... loading ...
(قسط نمبر2 )
اگر ملزم غیر مسلم ہے تو گواہ بھی گیر مسلم ہوسکتے ہیں۔PLD 2010SC 47 کے مطابق سپریم کورت نے یہ قرار دیا ہے کہ لڑکی کے بیان پر فطرتی طور پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔اور اِس کے ساتھ زیادتی کے بیان پر یقین کیا جاسکتا ہے۔ لڑکی کے والد اور والدہ جو کہ چشم دید گواہ نہیں ہیں لیکن بیان سے ے بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ درست کہہ رہے ہیں اور میڈیکل رپورٹ میں بھی جرم ہونا ثابت ہے۔ ایک تین سال کی لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی ایک سنگین جرم ہے۔ اور اُس کے خاندان پر بد نما داغ ہے ایسا مجرم سزا کا مستحق ہے۔ پاکستان میںخواتین پروٹیکشن ایکٹ 2006 میں کچھ ایسی شقیں شامل ہیں جس سے زنا کی حدود کے تحت سزا کی ہیت تبدیل ہوگئی ہے۔PPC 365-B یہ شق بھی خواتین پروٹیکشن ایکٹ کی پاس کردہ ہے اِس کے مطابق عورت کو اغوا کرنا یا عورت کو شادی کرنے پر مجبور کرنا یا زبردستی اُس کے ساتھ زنا کرنا تو ایسے شخص کو عمر قید اور جرمانے کا سزا ہوگی۔اگر کوئی کسی عورت کو کسی اور شخص کے پاس جنسی زیادتی کے لیے لے کر جاتا ہے تو اُس کی سزا بھی عمر قید و جرمانہ ہوگا۔
خواتین پروٹیکشن ایکٹ 2006 میں شامل PPC-265-B کے مطابق دو نکات کا ہونا ضروری ہے یہ کہ کسی عورت کو زبردستی کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ جنسی زیادتی کے لیے لے کر جانا یا اُس کی مرضی کے کے خلاف شادی کروانے کے لیے لے کر جانا ۔ 2010Pcr. LJ182 کے مطابق اغوا شُدہ عورت نے عدالت میں یہ بیان دیا ہے کہ اُس نے پہلے خاوند سے طلاق کے بعد اور عدت پوری کرنے کے بعد ملزم سے شادی کی اور اُس کے والد نے اغوا کا جھوٹا مقدمہ درج کروادیا ہے۔ پراسیکوٹرز کو 173سی آر پی سی کی سکروٹنی کرنے کو کہا گیا لیکن پراسیکیوٹرنے جلدی میں ٹرائل کورٹ میںچالان پیش کر دیا۔ٹرائل کورٹ نے 173 crpc کے تحت رپورٹ پر عمل نہیں کیا لہذا ایف آئی آر خارج کردی گئی۔ PLD 2009Lahore 223 کے مطابق لڑکی عمر اٹھارہ سال ہے اور ولی اجازت کے بغیر نکاح غیر قانونی نہیں ہے۔ PLD 2009 Karchi 278 کے مطابق مغویہ کی عمر اُنیس سال ہے اور اُس کے بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے۔اُس نے ہائی کورٹ میں حلف دیا ہے کہ اُس نے مرضی سے شادی کی تھی اُس ے اغوا نہیں کیا گیا تھا۔کیس لڑکی کے حق میںخارج کر دیا گیا۔PLD 2009 Lahore 546 کے مطابق لاہور ہائی نے قرار دیا کہ میاں بیوی نے اگر نکاح نامے کے مندرجات کو مان لیا ہے تو کوئی دوسرا شخص اِس نکاح کو ئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ کسی عورت کاحق نکاح اِس وجہ سے غیر قانونی نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اُس لڑکی نے ولی کی اجازت کے بغیر شادی کی تھی۔
2009 P.cr.LJ 751 کے مطابق مغویہ ملزم کے ساتھ اپنی مرضی سے بھاگ کر گئی اور اُس نے ملزم سے شادی کرلی تھی مغویہ کی مرضی ہی مقدمے کی قسمت کا فیصلہ ہے۔ ہائی کورٹ نے کیس ختم کردیا۔اِسی طرح خواتین پروٹیکشن ایکٹ میں شامل PPC366-A کے مطابق اگر کسی نابالغ لڑکی سے زنا کیا جاتا ہے اُس کو ورغلا کر لے جاکر جنسی زیادتی کی جاتی ہے یا اُس پر دبائو ڈال کر کسی اور شخص سے اُس کے ساتھ جنسی زیادتی کروائی جاتی ہے۔ تو اُس کی سزا دس سال قید اور جرمانہ ہوگی۔PPC 366 -B کہ جو شق خواتین پروٹیکشن ایکٹ میں شامل ہے کے مطابق اگر کسی لڑکی جس کی عمر11 سال سے کم ہے اور اسے اسِ نیت سے باہر سے پاکستان لایا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ کود زنا کا مرتکب ہوگا یا کسی اور شخص سے اُس عورت کو زیادتی کرواے گا تو ایسے شخص کو دس سال قید اور جرمانہ ہوگا۔ PPC367-Aکے مطابق اگر کسی شخص کو اغوا کر لیا جاتا ہے کہ اُس کے ساتھ غیر فطری فعل کیا جائے گا تو اُس کی سزا سزائے موت یا پچیس سال قید و جرمانہ ہوگی۔PPC-371-A کے مطابق اگر کوئی شخص کسی کو اِس نیت سے فروخت کرتا ہے کہ وہ اس سے جنسی فعل ہوگا۔ تو اُس کو پچس سال قید اور جرمانہ سزا ہوگی۔اگر عوارت کو جنسی زیادتی کے لیے فروخت کرتا ہے تو اُسے بھی یہی سزا ہوگی۔ PPC371-B کے مطابق جو کوئی بھی کسی مرد یا عورت کو جنسی زیادتی کے لیے خریدات ہے تو اُس کو پچیس سال سال قید اور جرمانے کی سزا ہوگی ۔ُُPPC میں ریپ کے جرم کی بابت ذکر ہے۔ ایسا آدمی ریپ کرنے والا مجرم تصور ہوگا۔ اگر وہ کسی عورت سے اُس کی مرضی کے خلاف جنسی زیادتی کرئے ، عورت کے خواپش کے برعکس زیادتی کرے۔ عورت کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر جنسی زیادتی کرے یا عورت کو اِس شائبے میں رکھ کر کہ یہ مرد اُس کے ساتھ شادی کر لے گا اُس کے ساتھ زنا کیا جائے یا اگر لڑکی سولہ سال سے کم عمر کی ہے اور اُص کی مرضی یا مرضی کے خلاف اُص سے جنسی زیادتی کرنا۔ ریپ کی سزا دس سال و جرمانہ ہے۔PPC377کے مطابق اگر کوئی بھی کسی ورت یا مرد یا کسی جانور کے ساتھ غیر فطری جنسی فعل کرتا ہے تو اُس کی سزا عمر قید ہوگی اور جرمانہ بھی ہوگا۔
(ختم شد)