وجود

... loading ...

وجود

ظفر اور تھیبا

جمعه 10 نومبر 2017 ظفر اور تھیبا

بادشاہوں کی قسمت میں راج کرنا اور اقتدار کے مزے لوٹنا لکھا ہوتا ہے عام طور ہر ہوتا بھی ایسا ہی ہے لیکن کبھی کبھی قسمت کچھ ایسی چال چلتی ہے کہ بادشاہ ہوتے ہوئے بھی راج اور اقتدار سراب بن جاتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر بھی ہندوستان کے ایک ایسے ہی بدنصیب بادشاہ تھے جن کا حکم بس لال قلعے پر چلتا تھا۔ ماہ ستمبر سنہ 1837 میں والد اکبر شاہ دوم کی موت کے بعد بہادر شاہ ظفر تخت نشین ہوئے۔ بہادر شاہ ظفر کا دور آتے آتے مغلیہ سلطنت کے پاس راج کرنے کے لئے محض دلی یعنی شاہ جہان آباد ہی بچا رہ گیا تھا۔1857 تک انگریزوں نے تقریباً تمام ہندوستان کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ انگریزوں کے حملوں سے مشتعل باغی فوجیوں اور راجا مہاراجائوں کو ایک مرکزی قیادت کی ضرورت تھی جو انہیں بہادر شاہ ظفر میں دکھائی دی۔ بہادر شاہ ظفر نے انگریزوں کے خلاف قیادت تو قبول کر لی لیکن 82 سالہ بوڑھا بادشاہ آخر کار جنگ ہار گیا، انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ بہادر شاہ ظفر کو زندگی کے آخری ایام انگریزوں کی قید میں گزارنے پڑے۔ بہادر شاہ ظفر کا انتقال سات نومبر 1882 کو 87 برس کی عمر میں برما (اب میانمار) کی اس وقت کے دارالحکومت رنگون (اب یانگون )کی ایک جیل میں ہوا۔ انگریز بہادر نے آخری مغل تاجدار کی قبر کا نشان بھی باقی نہیں چھوڑا تھا۔ موت کے بعد سو سال سے بھی زیادہ عرصے تک ان کی قبر کا کسی کو پتہ نہیں تھا۔ بہادر شاہ ظفر کے انتقال کے 132 سال کے بعد 1991 میں کھدائی کے دوران ایک قبر کا پتہ چلا۔ ساڑھے تین فٹ کی گہرائی میں بہادر شاہ ظفر کی نشانیاں اور باقیات برآمد ہوئیں۔ بہادر شاہ ظفر کے مزار کی تعمیر1994 میں ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر کو بادشاہ سے زیادہ ایک حساس شاعر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ درد سے بھرپور ان کے اشعار میں زندگی کی تلخ حقیقت اور احساسات کا سمندر موجزن ہے۔ رنگون میں انگریزوں کی قید میں رہتے ہوئے بھی انہوں نے کئی غزلیں کہیں۔ قید میں انہیں قلم دستیاب نہ تھا تو انہوں نے جلی ہوئی لکڑیوں سے قید خانے کی دیواروں پر ہی شعر لکھنا شروع کر دیے۔
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لئے، دو گز زمین بھی نہ ملی کو ئے یار میں۔
ظفر واقعی بدنصیب تھا کہ ہندوستان کا بادشاہ ہوتے ہوئے بھی قبر کے لئے زمین اسے برما میں ملی لیکن اس کہانی کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ جس برما میں بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کیا گیا تھا اسی آزاد برما کے آخری بادشاہ، تھیبا مِن، کو انگریزوں نے برما سے جلا وطن کر کے3 ہزار کلومیٹر دور ہندوستان کے علاقے رتنا گری بھیج دیا تھا۔ تھیبا مِن برما کے کانبانگ خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔ انگریزوں کے ساتھ جنگ میں شکست کے بعد 1885 میں برما پر انگریزی راج قائم ہو گیا۔ جس وقت برما انگریزوں کے قبضے میں آیا اس وقت بادشاہ تھیبا مِن نوجوان تھے اور ان کی عمر صرف 26 سال تھی۔ انگریزوں نے بادشاہ تھیبا اور ان کے خاندان کو ہندوستان جلا وطن کر دیا جس کے لئے ہندوستان میں ساحل سمندر پر آباد جزیرہ نما شہر رتنا گری کا انتخاب کیا گیا۔ اْس وقت رتنا گری کی آبادی محض چند ہزار تھی۔ شروع کے پانچ سال بادشاہ تھیبا اور ان کے خاندان یعنی ان کی ملکہ اور دو بیٹیوں کو دھرنگائوں میں بنے سر جیمز آٹرم کے بنگلے میں رکھا گیا۔ اس دوران بادشاہ تھیبا کے لیے ایک عمارت تعمیر کی گئی جو بعد میں تھیبا پیلس کے نام سے مشہور ہوئی۔ بادشاہ تھیبا کو شروع میں تقریباً ایک لاکھ روپے کی سالانہ پنشن ملتی تھی لیکن رفتہ رفتہ اسے کم کر دیا گیا۔پندرہ دسمبر1616کو 57 برس کی عمر میں جب بادشاہ تھیبا کی موت ہوئی تو ان کی سالانہ پنشن 25 ہزار روپے بھی نہیں رہ گئی تھی۔ موت کے بعد انہیں رہائشگاہ کے نزدیک عیسائیوں کے قبرستان کے پاس دفن کر دیا گیا۔ نہ کوئی مزار بنا نہ کوئی چراغ جلا۔۔ بادشاہ تھیبا کی موت کے کچھ دن تک ان کے خاندان کے لوگ وہیں رہے اور پھر یکے بعد دیگرے پورا خاندان بکھر گیا۔ برما پر صدیوں تک راج کرنے والے اس شاہی خاندان کا آج نشان بھی نہیں ملتا۔ اگر بادشاہ تھیبا بھی بہادر شاہ ظفر کی طرح شاعر ہوتے تو شاید یہ شعر کچھ اس طرح کہتے۔
کتنا ہے بدنصیب، تھیبا، دفن کے لئے۔۔ دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر