وجود

... loading ...

وجود

بھٹو خاندان اور سیاست

بدھ 27 دسمبر 2017 بھٹو خاندان اور سیاست

ایک جگہ پڑھا تھا کہ بھٹو اقتدار میں آنے اور جوانی میں مر جانے کے لیے پیدا ہوتے ہیں یہ جملہ اس وقت تو سمجھ نہیں آیا تھا کہ اس وقت بھٹو اقتدار کا اور جوانی میں مرجانے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں تھا۔ لیکن اگر پاکستانی سیاست کے گذشتہ 50سالوں پر نظر ڈالی جائے تو یہ جملہ سو فیصد درست نظر آتا ہے۔

بھٹو خاندان کا سیاست میں داخلے کا آغاز سرشاہنواز بھٹو سے ہوتا ہے، سرشاہنواز بھٹو نے 1934میں انڈین پیپلز پارٹی کی واغ بیل ڈال تھی اور بعد ازاں نظام دکن کے منعم(وزیر خزانہ)مقرر ہوئے تھے یوں سر شاہنواز بھٹو اقتدار کی غلام گردشوں کے مسافر بنے ۔ جب پاکستان قائم ہوا تو نظام دکن نے بھاری زرو جواہر جو ایک روایت کے مطابق سینکڑوں صندوقوں پر مشتمل تھے اور جس میں نقدرقم کے ساتھ ساتھ ٹنوں کے حساب سے سونا اور ناقابل شمار تعداد میں جواہر موجود تھے پاکستان روانہ کیا تھا۔ شاہنواز بھٹو قیام پاکستان کے کچھ عرصہ خالق حقیقی سے جاملے ۔ اس وقت ان کی عمر 45-44سال تھی۔سرشاہنواز بھٹو کی واحد اولاد ذوالفقار علی بھٹو تھے جس وقت سرشاہنواز بھٹو کا انتقال ہوا اس وقت ذوالفقار علی بھٹو برطانیا میں زیر تعلیم تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی شادی خاندان میں ہوئی تھی پہلی بیوی امیر بیگم ذوالفقار علی بھٹو سے عمر میں تقریبا 20سال بڑی تھیں ،ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی اہلیہ امیر بیگم سے کوئی اولاد نہیں ہے۔ نصرت بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری اہلیہ تھیں۔ نصرت بھٹو کا تعلق ایران کے شہر اصفہان سے تھا۔ ا سکندر مرزا کی اہلیہ ناہید مرزا اور حاکم علی زرداری کی اہلیہ شیریں زرداری کا تعلق بھی ایران کے شہر اصفہان سے تھا اور یہ تینوں خواتین باہم اچھی دوست اوررشتہ دار تھیں ۔
ذوالفقار علی بٹھو اوائل جوانی میں ہی ایوان اقتدار کی بھول بھلیوں کے مسافر بن گئے تھے یوں تو ذوالفقار علی بھٹو اوائل عمر میں ہی وزارت کے منصب پر فائز ہوگئے تھے لیکن انہیں شہرت وزیر خارجہ کے طور پر حاصل ہوئی یہ حقیقت بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کے جس وقت پاکستان اور بھارت میں سندھ طاس معاہدہ (Indus watter treaty)ہوا اس وقت ذولفقار علی بھٹو وزیر زراعت تھے ۔

1971کے اواخر میں دنیا کے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریڑ بننے والے ذوالفقار علی بھٹو بعد ازاں ملک کے وزیر اعظم بنے 1977کی پاکستان قومی اتحاد کے تاریخی جدو جہد اورتحریک نظام مصطفی کے نتیجہ میں اقتدا ر سے محروم ہوئے اور پھر نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں مکمل عدالتی کاروائی کے بعد راولپنڈی جیل میں پھانسی کے پھندے پر جھول کر اپنے رب کے حضور پیش ہوئے جس وقت 4اپریل 1979بھٹو کو پھانسی دی گئی اس وقت ان کی عمر 50سال اور تین ماہ تھی ۔

ذوالفقار علی بھٹو کی 4اولادیں تھیں سب سے بڑی بینظیر بھٹو پھر میر مرتضیٰ بھٹو اس کے بعد شاہ نواز بھٹو اور سب سے چھوٹی صنم بھٹو ۔بینظیر بھٹو کی ولادت 21 جون 1953 میں ہوئی، میر مرتضیٰ بھٹو نے 20ستمبر 1955کو اس دنیا میں آنکھیں کھولیں ،میر شاہ نواز بھٹو کی پیدائش 1957اور صنم بھٹو کی اس دنیا میں آمد 1959کی ہے۔

بینظیر بھٹو کو ذولفقار علی بھٹو نے ابتدا سے ہی امور خارجہ کیاسرار ورموزسمجھاناشروع کر دیئے تھے اور 19سال کی عمر اور زمانہ طالب علمی میں ہی1972میں شملہ معاہدے کے وقت بینظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی مشیر امور خارجہ تھیں اور اس معاہدے کی مذاکراتی ٹیم کا اہم حصہ بھی ، ذولفقار علی بھٹو کے انتقال سے قبل ہی بینظیر بھٹو سیاست کے خارزار میں قدم رکھ چکی تھیں ذوالفقار علی بھٹو کے انتقال کے بعد ان کی اولاد میں سے تین نے سیاست میں قدم رکھا صنم بھٹو روز اول سے ہی سیاست سے لاتعلق رہی تھیں، بھٹو خاندان کے جن افراد نے سیاست میں قدم رکھا اور ایوان اقتدا ر کی راہداریوں میں وقت گزاراان میں سب سے بڑی عمر بینظیر بھٹو نے پائی شاہ نواز بھٹو 1984میں جس وقت موت سے ہم آغوش ہوئے اس وقت ان کی عمرصرف 26سال تھی میر مرتضیٰ بھٹو کو جب 70کلفٹن کے سامنے قتل کیا اس وقت ان کی عمر صرف 41سال تھی (1955-1996) اور 2007پر میں جب بینظیر بھٹو درندہ صفت قاتل کا نشانہ بنیںاس وقت ان کی عمر صرف54سال 6ماہ اور 6دن تھی۔(21.6.1953 27.12.2007) یوں یہ قول اپنی جگہ حقیقت لیے نظر آتا ہے کہ بھٹو اقتدار اور جوانی میںمر جانے کے لیے پیدا ہوتے ہیں ۔

اگر ہم پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں پر نظر ڈالیں تو بے نظیر بھٹو ان میں سب سے نمایاں نظر آتی ہیں ان کی وسیع انظری کے حلیف ہی نہیں حریف بھی معترف نظر آتے ہیں ۔ بے نظیر بھٹو2مر تبہ (1988-1990)اور (1993-1996) پاکستان کی وزیر اعظم رہیں ۔ ان کے اقتدار کا پہلا دور اس وقت شروع ہوا تھا جب ضیا ء الحق کے طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہونے کے بعد ملک بے یقینی کا شکا ر تھا بے نظیر بھٹو نے اپنی بالغ انظر ی سے اس بے یقینی کی کیفیت کو تقریبا ختم کردیا تھا کے 6اگست 1990کو ان کے اقتدار پر شب خون مارا گیا ۔اس سے قبل 1989میں ان کی حکومت کے خلاف عدم اتحاد کی ایک تحریک نا کام ہو چکی تھی ۔

بے نظیر بھٹو کو دوسری مرتبہ اقتدار اس وقت ملا جب 1993میں وزیر اعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان کے مابین کشیدگی نے محاذ آرائی کی صورت اختیار کرلی تھی ۔ صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو بر طرف اور اسمبلیوں کی تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا تو سپریم کورٹ نے اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی کی اپیل پر حکومت اور اسمبلی بحال کردی تھی لیکن جب نواز شریف کی جانب سے مفاہمت کی ہر کوشش کو رد کردیا گیاتو پھر عبدالوحید کا کڑ فارمولاسامنے آیا اور محاذ آرائی پر آمادہ نواز شریف اور غلام اسحاق خان کو بیک وقت استعفیٰ دینا پڑا یوں ملک ایک مرتبہ پھر بے یقینی اور بحرانی کیفیت کا شکار ہوگیا تھا ۔ان حالات میں بے نظیر بھٹو کا چیلنج قبول کرتے ہوئے وزارت اعظمیٰ کا منصب قبول کرناان کے بلند حوصلہ اور اعصاب کی مضبوطی کی دلیل ہے ان حالات میں

اقتدار قبول کرنا ایسا ہی تھا کہ
ایک آگ کا دریا ہو اور تیر کے جانا ہے

نومبر 1996میں انکل فاروق لغاری کی جانب سے بے نظیر بھٹو حکومت کی بر طرفی نے ملک کو ایک اور مرتبہ پھر بے یقینی اور بحرانوں کی دلدل میں دھکیل دیا جس کا نتیجہ 1999میں پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ اور غیرجمہوری دور کی تاریکی کی صورت میں نکلا ۔

اکتوبر 2007میں بے نظیر بھٹو نے ملک کو بحرانوں اور آمریت کی تاریکی سے نکالنے کے لیے وطن واپسی کا فیصلہ کیا اگر چہ اس واپسی کے پہلے ہی دن نا دیدہ قوتوں نے استقبالی جلوس میں تقریبا 180انسانوں کی جان لے کر بے نظیر بھٹو کے حو صلہ ہلمت اور عزم کو شکست دینے کی کوشش کی تھی لیکن اس کوشش میں نا کام کے بعد ان قوتوں نے صرف70دن بعد اس بلند
نظر لیڈر کو ہم سے چھین لیا ۔
ڈھونڈو گے ہمیں ملکو ں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر