گویا سعادت حسن منٹو کا اظہارِ اسلوب اور مرکز و محور حقیقت نگاری تھا۔ کسی بھی بڑے اور اچھے افسانہ نگار کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے اچھا لکھا ہو اور بہت سا لکھا ہو۔ کیوں کہ کوئی شاعر دو غزلیں لکھ کر شاعر نہیں بن جاتا۔ اسے اپنی تخلیق کے لیے جگر کو لہو کرنا پڑتا ہے۔ عرق ریزی اور باریک بینی کی وجہ سے اس کی بینائی تک کم زور ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کوئی نثر نگار بھی ایک دو افسانے یا کالم لکھ کر خود پر افسانہ نگار یا کالم نگار ہونے کا لیبل نہیں لگاتا ۔اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے اور خود فریبی میں مبتلا ہوتا ہے۔ سعادت حسن منٹو نے بہت لکھا ہے اور اچھا لکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار بڑے بڑے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ منٹو کے افسانے بہت زیادہ ہونے اور سب اچھے ہونے کی وجہ سے وہ ایک بڑے اور ناقابلِ فراموش افسانہ نگار بن گئے ہیں اور دیگر افسانہ نگاروں میں انہیں ان کی حقیقت نگاری منفرد و ممتاز کرتی ہے۔ یہ حقیقت نگاری زندگی کے مختلف پہلوئوں سے واسطہ رکھتی ہے، یا سماجی رسوم و رواج سے اس کا تعلق معاشرے سے ہو، یا گھریلو ماحول سے۔ اس کا تعلق کسی شخص سے ہو، یا اس کے کردار سے۔ اس کا تعلق انفرادی یا اجتماعی ہو۔ وہ کسی مذہب و ملت سے تعلق رکھتا ہو، یا رنگ و نسل سے۔ منٹو کے افسانے بلا تفریق رنگ و نسل، مذہب و ملت اور ذات و پات کے آئینہ دار ہیں۔ ان کے افسانے کسی بھی موضوع یا عنوان پر مشتمل ہوں۔ ان کا مرکزی اسلوب حقیقت نگاری ہوتا ہے۔
اگر منٹو نے کسی طوائف پر افسانہ لکھا ہے تو اس طوائف کی ذات، شخصیت اس کے خیالات و میلات و رجحانات، اس کی تہذیب و تمدن، اس کا عاشق مزاج مردوں سے میل جول، میل ملاپ محفل کے آداب، محفل کی نشست و برخاست اور کاروبار کے ڈھب سب بیان کردئیے ہیں۔ا س حقیقت نگاری پر اگر انہیں طنز کا ہدف بھی بننا پڑا ہے تو انہوں نے برداشت کیا ہے مگر اس سچائی اور حقیقت نگاری سے باز نہیں آئے ہیں۔ یہ حقیقت نگاری دراصل سچائی کی تصویر ہے۔ جس کو منٹو نے اپنی تخلیق یا تیسری آنکھ سے ایک اور دنیا کے سامنے اپنا مشاہدہ پیش کردیا۔ اب کسی کو یہ مشاہدہ عریاں نظر آیا، کسی کو فحش نگاری نظر آئی۔ کسی نے اسے غیر مہذب جانا اور کسی نے اسے جنسیات کی ترویج و اشاعت قرار دیا۔ مگر ایسا لکھنے یا کہنے والوں نے اس بات کی طرف غور نہیں کیا کہ سعادت حسن منٹو نے جو کچھ لکھا ہے، وہ فطرت سے کتنا قریب ہے۔ اس میں سچ کا عنصر کس قدر نمایاں ہے۔ اس میں صداقت کا رنگ کتنا گہرا ہے۔ منٹو نے تو حقیقت نگاری کی ہے، کسی مبالغہ آرائی یا بسیار گوئی سے کام نہیں لیا۔ کہیں بھی بناوٹ اور تصنع کا دامن نہیں تھاما۔ کسی بھی تحریر پر زیبِ داستان کے لیے ملمع سازی نہیں کی۔ کسی تحریر کو خواہ مخوا ہ کی طوالت کا شکار نہیں کیا۔ اگر وہ ایسا کرتے تو یقینا اس سے زیادہ لکھ سکتے تھے۔ مگرپھر آج ان کو وہ مقام نہ حاصل ہوتا جو اس وقت ہے۔ ان کو وہ عزت نہ دی جاتی جو آج ان کے حصے میں آئی ہے۔
وقت بڑا ظالم اور بے رحم ہے۔ سفاک ہے۔ وہ سیلابِ بلا خیز کی طرح سب کچھ اپنے ساتھ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے۔ کسی کا مال و متاع ہو یا کوڑے کا ڈھیر، سب کو ملا دیتا ہے۔ مگر یہ سیلاب پہاڑوں اور چٹانوں کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے اور سچائی اور صداقت پہاڑوں کی مثل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سعادت حسن منٹو نے حقیقت نگاری کی تو وہ ایک ٹھوس حقیقت تھی، جسے جھٹلایا نہیں گیا۔ وہ ایک پہاڑ ثابت ہوئی، جیسے وقت کی آندھی اور سیلاب و زلزلے بھی اپنی جگہ سے ہلا نہ سکے۔ ڈگمگا نہ سکے۔ اُکھاڑ پچھاڑ نہ سکے۔ جب کہ ان کے سامنے کتنے افسانہ نگاروں نے امواجِ تنقید اور دنیا کی مخالفت کی وجہ سے گھٹنے ٹیک دیئے اور ہارمان کرپسپاں ہوگئے۔ یہاں تک کہ منظر سے بھی غائب ہوگئے۔ اگر منٹو کے افسانوں میں جان نہ ہوتی تو وہ بھی ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور ایک ہلکی سی لہر اور آندھی کے پہلے جھونکے ہی سے مسمار ہوجاتے مگر منٹو کے افسانوں میں صداقت کا فولاد شامل تھا۔ سچائی کا سیسہ پلایا گیا تھا۔ حقیقت نگاری کی ٹھوس بنیاد فراہم کی گئی تھی۔ کہتے ہیں بنیاد جس قدر پختہ اور سیدھی ہوگئی، عمارت اسی قدر ٹھوس، خوب صورت، پائیدار اور دیدہ زیب تعمیر ہوگی۔ منٹو نے بھی اسی اصول کے تحت اپنے افسانوں کو مستحکم اور پائیدار بنیاد فراہم کی ہے، جس سے عمارت سیدھی اور دیر تک قائم دائم رہنے والی تعمیر ہوئی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بسیار نویسی سے کوئی افسانہ نگار بڑا نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے عقل وخرد کے ساتھ فن و ہنر ، علم و عمل اور جرأت و حوصلہ مندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لوگ مصلحت پسندی سے کام لیتے ہیں مگر سچ بولنے کے لیے کسی مصلحت پسندی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دراصل مصلحت پسندی کا دوسرا نام دوغلا پالیسی ہے۔ لوگ تاویل کے طور پر دوغلا پالیسی کے الزام سے بچنے کے لیے مصلحت پسندی کا نام دے دیتے ہیں۔ جیسا کہ رشوت کا نام نذرانہ رکھ لیا گیا ہے۔ سعادت حسن منٹو نے افسانوں میں کسی بھی اور کہیں پر بھی مصلحت پسندی یا دوغلا پالیسی سے کام نہیں لیا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں حقائق کو واضح کیا ہے۔ تجربات کو سمودیا ہے۔ مشاہدات کو لکھا ہے اور ہر بات من و عن تحریر کرکے افسانہ نگاری کی عمارت تعمیر کی ہے۔
ہاں منٹو نے اتنا خیال ضرور رکھا ہے، ایک پرشباب اور مست جوبن دوشیزہ کا عریاں مجسمہ بنا کر اس پر ململ کا پردہ ڈال دیا ہے کہ دوشیزہ کے نشیب و فراز بہ غور دیکھنے پر نظر بھی آرہے ہیں اور سرسری نظر ڈالنے پر غیر واضح بھی ہیں۔ لیکن یہ سب فطرت ہے۔ اور فطرت کو چھپایا، یا دبا کر رکھا نہیں جاسکتا۔ منٹو نے اپنے افسانوں میں اسی عین فطرت کی عکاسی کی ہے اور اس کے حقائق کی نشان دہی کی ہے کہ سامنے سے نظر آنے والا مجسمہ کس قدر خوب صورت ہے۔ اس کے خدو خال کیا ہیں۔ اس کے قد و قامت کیسے ہیں۔ اس کے نشیب و فراز کس قدر ہیجان خیز ہیں لیکن ان بیانات پر مکمل پردہ ڈال کر قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ اور اسے اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو بصارت سے دیکھے اور چاہے تو بصیرت سے ملاحظہ فرمائے۔ غور کرے گا تو اس پر افسانوی کرداروں کی سچائیوں کی تہیں پرت درپرت کھلتی چلی جائیں گی اور سرسری لے گا تو اسے ایک کہانی کے سوا کچھ محسوس نہ ہوا۔ مگر کہانی بھی وہ جو اس کے اطراف پھیلی ہوئی ہے۔ جس سے اس کے معاشرے کے افراد متاثر ہیں۔
یہ فن، یہ ہنر، یہ چابک دستی، یہ جرات و ہمت اور حوصلہ مندی ہر ایک شخص میں پیدا نہیں ہوتی اور جس میں پیدا ہوتی ہے تو اسے بزدل، ڈرپوک اور کم ہمت نہیں رہنے دیتی ۔پھر وہ ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق بھی ادا کرتا ہے اور منصور و سرمد کی طرح خوشی خوشی حق و صداقت اور سچ بولنے کی پاداش میں سولی پر بھی چڑھ جاتا ہے۔ سعادت حسن منٹو کے ساتھ بھی یہی ہوا۔انہوں نے مقدمہ بازی کا سامنا بھی کیا اور دیگر مصائب و رنج و ملال کا زمانہ بھی دیکھا۔ مگر وہ اپنی روش سے ذرّہ برابر بھی ہٹے نہیں۔ اسی لیے آج دنیا ان کی حامی، طرف دار اور جانب دار ہوگئی ہے۔ آج ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے اور آج ادب کا ہر طالبِ علم ان کے بارے میں پڑھتا ہے۔ ان کے علم اور تخلیقی ادب سے استفادہ کرتا ہے۔ بے شمار لوگ سعادت حسن منٹو کی شخصیت پر ایم اے کا مقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کرچکے اور متعدد ایم فل و پی ایچ ڈی کی ڈگری کے قابل خود کو سعادت حسن منٹو کی شخصیت اور فن و ہنر سے بناچکے ہیں۔ وہ ایک شخص ہی نہیں تھے بلکہ سعادت حسن منٹو ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور آپ اپنی ذات سے انجمن تھے۔
اگر ہم منٹو کے افسانے پڑھتے ہیں تو ہمیں ان کے دور کی تہذیب سے آگہی حاصل ہوتی ہے۔ اس زمانے کا علم ہوتا ہے۔ اس کا تمدن نظر کے سامنے آجاتا ہے۔ اس دور کے حالات و واقعات آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتے ہیں۔ اسی دور کے چلتے پھرتے کردار اور ان کے رویے ہمارے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ کچھ کرداروں کے مکروہ چہرے جنہیں ہم پارسا سمجھتے تھے، عیاں ہوجاتے ہیں اور کچھ وہ لوگ جنہیں ہم قابلِ نفرت سمجھ کر تحقیر سے کام لیتے تھے۔ وہ عظیم انسان نکلتے ہیں۔ ایک انسان ہی اس معاشرے کا واحد رہائشی ہے جو چہرے پر چہرہ لگا کر مختلف روپ دھار لیتا ہے۔ کسی کو دھوکا دیتا ہے اور کسی کے ساتھ فراڈ کرتا ہے۔ کسی کا مال لوٹ لیتا ہے اور کسی کی عصمت دری کرجاتا ہے۔ یہ اس کی بناوٹ اس لیے ہے کہ وہ بھولے بھالے، سیدھے سادھے اور معصوم سے لوگوں کو اپنی ہوس اور چالاکی کا شکار کرتا رہے۔ کبھی کسی جانور نے ایسا نہیں کیا۔ اپنے چہرے پر کوئی دوسرا چہرہ نہیں لگایا۔ ان کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے۔ وہ فطری تقاضا کو فطرت کے مطابق نبھاتے ہیں تو کیا انسان جانور کے درجے سے بھی گرگیا ہے۔ یہ تمام باتیں ہمیں اس حقیقت نگاری سے سمجھ آتی ہیں جو سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانوں میں کی ہے۔ وہ کسی بھی کردار کو کھول کر پیش کرتے ہیں۔ یہ وضاحت اور سفاکی لوگوں کو گراں ضرور گزرتی ہے مگر یہ آگاہی دے جاتی ہے کہ کن کن کرداروں کے لوگ کیا کیا کرتے ہیں اور کیا کیا کر گزرتے ہیں۔
اس سلسلے میں سعادت حسن منٹو کے متعدد افسانے پیش کیے جاتے ہیں۔ مگر ان کاا فسانہ ’’کھول دو‘‘ اس کا زندہ ثبوت ہے کہ کسی بھی ملک کے رکھوالے، عزتوں کے پاسبان اور مال و متاع کے محافظ کم زور انسان کو موقع دیکھ کر اور بے بس ومجبور پا کر اپنے فرائض سے چشم پوشی کرجاتے ہیں،اپنے نفس سے مغلوب ہوجاتے ہیں۔ اپنے مذہب و مسلک سے روگردانی کرجاتے ہیں۔ اپنے ایمان کو دائو پر لگادیتے ہیں۔ ایک گناہِ بے لذت کی خاطر اپنے اعمال کو آلودہ کرلیتے ہیں۔ اپنے نامے میں سیاسی لکھوا لیتے ہیں اور شکار ہونے والوں کے قلوب و اذہان پر اَن منٹ نقوش ثبت کرجاتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو کے افسانوں میں حقیقت نگاری سے بڑے بڑے پارسائوں کے بھید کھل گئے ہیں اور ان کی جھوٹی شان و شوکت کے مجسمے پاش پاش ہوگئے ہیں۔
اس انتخاب میں منٹو کے ایسے ہی پچاس افسانے منتخب کئے گئے ہیں جو ان کی جرأت مندانہ حقیقت نگاری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مانا کہ یہ افسانے متنازعہ بھی رہے ہیں مگر ان میں اس فطرت اور حقائق کا بول بالا ہے جو منٹو کا طرۂ امتیاز رہا ہے، اور انہیں دیگر افسانہ نگاروں میں منفرد و ممتاز کرگیا ہے۔
رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...
لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...
پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...