... loading ...
16؍ دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوا ۔ پاکستان دشمنوں کے لیے یہ دن شادمانی اور مسرت کا ہے ۔ مگر پاکستان میں ہر سال اس دن گویا عالم ِ سوگ ہوتاہے۔سقوط ڈھاکا کا غم تازہ ہی رہتا ہے ۔ٹی وی چینلز پر خصوصی پروگرامات نشر اوراخبارات میں خصوصی صفحات شائع ہوتے ہیں ۔ایک طرف ہماری کوتاہیوں ،ناکامیوں اور انا پرستی کا نوحہ ہوتا ہے تو دوسری طرف بھارت کا ہماری پیٹ میں چُھرا گھونپنے کا ذکر بھی ہوتا ہے کہ جس نے کمال چالاکی اور راز داری سے مغربی پاکستان کے بالا دست طبقات کی زیادتیوں ، نالائقیوں اور طاقت و اقتدار کے خمار کا فائدہ اُٹھا کر پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے ۔اندرا گاندھی نے اس فتح پر برملا کہا کہ انہوں نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا۔ پاکستان کی وحدت کے قائل ہزاروں لاکھوں بنگالیوں کا بے دریغ قتلِ عام ہوا۔ان کی خواتین بے آبرو کی گئیں۔اوربھارتی پر وپیگنڈا مشنری نے بڑی بے شرمی سے الٹا الزام پاکستان کی افواج پر دھرا ۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش آج بھی دار ورسن کی آزمائشوں کا سامنا کیے ہوئے ہے۔بھارت اور اُس کی تربیت یافتہ مکتی باہنی نے آزادی کی اس تحریک کے دوران مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین،صنعت کاروں،تاجروں،اساتذہ اور مزدور پیشہ افراد کو مارنا شروع کر دیا تھا۔گویا یہ اُن افراد و خاندانوں کی مشرقی پاکستان سے بے دخلی کی مہم کا حصہ تھا۔ بلوچستان میں بھی وہی طریقہ اپنایا گیا جس پر آج بھی آزادی کے علمبردار عمل پیرا ہیں ۔
بھارت نے پشتونستان تحریک کی آ بیاری کی، گریٹر بلوچستان موومنٹ کو بڑ ھاوادیا۔ کسی نہ کسی شکل میں آزاد بلوچستان کی تحریک کو زندہ رکھا ہے ۔ بھارت فریب اور تخریب کی سازشوں پر آج بھی کاربند ہے۔گویا پاکستان کے اندر پشتون و بلوچ علیحدگی پسندوں کے مورچوں کو فعال رکھا۔چنانچہ اب بھارت افغانستان کے مورچے میں بیٹھ کر فاٹا کے شدت پسندوں کو آلہ کار بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ افغان حکومت اور اس کے سیکورٹی ادارے بھارت کے اشاروں پر حرکت کر رہے ہیں ۔پاکستان ایک بڑی مشکل سے دوچار ہے ، خواہ ضرب عضب اور ردالفساد جیسے کتنے ہی آپریشن کیے جائیں ، جب تک افغانستان کی سرزمین پر بھارت اپنے جاسوسی کے وسیع نیٹ ورک کے ساتھ موجود رہے گا ،تب تک پاکستان کے لیے سکون اور امن کا دن ممکن نہیں۔ملک کے اندر سولہ دسمبر 1971ء کے سانحہ عظیم پر گہرے جذبات و احساسات کا اظہار ہوا۔اور سولہ دسمبرکے ہی روز پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے خوںچکاںواقعے کی تیسری برسی کی مناسبت سے دعائیہ تقاریب کا انعقاد ہوا ۔اور اگلے ہی روز کوئٹہ کے میتھوڈسٹ گرجا گھر میں خود کش بمبار گُھس گئے ۔انسان نُما یہ درندے ہولناکی اور تباہی کی بڑی تیاری کے ساتھ آئے تھے ۔جسموں سے بارود باندھ رکھا تھا ،کلاشنکوف ، دستی بم اور خنجروں سے بھی لیس تھے۔اتوارسترہ دسمبر کی اس دوپہر کو گرجا گھر میں دعائیہ تقریب ہو رہی تھی ۔چار سو سے زائد مرد،عورتیں اور بچے شریک تھے۔گمان ہے کہ حملہ آوروں نے کامیابی کی صورت میں پہلے پہل چُن چُن کر نہتے اور معصوم شہریوں پر گولیاں برسانا تھیں۔جس کے بعد خنجروں کے وار سے ان کے گلے کاٹنے تھے اور آخر کار خود کو اُڑانا تھا۔ مگر رب کریم کو ایسا منظور نہ تھا ۔ گرجا گھر کے احاطے میں موجود پولیس اہلکار ان کی راہ میں مزاحم ہوئے۔ دہشت گرد بھی احاطے کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔ایک دہشت گرد کو داخل ہوتے ہی ٹانگ اور بازو میں گولیاں لگیں،دوسرا فائرنگ کرتے ہوئے چرچ کے مرکزی داخلی دروازے پر پہنچا، دروازہ بند پا کر وہیں خود کو اُڑا دیا۔جس کے نتیجے میں نو معصوم شہری جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے کا خون نا حق ہوا۔اور ایک بڑی تعداد زخموں سے چور ہوئی۔ تاہم حملہ آور بڑے پیمانے پر مردم کشی نہ کر سکے۔گویا دہشت گرد ماہ دسمبر کے اس دن کو بھی ہلاکت خیزی کے اعتبار سے یادگار بنانا چاہتے تھے ۔بلوچستان میں گرجا گھر پر اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
پاک افغان سرحدی شہر چمن میں اور کوئٹہ کے شاہ زمان روڈ پر گرجا گھروں پر دستی بم حملے ہوئے ہیں۔البتہ خود کش بمبار کا حملہ پہلی بار ہوا ہے ۔جس کی منصوبہ بندی یقینی طور پر افغانستان میں ہوئی ہے ۔اور مقامی افراد سہولت کار کے طور پر استعمال ہوئے ہوں گے۔ملک کے اندراس طرح کی وارداتیں بلا تخصیص ہوئی ہیں ۔درگاہیں،مساجد،امام بارگاہیں،گرجا گھر ،دوسری عبادت گاہیں ،تعلیمی اداروں،عدالتوں،سیاسی و مذہبی اجتماعات یہاں تک کہ کھیل اور تفریحی مقامات بھی ہدف بنے ہیں۔ اور یقینا آئندہ بھی یہ مقامات ان عناصر کے نشانے پر ہوں گے ۔مختلف مکاتب فکر اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد قتل ہوئے ہیں۔ فوج ،ایف سی اور پولیس کے اعلیٰ و ادنیٰ اہلکاروں پر بھی حملے ہوئے ہیں ۔بلوچستان میں تو اب تک ہزاروں شہری پیوند خاک ہو چکے ہیں۔ پولیس کے آٹھ سو سے زائد افسران اور سپاہی موت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔البتہ ملک کے دوسرے شہروں میں مسیحی عبادت گاہوں پر بڑے حملے پہلے بھی ہو چکے ہیں۔
لاہور کے یوحنا آباد میں2015میں دو گرجا گھروں میں پندرہ لوگ قتل کر دیے گئے تھے ۔پشاور کے ایک چرچ میں نوے کے قریب افراد موت کے گھاٹ اُتارے گئے۔ اسی طرح بہاولپور اور اسلام آباد کے بھی گرجا گھروں میں حملے ہو چکے ہیں ۔یہ گروہ پاکستان اور یہاں کے عوام کے دشمن ہیں ۔در اصل دہشت گرد پاکستان کو غیرمستحکم کرنا چاہتا ہے۔بشپ آف بلوچستا ن اینڈ کراچی ڈینئل صادق نے دکھ اور غم کے اس موقع پر دانشمندی کی بات کہی کہ ’’دہشت گردوں نے ہم سب پر حملہ کیا ہے۔ یہ حملہ پاکستان کی سا لمیت پر کیا گیا ہے۔ دہشت گرد گرجا گھروں، مساجد، امام بارگاہوں سمیت ہر قسم کی عبادتگاہوں کو نشانا بنارہے ہیں۔‘‘
کوئٹہ کا یہ تازہ حملہ داعش نے قبول کر لیا۔اور داعش کا پورا نیٹ ورک افغانستان میں قائم ہے ۔جن کے قبضے میں مختلف افغان علاقے آچکے ہیں ۔داعش ، تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی جیسی تنظیمیں ایک ہی چھتری تلے کام کر رہی ہیں۔ افغان حکومت اور امریکا پر لازم ہے کہ وہ ان گروہوں کی سرکوبی یقینی بنائے۔امریکہ کے لیے ان کا قلع قمع کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے ۔کیونکہ امریکا کے پاس دنیا کی بہترین آرمی اور جدید و خطرناک ترین اسلحہ موجود ہے ۔امریکا کی فضائی طاقت بھی یکتاہے مگر شاید امریکا و افغانستان ان تنظیموں کا خاتمہ چاہتے ہی نہیں ۔پاکستان کے لیے اب افغانستان سے متصل سرحدوں کی حفاظت یقینی بنانا ضروری ہو گیا ہے۔ بلوچستان کے ساتھ بارہ سو کلو میٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کا کام بھی برق رفتاری کے ساتھ مکمل ہوجانا چاہئے ،جو حکومت او پاک فوج کے پیش نظر ہے ۔اگر بات کوئٹہ میں سیکورٹی کے بندوبست کی کی جائے تو اس ضمن میں خاطر خواہ اقدامات اُٹھائے جا چکے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ سانحات و واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ۔بہر حال دہشت گردوں کے لیے شہر کے اندر مقاصد پانا آسان بھی نہیں ۔ایسے بہت سے حملے ناکام بنائے جا چکے ہیں۔ غرض میتھوڈسٹ گرجا گھر میں قیمتی جانوں کا ضیاع بے حد افسوسناک ہے ۔بلا شبہ اس نقصان کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ لیکن ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ وہاں موجود جم غفیر محفوظ ر ہا۔یقینا پولیس اہلکار جان کی پروا کیے بغیر دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ گئے ۔ برابر بیس منٹ تک ان کا مقابلہ کیا۔ایک کو سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس مزاحمت کے نتیجے ہی میں دوسرا خود کش ہدف تک پہنچے بغیر دھماکا کر کے ختم ہوا ۔صد آفرین ان اہلکار وں پر کہ جن کی ہمت اور بہادری کی وجہ سے سینکڑوں گھر اُجڑنے سے محفوظ رہے ۔