... loading ...
علاقہ اور ملک کوئی بھی ہو ، تہذیب و تمدن کہیں کا بھی ہو ۔ روایتی کھانوں میں حلوے کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ ہمارے ہاںیہ مذہبی حلقوں کی مرغوب غذا کے طور پر معروف ہے ۔مذہب ہمیشہ سے سماج کی غالب طاقت رہی ہے ۔اسی لیے مشرقی معاشروں کی غذاؤں اور خوراکوں میں اِ سے ایک غیر اعلانیہ تقدیس حاصل ہے ۔ بعض علاقوں میں تو اس ڈش کو احتراماً’’ حلوہ شریف ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔
تاریخ کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے ’’ دبستان حلوہ ‘‘ کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ اس مضمون کی عملی( پریٹیکل) کلاسسز میں حاضری کے مواقع حاصل رہے اور ’’ وابستگان حلوہ ‘‘ یا ’’ عشاق حلوہ ‘‘ کی قربت نے بھی بہت کچھ عطاء کیا ہے گذشتہ دنوں ہمارے ہاں میں ایک واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے اس لذیذ باب کے بہت سے اوراق کی تحریروں کے جلی حروف آنکھوں کو چُندھیانے لگے ہیں ۔
درپیش واقعہ میں دلچسپی سے زیادہ رُسوائی کے پہلو نمایاںہیں ۔ احباب کی جانب سے شدید ردعمل کا خوف غالب ہے ۔ تحریک عدل چلانے کے اعلان سے ترغیب پاکر ’’ یہ قصہ کیوں سنایا ‘‘؟ کے سوال کے ساتھ ایک پوری تحریک کے اُٹھ کھڑا ہونے کے امکانات اور خدشات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا ۔بحرحال دل کا اصرار ہے کہ پسپائی اختیار نہ کی جائے۔
ہوا یوں کہ ہمارے حلقہ احباب میں ایک دعوت کے لیے چکوالی حلوہ رات بھر کی محنت سے تیار کیا گیا ۔ اس ریاضت کے دوران ہی ایک صاحب کی ’’ رگِ حلوہ ‘‘ پھڑکی اوروہ حلوہ ختم ہوجانے سے خوف سے کڑاہے میں نقب لگا کر’’شاپر ‘‘ بھرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ مہمانوں کی ریل پیل میں انہیں حلوہ چھُپانے کے لیے مناسب جگہ نہ مل پائی تو انہوں نے شاپر’’ باتھ روم‘‘میںکپڑے ٹانگنے والی ’’ کھونٹی‘‘ پر لٹکا دیا ۔ اور پھر مزید کامیابی اُس وقت حاصل ہوئی جب وہ حلوہ لے کراُڑن چھو ہ ہونے میں کامیاب بلکہ سرفراز ہوئے ۔
عشق اور مُشک چھپانے سے کب چھُپتی ہے ۔ کہانی زبان زدِ عام و خاص ہو گئی ۔ یہ غزل چھڑنے سے ‘‘ ہماری یادداشت کے کینوس پر حلوے سے محبت کا دبستان ایک منظر نامے کی صورت میں اُبھر آیا ۔اور ماضی قریب یاد آگیا ۔ جب اسلام آباد میں ایک دینی سیاسی جماعت کے رہنماء کی سرکاری رہائش گاہ میں دعوت پر مدعو جید علمائے کرام زہریلا حلوہ کھانے کی پاداشت میں اپنے گھروں کو واپس ہونے کے بجائے اسلام آباد کے ہولی فیملی ہسپتال سمیت دیگر علاج گاہوں میں لے جائے گئے تھے ۔ حلوہ کو بدنام کرنے اور اس کی مٹھاس کو زہریلا بنانے کی اس گھناؤنی سازش کو ابھی تک بے نقاب نہیں کیا جاسکا ۔ اس حوالے سے مختلف قسم کی افواہیں حلوے کی طرح کافی دیر تک گرم رہیں ۔ ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ’’ کس نے کیا زہریلا حلوے کو ‘‘ یہ جاننے کے لیے کوئی تحقیقاتی کمیٹی اس لیے نہیں بنائی گئی تھی کے اُس کے ’’ ٹی او آرز ‘‘پر اتفاق رائے ہونا آسان کام نہیں تھا ۔ اور اگر تحقیقاتی کمیشن حلوے کے وجود کو سہولت کار قرار دے کر اُس پر پابندی کی سفارش کر تا تو سب سے پہلے متاثرین ہی مخالفت کرتے ۔ اس لیے اس ’’ سانحہ ‘‘ کو بھی دیگر قومی سانحوں کی طرح قصہ پارینہ بنادیا گیا ۔
حلوہ کہانی مجھے ہمیشہ سے ایک داستان دِ لرُبا محسوس ہوتی ہے ۔ اسلامی اور مشرقی معاشروںکی طرح بہت سے دیگر سماجوں میں بھی اس سے رغبت اور محبت کی تمام تر کہانیاں مذہبی طبقے اور اشرافیہ سے منسوب ہیں ۔
کالم میں ’’ چکوالی حلوہ ‘‘ کا ذکر ہوا ہے ۔ دودھ اور سوجی ملا کر پکایا جانے والا یہ حلوہ لذت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی ہے کہ چکوال کی ریوڑیاںوہاں کے حلوے سے زیادہ مشہور ہو گئیں ہیں۔۔یاد پڑتا ہے کہ اڑھائی عشرے قبل اُس وقت کی نوخیز ٹی وی اداکارہ شہناز شیخ نے اس ریوڑی کو اپنی پسندیدہ سوغات قرار دیا تھا ۔لیکن آج کل یہ سوغات پی ٹی آئی کا نصیب بنی ہوئی ہے۔
اس خطے میں حلوہ کب آیا کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ انسانی تہذیب کی ابتدائی تاریخ یہاں بہت پرانی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ دس لاکھ سال پہلے بھی انساں وادی سواں میں موجود تھا ۔ اس علاقے میں شوجی مہاراج (جسے ہندو دھرم میں دیوتا کا درجہ حاصل ہے) کی بیوی دکشیا بادشاہ کی بیٹی ستی کو گوند ، سوجی ، خشخاص اور دیگر مقوی اشیاء کا حلوہ بہت پسند تھا ۔ کٹاس کا مقدس چشمہ جو گذشتہ دنوں خُشک ہو گیا تھا جسے بھرنے کے لیے پاکستان کی عدالت عظمیٰ کو حکم صادر کرنا ہندودھرم کے مطابق ستی کی وفات کے بعد جاری ہوا تھا ۔ اس حوالے سے براہمنوں کی روایت ہے کہ ’’ شو جی ‘‘کو ستی کی موت پر اس قدر گہرا صدمہ ہوا تھا کہ اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے جس سے دو تالاب بن گئے تھے ان میں سے ایک اجمیر کے قریب پُشکر یا پوکھر ہے دوسرا کٹک شا یا کٹاس ہے ۔ ‘‘
ساتویں صدی عیسویں کا چینی سیاح ’’ ہیون سانگ ‘‘ چوآ سیدن شاہ کے قریبی علاقے وادی گندہالہ ، ٹیکسلا، اور سنگھار پورہ کے راجہ پاتک یا پتک کے علاقے میں جس اشرافیائی ڈش کا ذکر کرتا ہے وہ بھی حلوہ سے ملتی جُلتی اور طاقت ور میوہ جات سے تیارکردہ تھی ۔ ابھی تک برصغیر کے اکثر علاقوں میں شادی شدہ خواتین کو بچوں کی پیدائش کے بعد گوند م خشخاص، خُشک میوہ جات او ر دیسی گھی سے تیار کردہ حلو ہ کھلایا جاتا ہے تا کہ نقاہت دور اور صحت بحال ہو ۔
پاکستان میں اس حوالے سے شہرت رکھنے والے علاقوں میں ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان نمایاں ہیں ملتان کے سوہن حلوے کے مقابلے میں ڈیرہ اسماعیل خان میں زیادہ ورائٹی ہے ۔ اب وہاں کھجو ر اور خشخاص کے ساتھ ساتھ گھی کے بغیر تیار ہونے والا حلوہ بھی دستیاب ہے ۔ سیاست میں ُاس علاقے کا ایک بھاری حوالہ مولانا فضل الرحمن ہیں ۔ حلوے سے اُن کے لگاؤ کے بارے میں یقینی طور پر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں ۔ صرف یہ بتا سکتا ہوں کہ ایک عرصہ پہلے اپنے عزیز صحافی دوست عثمان غنی اسراء کے ہاںمولانافضل الرحمن سمیت ممتاز شخصیات دعوت پر مدعو تھیں ۔ کھانے میں سب ڈشیں تھیں مگر حلوہ نظر نہیں آیا ۔ مجھ جیسے روایت پسند کو دھڑکا لگا ہوا تھا کہ نہ جانے مہمان مکرم کب حلوے کا تقاضا کردیں اور ہمارے عزیز کو خفت کا سامنا کرنا پڑے مگر میرے اندازے غلط نکلے کھانا شروع کرنے سے پہلے ’’ مہمان مکرم ‘‘ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی واسکٹیں اُتار کر نمکین اور یخنی سے انصاف کرنا شروع کر دیا اور کسی نے بھی حلوے کا تقاضا نہ کیا ۔ تبدیلی کا یہ منظر مجھے آج تک یاد ہے ۔
ڈی آئی خان کے پڑوس واقع میانوالی میں اس لذیذ ڈش کو رواج کی حد تک مقبولیت حاصل ہے ۔یہ شادی بیاہ، سیاسی جلسوں سمیت تمام تقریبات کا لازمی حصہ ہے ۔ یہاں ضلع اٹک کے مشہورمکھڈی حلوہ کو ’’ کالاباغ والا حلوہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ ۔ ماضی میں یہاں یہ نعرہ خاصا مقبول رہا کہ
’’ حلوہ باغی دا ۔۔ ووٹ نیازی دا ‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ کالاباغ کے نوابوں کا حلوہ کھائیں گے لیکن ووٹ مولانا نیازی کو دیں گے ۔ ’’یہاں اگر کسی کو مہذب انداز میں ڈانٹا یا بے ضرر گالی نکالنا مقصود ہوتو مقامی زبان میں ارشاد فرمایا جاتا ہے کہ ’’ تینوں لگے حلوے دی گولی ‘‘ ۔
ڈیرہ اسماعیل خان ۔ میانوالی ۔ تلہ گنگ ، چکوال ، اٹک اور خوشاب کے علاقوں پر مشتمل خطے کو’’حلوہ بیلٹ ‘‘ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا
خوشاب کے سوہن حلوے کو ڈھوڈا کہا جاتا ہے ۔ خوشاب سرگودھا روڈ پر آدھے کلومیٹر کے علاقے میں ڈھوڈا پتیسہ کی پچاس میں سے اکثر دکانوں پر لکھا ہوا ہے کہ ’’ اصلی ڈھوڈا شاپ یہی ہے ‘‘ میں گذشتہ چار دہائیوں سے اصل کی تلا ش میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔ کچھ عرصہ پہلے یہاں مولانا فضل الرحمن کے بیوروکریٹ بھائی ضیاء الرحمن خان ڈی سی او ( ڈپٹی کمشنر) تعینات ہوئے تھے تو مجھ جیسوں کو یہ اُمید ہو چلی تھی کہ یہاں پر مولانا فضل الرحمن کا آنا جا نالگا ہوا ہے شاید وہ کسی اصلی ڈھوڈا شاپ کا تعین کردیں ۔ لیکن انہیں ہمارے اس مسئلے سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔
میرے اور عمران خان کے شہر میںڈودھی والا مشہور حلوہ ’’ مامے والا حلوہ ‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے ۔ یہ سوغات کبھی ہماری نالہائے سحری کے بعدکی مصروفیات کا لازمی حصہ تھی مگر ذیابیطس کا مرض آلینے سے ہماری یہ میٹھی محبت مرض بڑھانے والی’’ دوا‘‘ بن چُکی ہے ۔حلوہ کہانی کا ایک کالم میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا ۔ 29 ۔دسمبر کو اپنے جنم دن پر حلوے سے پرانی محبت کی تڑپ بڑھ رہی ہے اور ایسے میں دیا جیم کا یہ شعر بے ساختہ نوک قلم کے سامنے آگیا کہ
بھیج کوئی گلاب تازہ سا
کوئی حل ہو میری اُداسی کا