... loading ...
ایک جگہ پڑھا تھا کہ بھٹو اقتدار میں آنے اور جوانی میں مر جانے کے لیے پیدا ہوتے ہیں یہ جملہ اس وقت تو سمجھ نہیں آیا تھا کہ اس وقت بھٹو اقتدار کا اور جوانی میں مرجانے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں تھا۔ لیکن اگر پاکستانی سیاست کے گذشتہ 50سالوں پر نظر ڈالی جائے تو یہ جملہ سو فیصد درست نظر آتا ہے۔
بھٹو خاندان کا سیاست میں داخلے کا آغاز سرشاہنواز بھٹو سے ہوتا ہے، سرشاہنواز بھٹو نے 1934میں انڈین پیپلز پارٹی کی واغ بیل ڈال تھی اور بعد ازاں نظام دکن کے منعم(وزیر خزانہ)مقرر ہوئے تھے یوں سر شاہنواز بھٹو اقتدار کی غلام گردشوں کے مسافر بنے ۔ جب پاکستان قائم ہوا تو نظام دکن نے بھاری زرو جواہر جو ایک روایت کے مطابق سینکڑوں صندوقوں پر مشتمل تھے اور جس میں نقدرقم کے ساتھ ساتھ ٹنوں کے حساب سے سونا اور ناقابل شمار تعداد میں جواہر موجود تھے پاکستان روانہ کیا تھا۔ شاہنواز بھٹو قیام پاکستان کے کچھ عرصہ خالق حقیقی سے جاملے ۔ اس وقت ان کی عمر 45-44سال تھی۔سرشاہنواز بھٹو کی واحد اولاد ذوالفقار علی بھٹو تھے جس وقت سرشاہنواز بھٹو کا انتقال ہوا اس وقت ذوالفقار علی بھٹو برطانیا میں زیر تعلیم تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی شادی خاندان میں ہوئی تھی پہلی بیوی امیر بیگم ذوالفقار علی بھٹو سے عمر میں تقریبا 20سال بڑی تھیں ،ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی اہلیہ امیر بیگم سے کوئی اولاد نہیں ہے۔ نصرت بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری اہلیہ تھیں۔ نصرت بھٹو کا تعلق ایران کے شہر اصفہان سے تھا۔ ا سکندر مرزا کی اہلیہ ناہید مرزا اور حاکم علی زرداری کی اہلیہ شیریں زرداری کا تعلق بھی ایران کے شہر اصفہان سے تھا اور یہ تینوں خواتین باہم اچھی دوست اوررشتہ دار تھیں ۔
ذوالفقار علی بٹھو اوائل جوانی میں ہی ایوان اقتدار کی بھول بھلیوں کے مسافر بن گئے تھے یوں تو ذوالفقار علی بھٹو اوائل عمر میں ہی وزارت کے منصب پر فائز ہوگئے تھے لیکن انہیں شہرت وزیر خارجہ کے طور پر حاصل ہوئی یہ حقیقت بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کے جس وقت پاکستان اور بھارت میں سندھ طاس معاہدہ (Indus watter treaty)ہوا اس وقت ذولفقار علی بھٹو وزیر زراعت تھے ۔
1971کے اواخر میں دنیا کے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریڑ بننے والے ذوالفقار علی بھٹو بعد ازاں ملک کے وزیر اعظم بنے 1977کی پاکستان قومی اتحاد کے تاریخی جدو جہد اورتحریک نظام مصطفی کے نتیجہ میں اقتدا ر سے محروم ہوئے اور پھر نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں مکمل عدالتی کاروائی کے بعد راولپنڈی جیل میں پھانسی کے پھندے پر جھول کر اپنے رب کے حضور پیش ہوئے جس وقت 4اپریل 1979بھٹو کو پھانسی دی گئی اس وقت ان کی عمر 50سال اور تین ماہ تھی ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی 4اولادیں تھیں سب سے بڑی بینظیر بھٹو پھر میر مرتضیٰ بھٹو اس کے بعد شاہ نواز بھٹو اور سب سے چھوٹی صنم بھٹو ۔بینظیر بھٹو کی ولادت 21 جون 1953 میں ہوئی، میر مرتضیٰ بھٹو نے 20ستمبر 1955کو اس دنیا میں آنکھیں کھولیں ،میر شاہ نواز بھٹو کی پیدائش 1957اور صنم بھٹو کی اس دنیا میں آمد 1959کی ہے۔
بینظیر بھٹو کو ذولفقار علی بھٹو نے ابتدا سے ہی امور خارجہ کیاسرار ورموزسمجھاناشروع کر دیئے تھے اور 19سال کی عمر اور زمانہ طالب علمی میں ہی1972میں شملہ معاہدے کے وقت بینظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی مشیر امور خارجہ تھیں اور اس معاہدے کی مذاکراتی ٹیم کا اہم حصہ بھی ، ذولفقار علی بھٹو کے انتقال سے قبل ہی بینظیر بھٹو سیاست کے خارزار میں قدم رکھ چکی تھیں ذوالفقار علی بھٹو کے انتقال کے بعد ان کی اولاد میں سے تین نے سیاست میں قدم رکھا صنم بھٹو روز اول سے ہی سیاست سے لاتعلق رہی تھیں، بھٹو خاندان کے جن افراد نے سیاست میں قدم رکھا اور ایوان اقتدا ر کی راہداریوں میں وقت گزاراان میں سب سے بڑی عمر بینظیر بھٹو نے پائی شاہ نواز بھٹو 1984میں جس وقت موت سے ہم آغوش ہوئے اس وقت ان کی عمرصرف 26سال تھی میر مرتضیٰ بھٹو کو جب 70کلفٹن کے سامنے قتل کیا اس وقت ان کی عمر صرف 41سال تھی (1955-1996) اور 2007پر میں جب بینظیر بھٹو درندہ صفت قاتل کا نشانہ بنیںاس وقت ان کی عمر صرف54سال 6ماہ اور 6دن تھی۔(21.6.1953 27.12.2007) یوں یہ قول اپنی جگہ حقیقت لیے نظر آتا ہے کہ بھٹو اقتدار اور جوانی میںمر جانے کے لیے پیدا ہوتے ہیں ۔
اگر ہم پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں پر نظر ڈالیں تو بے نظیر بھٹو ان میں سب سے نمایاں نظر آتی ہیں ان کی وسیع انظری کے حلیف ہی نہیں حریف بھی معترف نظر آتے ہیں ۔ بے نظیر بھٹو2مر تبہ (1988-1990)اور (1993-1996) پاکستان کی وزیر اعظم رہیں ۔ ان کے اقتدار کا پہلا دور اس وقت شروع ہوا تھا جب ضیا ء الحق کے طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہونے کے بعد ملک بے یقینی کا شکا ر تھا بے نظیر بھٹو نے اپنی بالغ انظر ی سے اس بے یقینی کی کیفیت کو تقریبا ختم کردیا تھا کے 6اگست 1990کو ان کے اقتدار پر شب خون مارا گیا ۔اس سے قبل 1989میں ان کی حکومت کے خلاف عدم اتحاد کی ایک تحریک نا کام ہو چکی تھی ۔
بے نظیر بھٹو کو دوسری مرتبہ اقتدار اس وقت ملا جب 1993میں وزیر اعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان کے مابین کشیدگی نے محاذ آرائی کی صورت اختیار کرلی تھی ۔ صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو بر طرف اور اسمبلیوں کی تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا تو سپریم کورٹ نے اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی کی اپیل پر حکومت اور اسمبلی بحال کردی تھی لیکن جب نواز شریف کی جانب سے مفاہمت کی ہر کوشش کو رد کردیا گیاتو پھر عبدالوحید کا کڑ فارمولاسامنے آیا اور محاذ آرائی پر آمادہ نواز شریف اور غلام اسحاق خان کو بیک وقت استعفیٰ دینا پڑا یوں ملک ایک مرتبہ پھر بے یقینی اور بحرانی کیفیت کا شکار ہوگیا تھا ۔ان حالات میں بے نظیر بھٹو کا چیلنج قبول کرتے ہوئے وزارت اعظمیٰ کا منصب قبول کرناان کے بلند حوصلہ اور اعصاب کی مضبوطی کی دلیل ہے ان حالات میں
اقتدار قبول کرنا ایسا ہی تھا کہ
ایک آگ کا دریا ہو اور تیر کے جانا ہے
نومبر 1996میں انکل فاروق لغاری کی جانب سے بے نظیر بھٹو حکومت کی بر طرفی نے ملک کو ایک اور مرتبہ پھر بے یقینی اور بحرانوں کی دلدل میں دھکیل دیا جس کا نتیجہ 1999میں پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ اور غیرجمہوری دور کی تاریکی کی صورت میں نکلا ۔
اکتوبر 2007میں بے نظیر بھٹو نے ملک کو بحرانوں اور آمریت کی تاریکی سے نکالنے کے لیے وطن واپسی کا فیصلہ کیا اگر چہ اس واپسی کے پہلے ہی دن نا دیدہ قوتوں نے استقبالی جلوس میں تقریبا 180انسانوں کی جان لے کر بے نظیر بھٹو کے حو صلہ ہلمت اور عزم کو شکست دینے کی کوشش کی تھی لیکن اس کوشش میں نا کام کے بعد ان قوتوں نے صرف70دن بعد اس بلند
نظر لیڈر کو ہم سے چھین لیا ۔
ڈھونڈو گے ہمیں ملکو ں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم