... loading ...
عبادت کے لائق وجود کا تصور دنیا کے ہر مذہب میں موجود ہے ، کہیں وحدانت کا معاملہ ہے تو کہیں تثلیث اور تکثیراور جو اس وجود کو تسلیم نہیں کرتے وہ بھی کسی نہ کسی نادیدہ قوت کو مانتے ہیں۔
مسلمانوں کی طرح یہودی بھی وحدانیت کے قائل ہیں لیکن اپنی چالبازیوں کے باعث راندہ درگاہ قرار پائے ہیں حرام کو حلال کرنے کی حلیہ سازی میں پوری دنیا یہودی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ مسلمان وحدانیت کے قائل ہیں تو عیسائی تثلیث کے ۔ عیسائیوں کے (موجودہ حالت میں) عقیدہ کے مطابق کائنات کا نظام ماں بیٹا اور روح القدس کے ذمہ ہے۔ عبادت کے لائق وجود تسلیم کرنے میں ہندوئوں کا کوئی ثانی نہیں۔ اگرچہ بھگوت گیتا کے مطابق تکثیر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا لیکن ہندوئوں نے جو معبود تشکیل دیئے ہیں ان کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 10کروڑ سے زائد ہے ان میں انسانی وجود بھی اور حیوان بھی ۔ ہندوئوںمیتھالوجی کے مطابق ہر طاقتور دیوتا ہے۔ جس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ناگ (سانپ) بھی دیوتا ہے اور گنیش(ہاتھی) بھی ۔ناگ دیوتا ہو یا گنیش جی ان سے انسانوں کو زیادہ مسائل پیدا نہیں ہورہے۔
ہندوستان گذشتہ ایک عرصے سے جن مسائل کا شکار ہے ان میں سے ایک مسئلہ جو ہرگزرتے دن کے ساتھ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا جارہا ہے۔ وہ بھی ایک دیوتا کا پیدا کردہ ہے۔ اور یہ دیوتا ہیں ہنومان جی (بندر) ہندو دیومالائی کہانی کے مطابق جب راوان(شیطان) سیتا (دیوی) کو اغوا کرکے سیلون(سری لنکا) لے گیا اور دیوی سیتا کا پتی دیو(شوہر) اسے راون سے بازیاب کرانے میں ناکام رہا تو ہنومان جی نے سیتا کے پتی دیو کی مدد کی اور سیتا کو راون کے چنگل سے نجات دلائی پھر وہ بندر سے ہنومان دیوتا قرار پائے۔
پورے ہندوستان میں کروڑوں کی تعداد میں بندر موجود ہیں، ان میں سے ایک بڑی تعداد کو ہندوستان کے باشندوں نے تربیت دے کر مکمل ڈاکو بنا دیا ہے۔ ہندوستان کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں مندر اور بندر ایک ساتھ موجود نہ ہوں مندر پوجا پاٹ(عبادت) کے مراکز ہیں تو بندروں معاف کیجئے گا ہنو مان دیوتائوں کے لیے لوٹ مار کے بہترین ٹھکانے۔ لوٹ مار کرنے والے ان بندروں کی ایک بڑی تعداد کو ہندوستان کے باسیوں جن میں انہیں دیوتا ماننے اور ان کی پوجا کرنے والے بھی شامل ہیں نے انہیں باقاعدہ تربیت دے کرمکمل ڈاکو بنا دیا ہے۔ ان لیٹرے دیوتائوں کا خصوصی نشانہ قیمتی اشیاء ہوتی ہیں، جن میں آئی فون، لیپ ٹاپ، خواتین کے گلوں میں پڑے منگل سوتر(ہندو عورت کے شادی شدہ ہونے کی نشانی) گلوں میں موجود سونے کے لاکٹ، ہینڈی کیم، اور کیمرے شامل ہیں، جب کہ خواتین کے پرس چھیننا اور مردوں کی جیبوں سے بٹوے نکالنا ان کا محبوب مشغلہ ہیں۔ خصوصا جیبوں سے بٹوے نکالنے میں ان کی مہارت دیکھ کر ماہر جیب تراش بھی انگشت بدندان رہ جائیں۔ ان بندروں کو ڈاکو بنانے میں صرف نچلی ذات کے ہندو ہی نہیں اعلیٰ جاتی کے برھمن بھی برابر کے شریک ہیں۔
ہندوستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق ہندوستان میں بندروں کی لوٹ مار کی وارداتیں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ ہندو اپنے دیوتا کے خلاف پولیس سے مدد کے طلب گار ہو گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ممبئی کے ایک مندر میں ایک تاجر اپنے اہل خانہ کے ساتھ پوجا پاٹ کے لیے آیا تو بدقسمتی سے اس نے پنڈت کو نذر کرنے اور مندر کو دان کرنے کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے اپنے دستی بیگ میں رکھ لیے تھے جب وہ مندر میں داخل ہوا تو قریب ہی موجود ہنومان دیوتا اس پر مہربان ہوگئے۔ اسے پنڈت کی نذر اور مندر کو دان کرنے کی زحمت سے بچالیا۔ ہنومان جی نے تاجر سے بیگ چھینا اور درخت پر جا بیٹھے اور نوٹ لٹانا شروع کردیئے۔ اسی طرح ایک عورت کے گلے میں پڑا 2تولہ (تقریبا25گرام) سے وزنی منگل سوتر جھپٹا اور مندر کی دیوار پر چڑھ کر اپنی بندریا کے گلے کی زینت بنا دیا۔ متاثرہ افراد جب کوتوالی (تھانہ) پہنچے تو ڈیوٹی پر موجود اہلکار نے ملزم کا نام پتہ اور حلیہ دریافت کیا جب بتایا گیا کہ وارداتوں میں ملوث کوئی فرد نہیں ہنومان دیوتا ہیں تو انہیں بتایا کہ تھانوں میں کسی بندر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کو طریقہ موجود نہیں ہے یہ صورتحال صرف ممبئی کی نہیں ہے اس سے سب سے زیادہ متاثر شہر اس دیوتا کے نام پر بسایاگیا شہر ہنومان گڑھ ہے جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق بندروں کی تعداد انسانوں سے زیادہ ہے۔
بندروں کی اس لوٹ مار کا پورا ہندوستان شکار ہے شاید ہی کوئی شہر ہو جہاں ہنومان دیوتا کی مہربانیاں نہ ہوں۔ اس صورتحال کے تدارک کے لیے پہلے یو ڈی اے کی سرکار نے بندروں کو بانجھ بنانے کا عمل شروع کیا ، بندروں کی نس بندی کی جانے لگی لیکن اس کا الٹا اثرہوا۔ جس رفتار سے بندروں کی نس بندی ہورہی تھی اس سے زیادہ تعداد میں بندروں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ اس صورتحال میں متعلقہ اداروں خصوصا پولیس نے سرکار سے درخواست کی کہ مندروں اور آبادیوں کے قریب منڈلاتے بندروں کو گولی مارنے کی اجازت دی جائے لیکن اس دوران من موہن سنگھ کی حکومت اپنی مدت پوری کرچکی تھی اور یو ڈی اے کی جگہ ہندوانتہا پسند جماعت بی جے پی حکومت بنا چکی تھی نریندر مودی نے 2014میں انتخابات میں کامیابی ہی ہندوتواء( مذہبی انتہا پسندی) کے نام پر حاصل کی تھی یوں وہ ہنومان دیوتا کے اس قتل عام کی اجازت کس طرح دے سکتے تھے اور عوام اپنے طور پر کسی کاروائی کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ کسی بھی کاروائی کی صورت میں ارد گرد موجود انتہا پسندوں کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جیسا کہ گذشتہ دنوں غیر ملکی سیاح خاتون کو اپنا دستی بیگ بچانے کی کوشش کے دوران بندر کے زخمی ہونے کے بعد انتہا پسندوں کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن خاتون خوش قسمت تھی کہ قریب موجود پولیس نے موصوفہ کو کسی انتہائی کاروائی سے بچالیا ورنہ اسے جان کے لالے پڑ سکتے تھے یوں بھی ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کی شہرت دارالحکومت اور تاریخی شہر سے زیادہ ریپ سٹی کی ہے کہ شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو کہ یہاںخواتین زیادتی سے محفوظ رہتی ہوں گی۔دستیاب محتاط اعداد و شمار کے مطابق دھلی میں روزانہ دو درجن سے زائد خواتین زبردستی گوہر عصمت سے محروم کردی جاتی ہیں اور یہ وہ تعداد ہے جو واردات کے بعد پولیس سے رجوع کرتی ہے ورنہ اس سے کئی گنا زیادہ تعداد عزت اور جنگ ہنسائی کے خوف سے پولیس سے رجوع بھی نہیں کرتی۔ یہ ہے لٹیرے دیوتائوں اور جنسی درندوں کا چمکتا بھارت۔