... loading ...
یہاں یہ لکھنا مقصد نہیں کہ پانچ سال افغان طالبان کی قید میں رہنے والے کینیڈین جوڑے، جوشوا بوئیل اہلیہ کیٹلان کولمین اور ان کے بچوں کی رہا ئی پاکستان کی فوج نے امریکی اطلاع و نشاندہی پر کی تھی یا امارت اسلامیہ نے از خود آزاد کر دیا۔ البتہ مقصود مغوی جوڑے کا وہ الزام ہے جو انہوں نے طالبان پر عائد کر دیا کہ حراست کے دوران نہ صرف ان کے بچے کا قتل ہوا بلکہ اہلیہ جنسی زیادتی کا شکار بھی ہوئی۔ الزام رہائی کے اگلے لمحے یعنی جب یہ خاندان ابھی پاکستان ہی میں تھا سامنے آیا اور کینیڈا جا کر ایک بار پھر اس کا اعادہ کیا۔ یہ میاں بیوی دو ہزار بارہ میں افغانستان کے اندر طالبان جنگجوؤں کے نرغے میں آئے دوران حراست ان کے ہاں تین بچوں کی ولادت بھی ہوئی۔ یوں پانچ سال بعد یعنی گیارہ اکتوبر دو ہزار سترہ کو انہیں آزادی ملی۔ چوں کہ یہ الزام بہت سنگین نوعیت کا لگا ہے جس سے طالبان کی مجموعی، اخلاقی، تہذیبی، انسانی اور دینی ساکھ کے پامال ہونے کا اندیشہ پیدا ہوا۔ چناں چہ امارت اسلامیہ نے پندرہ اکتوبر 2017ء کو ایک با ضابطہ اعلامیہ جاری کیا۔ جس میں اس الزام کو لغو اور من گھڑت قرار دیا۔ اور یہ کہا کہ میاں بیوی کو دشمن نے نامناسب بات کہنے پر مجبور کیا ہے اور یہ کہ دوران قید ایک لمحہ کے لیے بھی ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا گیا۔ ایسا اس نیت سے کیا تاکہ کوئی بد گمانی پیدا نہ ہو۔ امارت اسلامیہ نے البتہ یہ اعتراف کر دیا کہ مغوی خاتون جب علیل ہوئی تو دشوار علاقے میں ہونے کی بنا پر ڈاکٹر تک رسائی نہ ہو سکی اور بچی حادثاتی طور پر ضائع ہوگئی۔ جان بوجھ کر قتل کرنے کے الزام میں صداقت نہیں نہ ہی ان پر ظلم و زیادتی روا رکھی گئی۔
امارت اسلامیہ کی وضاحت میں صداقت ہے۔ یہ تنظیم نظم و ضبط اور کڑے احتساب کی حامل ہے، ملا محمد عمر اخوند (مرحوم) نے طوائف الملوکی، ظلم و تعدی، جرائم اور ہر قسم کی بے راہ روی کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تھا۔ ان کی حکومت کے دوران دشمن بھی ایسا نا زیبا الزام نہ لگا سکا۔ موجودہ امیر مولوی ہبتہ اللہ اخوند زادہ کا تعلق قضا سے رہا ہے۔ یعنی وہ قاضی القضات تھے۔ ایک کھرے اور قانون پر سختی سے عمل درآمد کرانے والے جج تھے۔ ملا محمد عمر اخوند کی رحلت کے بعد وقتی طور نزاع کی صورت پیدا ہوئی۔ جسے رفع کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ آخر کار مولوی ہبتہ اللہ نے اطاعت نظم نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔ یوں ملا اختر منصور بالاتفاق امیر قرار پائے۔ لہٰذا ان کی امارت میں طالبان کے مجموعی تنظیمی نظام کے تحت اگر فی الواقعی ایسا قبیح فعل کا مرتکب ہوتا بھی تو یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اْس شخص کو نہ صرف عبرتناک انجام کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ پردہ پوشی کے بجائے سزا کی تشہیر بھی کی جاتی۔ مجھے اس لمحے برطانوی صحافی ’’یوآنے رڈلے‘‘ یاد آئی، جو گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد خفیہ طور پر افغانستان میں داخل ہوئی تھی اور واپسی پر طالبان کے ہاتھ لگ گئی۔ بعد ازاں خاتون صحافی نے اپنے سفر پاکستان و افغانستان اور ایام اسیری کی روداد ’’In the hands of the Taliban‘‘ نامی کتاب لکھ کر بیان کر دی۔ وہ لکھتی ہیں کہ جب وہ گدھے پر سوار پاکستان سرحد کی طرف جا رہی تھیں تو اْن کا کیمرہ دکھائی دیا اور گرفتار ہوئیں۔ طالبان نے ایک خاتون کے ذریعے جامہ تلاشی لی۔ جب اشتعال میں آکر میں نے اپنے کپڑے اوپر اْٹھا دیے اور چیخ کر کہا کہ یہ لو اسلحہ، یہ لو میں نے اسلحہ چھپایا ہے۔ تو مجھے بے پردہ دیکھ کر سب ہکا بکا رہ گئے۔ کچھ ایک طرف مْڑ گئے تو کچھ دوسری سمتوں میں دوڑنے لگے۔ یوآنے رڈ لے اس لمحے کو یوں بیان کرتی ہیں کہ یہ ایک ’’حیا سوز‘‘ نظارہ تھا۔ اور تفتیش کے دوران بھی طالبان حکام گفتگو کرتے ہوئے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یا میرے چہرے کے بجائے ادھر اْدھر دیکھتے یا چھت پر لگی کسی چیز کو دیکھتے۔ اس پر وہ کہتی ہیں کہ مجھے گمان گزرتا تھا کہ یا تو مجھ میں بطور عورت وہ کشش نہیں جو جنس مخالف کو متوجہ کر سکتی ہے یا اْن کے دل میں میرے خلاف کوئی بغض ہے۔ بعد میں مجھ پر منکشف ہوا کہ افغان کلچر میں یہ چیز عزت کی علامت ہے۔ آگے جا کر لکھتی ہیں کہ لوگ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ مجھے اذیتیں دی جا رہی ہیں، زدوکوب کیا جاتا ہے اور میں جنسی بد سلوکی کا نشانہ بنائی جا رہی ہوں اس کے برعکس مجھ سے شفقت اور احترام کا سلوک ہوا، اور یہ کتنی ناقابل یقین اور حیرت انگیز بات ہے۔
طالبان نے مجھ سے نہایت اخلاق و احترام، شرافت اور وضعداری کا سلوک کیا۔ اس خاتون نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب وہ حراست میں تھیں تو اْن کے فلیٹ کی ہر طرح سے تلاشی لی گئی تھی اور اْنہیں طالبان کی نظروں میں ایک جاسوس کے طور پر پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ تاکہ طالبان یقینی طور پر جاسوس سمجھ کر قتل کر دیں۔ تاکہ رائے عامہ طالبان کے خلاف ہو جاتی۔ اور یہ امریکی انٹیلی جنس کی کارستانی تھی۔ اس باضمیر خاتون نے لکھا ہے کہ رہائی کے بعد وہ لندن میں ایک ٹیکسی میں سوار ہوئیں تو ڈرائیور نے پہچانا اور پوچھا کہ تم وہی چڑیا ہو جسے طالبان نے اپنے قفس میں بند کر دیا تھا۔ میں نے اثبات میں جواب دیا، تو اس پر ڈرائیور نے کہا کہ کیا انہوں نے تم سے جنسی فعل کیا؟ میں نے نفی میں سر ہلایا، پھر وہ بولا مجھے بالکل یقین نہیں آتا اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں بھنبھوڑ کر رکھ دیتا۔ مصنفہ لکھتی ہیں کہ یہ سن کر مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا اور میں سوچتی رہ گئی، یہ تھا فرق دونوں تہذیبوں میں۔ یہ خاتون دو سال بعد مسلمان ہوئی جو اب مریم کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ مصنفہ نے جلال آباد کے ایک گاؤں ’’کاما‘‘ میں کچھ وقت گزارا جب امریکی قیادت میں مغربی افواج حملہ آور ہوئیں تو ’’کاما‘‘ گاؤں بھی ملیا میٹ ہوا۔ لندن میں انہیں خبر ہوئی تو وہ زار وقطار رونے لگیں اور اپنی ماں سے کہا کہ میرا گاؤں بمباری میں تباہ کر دیا گیا ہے۔ امریکا آج تک شہری آبادیوں کو نشانہ بنا رہا ہے بچے، عورتیں، جوان اور بوڑھے مر رہے ہیں۔ امریکا جنگی جرائم کا مرتکب ہے۔ اور قومی غیرت و حمیت کا عالم دیکھیے کہ افغانستان اور پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو امریکی قبضے اور تسلط کے حامی اور اْن کے ظلم و جبر پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ اور اس ننگی جارحیت، کشت و خون اور قبضے کو آزادی و جمہوریت کا نام دے رکھا ہے۔ امریکا افغانستان میں ہزیمت اْٹھا رہا ہے۔ یقینی طور پر اپنی خفت مٹانے کے لیے امریکی سی آئی اے نے کینیڈین جوڑے کو طالبان کے خلاف ایسا کہنے پر مجبورو آمادہ کیا ہے۔ گویا یہ بہتان جنگی حربے کے تحت لگایا گیا۔ امریکا کا چہرہ بجائے خود بد نما ہے۔ گوانتا نا موبے، ابو غرائب جیل، بگرام ائر بیس کی داستانیں سن کر تو انسانیت شرماگئی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی افغانستان میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنائی گئیں۔ امریکی اعلیٰ و ادنیٰ سپاہیوں نے اس مہذب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کو مسلسل اپنی گندی ہوس کا نشانہ بنایا۔ سچ کہا ’’یوآن رڈ لے‘‘ نے کہ یہ ہے دو تہذیبوں کا فرق۔ اور سچ کہتا ہے ’’گلبدین حکمت یار‘‘ کہ ہمارا واسطہ ایک رذیل اور کم ظرف دشمن سے پڑا ہے۔