... loading ...
فراست رضوی
پاکستان میں اُردو غزل کئی ادوار اور اسالیب سے گزر کر اب ایک نیا تخلیقی موڑ کاٹ رہی ہے۔ قمرؔ جلالوی کی زبان سے لطف پیدا کرنے والی غزل،فیض ؔکے نیم غنودہ لہجے کی رومانی غزل،حفیظؔ ہوشیارپوری کی روایتی احیاء کے غزل،ناصرؔ کاظمی کی اُداس اور رفتگاں زدہ غزل،محشر ؔبدایونی کی ہجرت اور سیاسی موضوعات کو برتنے والی نوکلاسیکی غزل،سلیم ؔاحمد کی بیاض والی اینٹی غزل،شہزادؔ احمد کی پختہ کار فکری غزل،عزیز حامد مدنیؔ کی فارسی ڈکشن سے مرصع غزل،منیرؔ نیازی کی جمالِ یار کے رنگوں میں ڈوبی،ویران بستیوں کے مناطر دکھاتی غزل، احمد فرازؔ کی نوعمری کے عشقیہ جذبات سے لبریز،دلفریب غزل، رساؔ چغتائی کی زندگی سے جڑی سادہ و پُرکارغزل، ظفرؔ اقبال کی لسانی تشکیلات کے زیراثر،زبان کی توڑ پھوڑ والی غزل،احمد مشتاقؔ کی یادِ رفتہ کی پرچھائیاں لیے دل سوز غزل،جونؔ ایلیا کے تیکھے لہجے والی پُر خیال غزل،انور شعور ؔکی داغ دہلوی کا رنگ لیے عاشقانہ غزل،ثروتؔ حسین کی شدت حسن سے جگمگاتی غزل،افضال احمد سید کی فارسی لفظیات اور عربی کلچر سے گندھی ہوئی غزل اور صابر ظفرؔ کی لوک ادب سے متاثر تجرباتی غزل۔بلاشبہ، غزل کے ان سارے اسالیب نے پاکستانی غزل کے سرمائے میں بیش بہا اضافہ کیا ہے۔لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ سارے دائرے اپنے امکانات پورے کر چکے ہیں۔
اب نئی اُردو غزل، اکبر معصومؔ،خالدؔ معین،شاہینؔ عباس،ادریس بابرؔ،شاہدؔ ذکی، انعام ندیمؔ،کاشف حسین غائرؔ، سیدکامیؔ شاہ،توقیرؔ تقی،شبیر نازشؔ،دلاور علی آزرؔ اور ذوالفقار عادلؔ کی غزل ہے۔غزل کا یہ شجرِ تروتازہ ایک نئی آب وہوا میں پلا بڑھا ہے ۔ یہ نئی آب وہوا،بے یقینی، دہشت گردی،مذہبی انتہا پسندی، جھوٹ اور زر پرستی پر قائم معاشرے کی آب و ہو اہے۔ یہ الیکٹرونک میڈیا سے پیدا ہونے والے ذہنی انتشار اور ہولناکی کا دور ہے۔ یہ سچی شاعری سے بے اعتنائی کا زمانہ ہے۔یہ ایک بڑا چیلنج ہے، جسے پرانے لکھنے والوں نے شاید اِس طرح faceنہیں کیا ہوگا، جیسے آج کا نوجوان تخلیق کارfaceکررہا ہے۔
ذوالفقار عادل ایک ایسا ہی نوجوان شاعر ہے جواِس عہد ِ بے اماں میں صلے اور ستائش کی پروا کیے بغیر اپنے عہد کا نوحہ بھی لکھ رہا ہے اور اپنی ذات کا دکھ بھی۔وہ جانتا ہے یہ معاشرہ اسے کچھ نہیں دے گا،سوائے بے توجہی کے اور بے اعتنائی کے۔اس کے لیے سچا شعر لکھنے کی مسرت ہی سب سے بڑا صلہ ہے۔اس کی شاعری میں جھوٹ کا مکروہ چہرہ کہیں نظر نہیں آتا۔اس کی تازہ شعری کتاب’’شرق مرے شمال میں‘‘ معاشرے کی منافقت اور تضادات کی طرف بہت کھل کر اشارے کرتی ہے۔اس کی غزل نئے گلوبل ویلیج کی فضا سے ابھری ہے۔ اسی لیے اسے سرمایہ دارانہ نظام سے ظہور پذیر ہونے والی بیگانگی اور نا انصافی کا پورا ادراک ہے۔’’شرق مرے شمال میں ‘‘کا ٹکڑا جو اس شعری مجموعے کا نام ہے۔ جس شعر سے لیا گیا ہے اسے دیکھیے تو سماجی ناانصافی پر کیے گئے اس طنز کی کاٹ آپ کو اپنے دل پر محسوس ہوگی۔
نکلا ہوں شہرِ خواب سے کیسے عجیب حال میں
غرب مرے جنوب میں، شر ق مرے شمال میں
ذوالفقار عادل کی نگاہ میں عہدِ جدید کے انسان کی پناہ گاہ صرف شہرِ خواب رہ گئی ہے کیونکہ جب بھی ہم اِس شہرِ خواب سے باہر نکلیں گے تو بدلی ہوئی قدریں ہمارے دُکھوں میں اضافہ کردیں گی۔مفاد پرست اپنے ذاتی فائدے کے لیے ہر شے کی صورت کو مسخ کررہے ہیں۔ اب جنوب کو مشرق کہا جا رہا ہے اور شمال کو مغرب، ایسا حقیقت میں تو ممکن نہیں ہے مگر طاقت کے زور پر اس عہد میں ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک مثال ہے انتہائی سچی اور سفاک مثال۔ آج جہالت علم کے درجے پر فائز ہے اور علم کو جہل کہ اس کا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ شرافت جرم ہے اور عیاری اور منافقت کو سیاست کا نام دیا جاتا ہے۔بے گناہوں کے قتلِ عام کو جہاد کہا جاتا ہے،دیانتداری حماقت سے موسوم ہے۔ سماجی نا انصافی کی ایسی ہزاروں شکلیں ہم اس شعر میں دیکھ سکتے ہیں۔ معنی کی یہی کثرت اس شعر کی خوبی ہے۔
ارسطو نے بوطیقا میں لکھا ہے’’جدید لفظ وہ نہیں ہے جو پہلے استعمال نہ ہُوا ہو بلکہ وہ پرانا لفظ ہے جس کے نئے معنی شاعر نے دریافت کیے ہوں‘‘۔ ہندوستان کے معروف نقاد ڈاکٹر انیس اشفاق جنھوں نے ’’اردو غزل میں علامت نگاری‘‘ کے موضوع پر لکھنو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا ہے، اپنی تازہ کتاب’’غزل کا نیا علامتی نظام‘‘ میں، پرانی علامتوں میں نئی معنویت اور نئے تلازمات تشکیل دینے کے حوالے سے فیض ؔکی شاعری کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’ اپنی شاعری میں وسیع تر معنوی امکانات پیدا کرنے کی غرض سے فیضؔ اُن علامتوں کی طرف متوجہ ہوئے، جو کہنے کو تو پرانی تھیں لیکن جن میں نئے معانی کی جستجو بہ آسانی کی جاسکتی تھی، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبالؔ کے بعد فیضؔ شعوری طورپر علامتی شاعری کی طرف متوجہ ہوئے اور پرانی علامتوں میں نئے مفاہیم کی جستجو کے ذریعے انھوں نے پرانی علامتوں کی معنویت کو بدل ڈالا۔‘‘
اس میں شک نہیں کہ فیضؔ صاحب ہمارے عہد کے وہ پہلے شاعر تھے، جنھوں نے پرانے استعاروں کو نئے سیاسی اور سماجی مفاہیم میں استعمال کِیا اور پرانے استعاراتی نظام کی بنیاد پر ایک نیا شعری نظام بنایا۔ ذوالفقار عادل کی غزلوں میں بھی ہمیں عہدِ حاضر کی معروف شعری لفظیات کو نئے معانی دینے کی کوشش واضح طورپر نظر آتی ہے۔
ذوالفقار عادل کے خون میں کچھ درویشی بھی شامل ہے۔ تصوف کا ایک مدھم سا رنگ اس کے شعری مزاج کا حصہ ہے، جو اسے ورثے میں ملا ہے۔ تصوف کے اس ورثے نے اس میں ایک ایسی نظر پیدا کردی ہے جو اشیاء میں مادی اشکال سے پرے کسی نادیدہ حقیقت کو دیکھ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہی وہ بات ہے جو اسے اپنے ہم عصر نوجوان شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔ اور اس کی شاعری میں اکہرے پن کے بجائے ایک نوع کی کثیرالمعنویت پیدا کردیتی ہے۔ یہی وہ شعری رویہ ہے جو اسے الفاظ کے متعین معنوں کے اس پار نظارہ کرنے پر اُکساتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دل کا لفظ فارسی اور اردو غزل میں کثرت سے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ تصوف کے اصطلاحات کی مشہور نعت’’سرِ دلبراں‘‘ میں حکیم ذوقی شاہ نے فرمایا ہے کہ ’’ دل کے معنی یہ ہیں کہ وہ وجود کے حقائق کا آئینہ ہے،کیونکہ عالم کے تغیرات دل میں منعکس ہوتے رہتے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ سارا عالم دل کا آئینہ ہے،کیونکہ دل اصل ہے اور عالم اس کی فرع۔صوفیا کی نظر میں دل کے سوا کوئی چیز نہیں جو ذاتِ باری کے اسماء و صفات کے ذائقوں کو محسوس کرسکے۔‘‘
یوں تو ذوالفقار عادل کی غزلوں میں بہت سے ایسے لفظ ہیں جو لغت کی حدوں کو پھلانگ کر معنویت کی نئی وادیوں میں جابسے ہیں،لیکن میں فی الوقت لفظِ دل کی مثال دوں گا۔ دل کے لفظ کو ذوالفقار عادل نے جہاں بھی استعمال کیا ہے ،اس میں تصوف کا رنگ نمایاں ہے۔ہر بار دل کا لفظ ایک نئے معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔مجموعی طورپر غورکریں تودل اس کے یہاں پوری انسانیت سے محبت کی علامت ہے۔یہ ساری حقیقتوں کا محورومرکز ہے۔ یہ لفظِ دل اس کی شاعری میں دنیا کی ساری سازشوں،نفرتوں اور ہوسِ زر کی ضد ہی نہیں بلکہ یہ تسلیمِ حق اور بلند انسانی اقدار پر اس کے ناقابل شکست یقین کا استعارہ بھی ہے۔ اس حوالے سے اس کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
دن میں شب کا بوجھ اٹھایا،دن میں شب بیداری کی
دل پر دل کی ضرب لگائی ایک محبت جاری کی
ہم انصاف نہیں کرپائے، دنیا سے بھی،دل سے بھی
تیر ی جانب مڑ کر دیکھا یعنی جانب داری کی
۔۔۔
دائرہ اس مثلث کے باہر بھی ہے اور اندر بھی ہے
ایک نقطہ ہے دل، لطف ہر مسئلے کا اٹھاتا ہُوا
رات پکڑا گیا اور باندھا گیا، اور مارا گیا
ایک لڑکا سا دل، میرؔ کے باغ سے پھل چراتا ہُوا
۔۔۔
ہر حسرت پر ایک گرہ سی پڑجاتی تھی سینے میں
رفتہ رفتہ سب نے مل کر دل سی شکل بنالی ہے
۔۔۔
ہر اک وقت کے بادشہ سے الگ
یہ دل ایک بے وقت کا بادشہ
۔۔۔
اگر جلایا گیا ہے کہیں دیے سے دیا
تو کیا عجب کہ کبھی دل سے دل بنایا جائے
۔۔۔
دل تختی پر،عشق زباں میں،پلکوں سے اور اشکوں سے
کہے حسین فقیر سئیں دا،عادلؔ لکھتا جائے نیں
۔۔۔
ذوالفقار عادل دراصل انسانی رشتوں کے احترام کا شاعر ہے۔ اس کے لیے سب کچھ انسانی رشتے ہیں۔ زندگی کا سارا حُسن اسے فطرت کے مناظر اور انسانی رشتوں میں دکھائی دیتا ہے۔ اُس کے دوست اور اس کے خاندان والے اس کا آئینہ ہیں،جس میں وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے۔ان کے بغیر اس کا وجود دھند میں لپٹا ایک ایسا پیکرہے جس کی کوئی معنویت نہیں۔یہی رشتے اس کے شعری ادراک اور اس کے تخلیقی عمل کی قوت ہیں، اس نے اپنے نانا بشیر احمد کے لیے لکھا:
ایک سفر میں سارا عالم اور فنا درپیش
جن کا کام محبت، باقی ان کے نام ہمیش
ایک دعا سے کھل سکتے ہیں یہاں ہزاروں پھول
اس مٹی کے نیچے ہے اک دریا ،اک درویش
اس نے اپنی نانی اماں کے لیے لکھا:
سورج مکھی کا پھول تھا دل تازہ تم سے تھا
دنیا میں شرق و غرب کا اندازہ تم سے تھا
اس نے اپنے دادا حسن محمد کے لیے لکھا:
دھوپ دیکھی ہی نہیں تھی، بارشوں کا ڈر نہ تھا
آج سب دیکھا ہے، جب اک سائباں سرپر نہ تھا
اس نے اپنے والدِ گرامی کے لیے لکھا:
میں کہ نام و نشان ہوں اس کا
میرا مسکن مرا پتا وہ ہے
اس کی آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
میری آنکھوں میں دیکھتا وہ ہے
اپنی والدہ کے لیے اس نے لکھا:
دنیا کی سب سے خوبصورت چیز
میری ماں کی ہنسی ہے
اس میںچاروں سمتیں اور تینوں زمانےموجود ہیں
یہ انسانی رشتے اس کی روح سے لپٹے ہوئے ہیں۔وہ ایک ایسا پرندہ ہے جو جلتے ہوئے شجر کے ساتھ جل جاتا ہے،مگر اپنا مسکن نہیں چھوڑتا۔اسی لیے اس نے بڑے دکھ کے ساتھ یہ شعر لکھا:
کچھ پرندوں کو یہ معلوم نہیں تھا عادلؔ
جل رہا ہو تو شجر چھوڑ دیا جاتا ہے
ناؤ،پانی ، خاموشی،خواب،دریا،دل اور پرندے ذوالفقار عادل کے بینادی استعارے ہیں۔ یہ استعارے ایک آبادی میںظہور کرتے ہیں،اس آبادی میں کہیں کہیں کھنڈر بھی ہیں اور ویرانے بھی۔پاس اک قدیم دریا بہتا ہے۔ یہ آبادی ایک شہر ہے، متضاد احساسات اور گل رنگ مناظر سے سجا ہوا۔۔۔۔یہ شجاع آباد ہے جو اس کے تخیل میں جاکر ایک شہرِ طلسمات میں تبدیل ہوگیا ہے۔ یہ بستی اس کی شاعری میں محبت کرنے والے معصوم لوگوں کی بستی کا استعارہ بن گئی ہے۔یہاں اکی اُجلی اور آہستہ خرام صبحیں،اُداس دوپہریں، پُر اسرار شامیں اور سکون،امید،ڈر اور خوابوں سے بھری راتیں،اس کی شاعری میں بڑے حُسن اور رنج کے ساتھ جھلکتی ہیں۔ جیتے جاگتے منظروں کے یہ ٹکڑے اس کی شاعری کاloud scapeبناتے ہیں۔یہ اس کی شاعری کے اسٹیج پر لگا ہوا ’’پینا فلیکس‘‘ ہے۔ سارے انسانی رشتے اور کردار اسی’’پینا فلیکس‘‘ کے پس منظر میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اگر اس کی شاعری کے اسٹیج سے ہم یہ ’’پینا فلیکس‘‘ اُتار لیں تو پھر ہم اس کی شاعری کو نہیں سمجھ سکیں گے۔ اس ساری صورت ِ حال میں اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ literalاور بے تخیل ہوتا تو اس کی محدودیت باقی رہتی،لیکن چونکہ یہ سب کچھ ایک علامتی پیرائے میں ہے اس لیے اس کے سرے آفاقیت کو چھونے لگتے ہیں۔ اِس پس منظر میں اس کے چند اشعار دیکھیے:
وہ شہر کسی شہر میں محدود نہیں تھا
اس میں وہ سبھی کچھ تھا، جو موجود نہیں تھا
گم ہوگئی زنجیر کی آواز میں آواز
افسوس کہ ہم میں کوئی داؤد نہیں تھا
۔۔۔
اسٹیشن پر آتی جاتی گاڑی کی آواز
جیسے اگلی پچھلی ساری صدیوں کی ہمراز
قبرستان کے اک کونے میں گورکنوں کے گھر
موت انھیں زندہ رکھتی ہے مٹی ان کا زر
۔۔۔
گرد کوزوں سے ہٹانے کے لیے آتا ہے
کوزہ گر شکل دکھانے کے لیے آتا ہے
یوں ترا خواب ہٹا دیتا ہے سارے پردے
جس طرح کوئی جگانے کے لیے آتا ہے
ایک کردار کی امید پہ بیٹھے ہیں یہ لوگ
جو کہانی میں ہنسانے کے لیے آتا ہے
۔۔۔
کچھ خاک سے ہے کام ، کچھ اس خاک داں سے ہے
جانا ہے دور اور گزرنا یہاں سے ہے
دل اپنا رائیگانی سے زندہ ہے اب تلک
آباد یہ جہاں بھی غبارِ جہاں سے ہے
۔۔۔
اس کی شاعری میں جہاںبھی کوئی مکانی حوالہ آتا ہے۔ وہاں اس کے اندر آباد اس بستی کی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔اس بستی کو وہ اپنی ساری شاعری میں شہرِ خواب کہتا ہے۔ وہ اس شہرِ خواب سے باہر نہیں آنا چاہتا لیکن زندگی کا جبر اسے شہرِ خواب سے باہر آنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔
ذوالفقار عادل کی شاعری میں احساس اور جذبے کی چنگاریوں کے ساتھ فکر کی روشنی بھی ہے۔ وہ بہت سے عصری مسائل کو غزل کی اشاریت میں چھپاکر پیش کرتا ہے۔ چونکہ سوالات اتنے بڑے اور اہم ہیں کہ پوری طرح چھپ نہیں پاتے۔ ایک صاحب نظر قاری ان سماجی حقیقتوں کے خدوخال کو فوراً شناخت کرلیتا ہے۔ مثلاً یہ اشعار:
کسی کا خواب، کسی کا قیاس ہے دنیا
مرے عزیز یہاں کس کے پا س ہے دنیا
یہ خون اور پسینے کی بو نہیں جاتی
نہ جانے کس کے بدن کا لبا س ہے دنیا
۔۔۔
دیکھنے والوں کو پہچانیں ،اُن کے ساتھ رہیں
رینگنے والے، دوڑنے والوں سے محتاط رہیں
فرش پہ رکھ کر، خوابوں، چہروں اور لکیروں کو
ہم کچھ دیر اجازت ہوتو خالی ہاتھ رہیں
۔۔۔
جتنا ان سے بھاگ رہاہوں اتنا پیچھے آتی ہیں
ایک صدا جاروب کشی کی، اک آواز بھکاری کی
اپنے آپ کو گالی دے کر گھوررہا ہوں تالے کو
الماری میں بھول گیا ہوں پھر چابی الماری کی
۔۔۔
کہیں صندوق ہی تابوت بن جائے نہ اک دن
حفاظت سے رکھی چیزوں کو پھیلانا پڑے گا
۔۔۔
سرکار! ہر درخت سے بنتے نہیں ہیں تخت
قربان آپ پر مرے اوزار اور میں
۔۔۔
شاعری کے پاریکھ کہتے ہیں ہر شاعر کا ایک majer problemہوتا ہے۔ایک مرکزی غم، ایک کلیدی مسئلہ، اس کے بغیر کوئی جینوئن شاعر اپنا تخلیقی سفر جاری نہیں رکھ سکتا۔ جسے فراقؔ صاحب کی زبان میں آپ روک کہہ سکتے ہیں۔ ان کے نزدیک فن کی بقا کے لیے تخلیقی فنکار کے ساتھ کوئی نہ کوئی فکری یا جذباتی روگ لگا ہونا ضروری ہے۔اس حوالے سے ذوالفقار عادل کی شاعری کا جائزہ لیجیے تو آپ کو اس کی غزلوں میں ایک ہی غم نظر آئے گا،وقتِ گزراں کا غم۔گزرتا ہوا وقت ہر چیز کو کھا جاتا ہے۔بہاریں رخصت ہوجاتی ہیں، پھول رزقِ خاک ہوجاتے ہیں۔ویرانے بستیاں اور بستیاں بڑے بڑے شہروں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ چاہنے والے لوگ اچانک بچھڑ جاتے ہیں۔ بس یہی احساس ہے جو ذوالفقار عادل کو افسردہ رکھتا ہے۔ لیکن اس کا اظہار وہ براہِ راست نہیں کرتا، وہ غزل کی رمزیت میں اس دکھ کے رنگین زہر کو اتار دیتا ہے، یوں اس کے لفظوں میں سچائی کا جادو اپنی تابانی دکھانے لگتا ہے۔ اس حوالے سے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
اشک گرتے نہیں ہیں یوں شاید
ہوچکی سیرِ اندروں شاید
ہر کہانی اداس کرتی ہے
ختم ہونے کو ہے جنوں شاید
آگرا ہوں کسی ستارے پر
منہدم ہوگئے ستوں شاید
۔۔۔
شکر کیا ہے ان پیڑوں نے ،صبر کی عادت ڈالی ہے
اس منظر کو غور سے دیکھو، بارش ہونے والی ہے
سوچا یہ تھا وقت ملا تو ٹوٹی چیزیں جوڑیں گے
اب کونے میں ڈھیر لگا ہے باقی کمرا خالی ہے
۔۔۔
عمریں گزار کر یہاں پیڑوں کی دیکھ بھال میں
بیٹھے ہیں ہم نشیں مرے سایۂ ذوالجلال میں
زخم کا رنگ اور تھا، داغ کا رنگ اور ہے
کتنا بدل گیا ہوں میں عرصۂ اندمال میں
۔۔۔
چرچ کی سیڑھیاں، وائلن پر کوئی دُھن بجاتا ہوا
دیکھتا ہے مجھے اک ستارہ کہیں ٹمٹماتا ہوا
۔۔۔
مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ ذوالفقار عادل کی شاعری عامیانہ ہجرو وصال کی شاعری نہیں ہے۔ اس کا تصورِ ہجرووصال اپنے اندر بہت سی تجریدی جہتیں رکھتا ہے۔ ان تصورات میں ایک الوہی وسعتِ نظر بھی ہے۔ اس کا ہجر، آدم کا خدا سے ہجر ہے۔اس کا وصال اپنے آپ کو پالینے کا وصال ہے۔ کیونکہ اس کا عشق جذباتی نوعیت کا سطحی اور پایاب عشق نہیں ہے۔ اس کا عشق کائنات،خدا اوراپنے اردگرد پھیلی ہوئی خوبصورتی سے ہے۔۔۔یہ عشق دراصل شاعر کا اپنے خارج کی دنیا سے ایک سچا اور گہرا تعلق ہے، اس رنجِ آگہی کے ساتھ کہ ہر شے بدل رہی ہے اور یہ عالمِ اشیاء اور یہ کاروانِ انسانی ہر لمحہ فنا کی وادی کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔اس گہرے احساس نے اس سے بہت اچھے شعر لکھوائے ہیں۔اس کے بہترین اشعار کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ میں ان سب کو اس مضمون میں quotنہیں کرسکتا۔اِس کے لیے آپ کو اس کا شعری مجموعہ’’شرق مرے شمال میں‘‘ پڑھنا پڑے گا۔
مرزا غالبؔ کو اٹھارویں صدی کا دلی شہر رہنے کو ملا تو وہاں رہ کر اس نابغۂ سخن نے یہ شعر لکھا:
بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
ذوالفقار عادل کو اکیس ویں صدی کا شجاع آباد رہنے کو ملا تو اس نے یہ شعر لکھا:
اپنی چھت پر اداس بیٹھے ہیں
ہم پرندوں کا روپ دھارے ہوئے
ذرا غور کیجیے، اس شعر میں یہ چھت کیا ہے؟ یہ چھت درحقیقت ہمارا عہد ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کے بے ہنگم شور سے بھرا ہوا سگانِ زر کا عہد، ایسا ترقی یافتہ عہد جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا دیو ہماری اخلاقی قدار کو کھاگیا ۔ اس شعر میں پرندے تخلیقی فنکار ہیں،شاعر ہیں، مجسمہ ساز ہیں،مصور ہیں، گیت گانے والے ہیں۔ یہ انسان ہیں مگر استعماریت اور عالمگیریت کے ماہر شکاریوں کے ستم کا مشاہدہ کرنے کے لیے یہ پرندے بن گئے ہیں۔ان کا روپ پرندوں جیسا ہے مگر یہ اُڑ نہیں سکتے۔کیونکہ ہوا میں بھی جال پھیلے ہوئے ہیں۔یہ عہدِ نو میں ایک فنکار کا المیہ ہے جسے ذوالفقار عادل نے کس بلاغت اور سادگی کے ساتھ لکھ دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ’’شرق مرے شمال میں‘‘ محض ذوالفقار عادل کے تجربات اور خوابوں کی دستاویز ہی نہیں یہ ہمارے عہد کا زندہ تصویر خانہ بھی ہے۔ جس میں ہم اپنا چہرہ اور اپنے عہد کے اجتماعی رویوں کی تصویریں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ میں ذوالفقار عادل سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مستقبل میں اپنے شعری معیار کو نہ صرف قائم رکھیں گے بلکہ اس میں مزید اضافہ کریں گے۔
گماں مبر کہ بہ پایاں رسیدِ کارِ مغاں
ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است
رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...
لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...
پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...