... loading ...
(دوسری قسط)
چند برس قبل عالم عرب میں ایک انقلاب ’’عرب اسپرنگ‘‘ کے نام سے دنیا نے دیکھا، کہنے کواسے ’’عرب بہار‘‘ کا نام دیا گیا لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسیــ’’ عرب خزاں‘‘ ثابت ہوا جس نے جہاں شمالی افریقا سے لیکن مشرق وسطی میں ایک آگ لگا دی تو دوسری جانب باقی رہ جانے والے عرب ملکوںکی بہت سی حکومتوں کے منہ سے نقاب الٹ دیا ۔ کیا اسے بھی ’’حادثاتی واقعے کا نام دیا جائے گا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے کے دوران ظاہر ہونے والے ان پراسرار واقعات کی کیسے تشریح کی جائے۔آج کی دنیا کی کیسے وضاحت کی جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام سوالات کے جوابات قرآن کریم اور حدیث مبارکہ میں موجود ہیں لیکن ان تک پہنچنے کے لیے ہم علمی بنیاد پر کوئی طریقہ کار وضع کرنے میں ناکام رہے۔ قرآن کریم کی اصل روح سے دوری نے اس امت کے علماء کوجاگنے نہ دیا۔بدلتے زمانے کے ساتھ جو ماڈرن ریفرنسز دنیا کے سامنے کھل چکے تھے قرآن فہمی کے لیے انہیں نصاب نہیں بنایا گیا، اللہ رب العزت سورۃ النحل میں فرماتا ہے کہ :
ونزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شئی وہدی ورحمۃ وبشری للمسلمین۔ سورۃ النحل 89۔
ترجمہ: اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز بیان کردی گئی ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔
جب سب کچھ قرآن کریم میں موجود ہے تو اسے جاننے کے لیے باقاعدہ طریقہ کار methodology کیوں نہ وضع کیا گیا۔ قرآن کریم آخری کتاب ہے، دین اسلام انسانیت کے لیے آخری دین ہے تو پھر علم الآخر الزمان Eschatology کیوں نہ مسلمانوں کو پڑھایا گیا۔ غالبا اس علم کا سوائے چند ایک کے شاہد ہی کوئی ماہر مسلمان عالم ہو۔ان حقائق تک پہنچنے کے لیے دیگر علوم کے ساتھ ساتھ علم الآخر الزماں،فلسفہ تاریخ، بین الالقوامی تعلقات عامہ، قرآن کریم کا نظام المعنی اور عرب لغت وادب پر مکمل دسترک ضروری ہے لیکن کتنے علما ہیں جو ان علوم سے بہرہ مند ہیں؟
اب جبکہ سو برس کے بعد دنیا ایک مرتبہ پھر بڑی تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے، برطانیا رقبے کے لحاظ سے چھوٹا ملک تھا لیکن نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے اس کی سلطنت میں سورج نہیں ڈوبتا تھا، اس کے بعد امریکا عالمی حکمران ریاست بنتا ہے وہ بڑا رقبے کے لحاظ سے بڑا ملک تو ہے لیکن اس کے باوجود عالمی دجالی صہیونیت مالیاتی اداروں اور عسکری اڈوں کی بنیاد پر باقی دنیا کو تابع فرمان بنائے رکھتی ہے۔ اب تیسرا اور آخری مرحلہ اسرائیل کی بین الالقوامی سیادت کا ہے لیکن وہ رقبے کے لحاظ سے انتہائی چھوٹا ملک ہے اور چاروں طرف سے عرب ملکوں میں گھیرا ہوا ہے اس لیے مہلک ہتھیاروں کے ذریعے اس کی حدود کو دریائے نیل کے مشرقی کنارے سے لے کر عراق میں دریائے فرات تک وسعت دینے کا منصوبہ ہے جیسا کہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں آویزاں نقشے میں دکھایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی آبادی کو بھی نصف سے بھی زیادہ کم کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ایسا اسی وقت ممکن ہے جب دنیا میں جوہری قوتیں آپس میں ٹکرا جائیں جیسا کہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسرائیل کی عالمی دجالی سیادت کا جواز چونکہ مذہبی یہودی ریاست پر ہے اس لیے باقی دنیا سے بھی اب سیکولرازم اور لبرل ازم کا خاتمہ ہونا شروع ہوجائے گا۔بھارت کی ہندو مذہبی جنونیت کے باوجود اسے عالمی قوتوں کی جو حمایت حاصل ہے ہمیں اس کا مطلب سمجھ آجانا چاہئے جبکہ پاکستان میںمذہبی تنظیموں کے نام سے ہی تمام دنیا کے پیٹ میں مروڑ اٹھ جاتے ہیں۔ جوں جوں اسرائیل کے لیے عالمی سیادت کے حوالے سے جگہ بنانے کا وقت قریب آرہا ہے دنیا پر سے امریکا کی دھاک ختم ہوتی جارہی ہے۔ ڈالر عنقریب زوال پذیر ہوجائے گا، اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے چین اور روس نے سونے میں تجارتی لین دین کو فروغ دینا شروع کردیا ہے۔ یعنی دینار(سونا) اور درھم(چاندی)۔ باقی وہ عرب ملک جنہوں نے ستر کی دہائی میں تیل کی قیمت کو سونے سے ہٹا کر ڈالر سے منسلک کرکے ’’پیٹرو ڈالر‘‘ کا نام دیا تھا یکدم دیوالیہ ہوجائیں گے۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا کہ آخری دور میں سونے اور چاندی کے سوا تمام چیزیں اپنی وقعت کھو دیں گی۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ برطانیا اور امریکا جب عالمی حکمران ریاست بنے تو اپنے وقت پر انہوں نے اپنی کرنسی رائج کی تھی۔ اسرائیل کی عالمی سیادت کے قیام کے ساتھ ہی کاغذ کی کرنسی کا خاتمہ ہوجائے گا اور دنیا کو الیکٹرانک کرنسی متعارف کرائے گی جس کا مرکزی بینک یروشلم میں ہوگا یہ ایک بہت خطرناک سسٹم ہے جس کے ذریعے دنیا میں کہیں بھی رہنے والے انسان کے اخراجات اور اصرافات کی تفاصیل دجالی بینک سسٹم کو ہوگی یہاں تک کہ کس گھر میں کھانے کا کیا سامان گیا اس کی تفصیلات بھی مرکزی بینک میں محفوظ ہوجائیں گی۔
عالمی صہیونی منصوبے کے تحت امریکا کو افغانستان سے نہیں نکلنے دیا جائے گا، ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ جیسا عجیب وغریب شخص وائٹ ہائوس میں حادثاتی طور پر نہیں پہنچایا گیابلکہ اس کے پیچھے امریکی عسکری اسٹیبلشمنٹ کی پوری منصوبہ بندی تھی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا جیسے ملک میں جمہوریت ہے اور وائٹ ہاوس فیصلے کرتا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں امریکا پر امریکی جنرل اور بینک حکومت کرتے ہیں صدر ٹرمپ تو ایک ادنی سا مہرہ ہے۔ان تمام حالات میں اب صدر ٹرمپ اگلے ہفتے اپنے ایشیا کے پہلے دورے پر نکل رہے ہیں جہاں وہ جاپان اور جنوبی کوریا میں غالبا ایک ہفتے تک قیام کریں گے اس کے بعد ویت نام، فلپائن اور بعد میں چین کا دورہ ہے جہاں ان کی دنیا کے سب سے طاقتور چینی صدر سے ملاقات ہوگی۔ عرب صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا شمالی کوریا کی آڑ میں جنوب مشرقی ایشیا کو جنگ کی لپیٹ میں لاکر درحقیقت چین کی مغرب کی جانب معاشی اور عسکری پیش قدمی میں رخنہ ڈالنا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ طویل المدتی دفاعی معاہدہ کرکے چین اور پاکستان کو جنوبی ایشیا تک محدود رکھنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ سب سے زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد سے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کا سب سے اہم منصوبہ مسلم ممالک کی ’’پراکسی تنظیموں‘‘ کو خود ان کے عسکری اداروں کے ہاتھوں انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے نام پر تباہ کروانا مقصود تھا جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں عالم عرب کی یہ صورتحال ہوچکی ہے کہ وہ اس ہتھیار سے بالکل خالی ہوچکا ہے۔ یعنی اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے پورا عالم عرب اب نہتا ہوچکا ہے یہی ’’عرب بہار‘‘ کا اصل مقصد تھا۔
پاکستان کے معاملے میں پلان تھا کہ جنرل مشرف اگر ’’لائن‘‘ کراس نہیں کرتے تو یہاں جمہوریت نافذ کرکے پاکستان کو معاشی طور کھوکھلا کرکے سوویت یونین کی طرح بکھیر دیا جائے اسی مقصد کے لیے این آر او ہو ا اسی کام کو انجام دینے کے لیے میثاق جمہوریت کرائی گئی اور پھر زرداری اور شریف خاندان کی شکل میں پاکستان کو اقتصادی دیوالیہ کے قریب کردیا گیا۔ اس موقع پر ملکی ادارے اور عدلیہ حرکت میں نہ آتی تو تباہی پھیلنے میں کوئی کسر باقی نہ تھی۔ اس لیے آنے والے وقت میں جس تیزی کے ساتھ دنیا کے حالات تبدیل ہورہے ہیں اس میں لیٹیروں اور ملک لوٹنے والوں کا احتساب جلد از جلد ہونا جانا چاہئے۔ وقت بہت ہی کم ہے۔
(ختم شد)