... loading ...
حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ کے سالانہ عرس کے موقع پر درگاہ کے سجادہ نشین شاہ محمود قریشی کے بھائی، سابق گورنر پنجاب مخدوم سجاد حسین قریشی کے صاحبزادے مرید حسین قریشی نے اپنے بھا ئی کو درگاہ کی بجائے ’’عمرانیات‘‘ کا سجادہ نشین قرار دے دیا ۔ درگاہ کے احاطے میں جب سجادہ نشین کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا تو تقریب کے شرکاء خصوصاً مریدین پر سکتہ طاری تھا ۔ شاہ محمود قریشی سمیت تما م شرکائے تقریب بڑے ضبط اور حوصلے کے ساتھ مخدوم زادہ کی گفتگو سُن رہے تھے ۔ مرید حسین قریشی کا اندازِ خطاب اپنے بھائی شاہ محمود سے کوئی زیادہ مختلف نہیں تھا ۔ وہ کہ رہے تھے کہ
میرے سینے میں دل رکھا میرے منہ میں زباں رکھ دی
جہاں رکھنے کی جو بھی چیز تھی قدرت نے وہاں رکھ دی
مخدوم مرید حسین قریشی کے تیور عرس کے آغاز سے قبل ہی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ بن رہے تھے ۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں ہیں ان کی پارٹی کو آصف علی زرداری نے کامیابی سے کوسوں دور کر دیا ہے ۔ رہی سہی کسر عمران خان نے نکال دی ہے ۔درگاہ حضرت غوث بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ کے عقیدت مند سندھ بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ دو ہفتے قبل شاہ محمود قریشی نے سندھ کا ایک تفصیلی دورہ کیا تھا جہاں ان کے مریدین نے ان کی خوب پذیرائی کی تھی ۔ پنجاب اور سندھ کے سنگھم پر واقع اوباڑو میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اپنے بھائی کی جانب سے اپنی ذات پر کیے جانے والے حملے کو آصف علی زرداری کے ذمہ لگا دیا ہے ۔
درگارہ حضرت بہاؤ االدین زکریا ؒ اور حضرت شاہ رکن عالم ؒ کی درگاہ کے ان مخدوم زادوں کے درمیان یہ چپقلش نئی نہیں ہے۔ سابق سجادہ نشین مخدوم سجاد حسین قریشی کے انتقال کے بعد ان دونوں بھائیوں کے درمیان تعلقات ایسے ہی رہے ہیں جیسے پاکستان تحریک انصاف میںشاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے معاملات ہیں ۔
ملتان میں مختلف درگاہوں کے سجادہ نشین سیاست میں بھی سرگرم عمل ہیں۔ ان سجادہ نشینوں کے درمیاں جہاں سیاسی رقابت کا سلسلہ موجود ہے وہاں ان میں سے اکثر خانگی اختلافات کا شکار بھی ہیں ۔ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی ملتان کی معروف درگاہ حضرت موسیٰ پاک ؒ کے سجادہ نشین ہیں ۔ ان کے بیٹے سید عبد القادر گیلانی کی شادی سندھ کے پیر پگاڑہ خاندان میں ہوئی ہے، ان کی سُسرالی گدی کی وجاہت کے اثرات ان کی شخصیت پر نمایاں ہیں، یہی وجہ ہے سید یوسف رضا گیلانی بھی اپنے ا س بیٹے کے سامنے کم ہی ’’ دم مارتے ‘‘ ہیں ۔سُنا ہے کہ اس مرتبہ عبد القادری گیلانی نے کہا ہے میں اپنے سابق حلقے ( سید یوسف رضا گیلانی کے حلقہ ) سے انتخابات میں حصہ لوں گا ۔ بڑے گیلانی صاحب جہاں سے چاہیں الیکشن لڑیں یہ حلقہ میرا ہے ۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ عبد القادر گیلانی اپنی مہم کا باقاعدہ آغاز بھی کر چُکے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ ملتان میں یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی کے درمیان سیاسی رقابت ہمیشہ سے موجود رہی ہے ،دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ وزارت عظمیٰ کے دور میں یوسف رضا گیلانی کی ملتان کی رہائش ہر وقت سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنی رہتی تھی ۔ ایسا منظر دیکھنے کی خواہش شاہ محمود قریشی کو بھی ہے ۔ پہلے پہل پارٹی میں ملتان سے جاوید ہاشمی سے ان کی رقابت رہی ۔ جاوید ہاشمی مکافات عمل کا شکار ہوئے تو سرد جنگ کے اس میدان میں جہانگیر خان ترین ایک مضبوط شہسوارکے طور پر موجود پائے گئے ۔ شاہ محمود قریشی کچھ سال پہلے اُس وقت گیلانیوں کے سیاسی قلعہ کی فتح کے نزدیک پہنچ گئے تھے جب انہوںنے یوسف رضا گیلانی کے دست راست اور جنوبی پنجاب میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے با اعتماد ساتھی ملک احمد حُسین ڈیہر کو تحریک انصاف میں شامل کر لیا تھا ۔ ملک احمد حُسین ڈیہر این اے151 کے سب سے زیادہ مضبوط اُمید وار قرار دیے جا رہے ہیں ۔ ملتان میں یہ شاہ محمود قریشی کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی ۔ یاد رہے کہ ملک احمد حسین ڈیہڑ کے حلقے میں2013 ء کے عام انتخابات میں موجودہ وفاقی وزیر زراعت سکندر بوسن نے عمران خان کو ٹکٹ واپس کرکے ان کی پارٹی کے لیئے مشکلات پیدا کردی تھیں۔ لیکن اب شاہ محمود قریشی نے ملک احمد حُسین ڈیہڑ کی صورت میں ایک مضبوط مدمقابل ڈھونڈلیا ہے ۔ مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر ملتان میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان معاملات ٹھہراؤ میں رہے اور ٹکٹوں کی تقسیم میرٹ اورتکنیکی معاملات کو مدِ نظر رکھ کر کی گئی تو ملتان ڈویژن میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کو کوئی نہیں روک سکتا ۔ تاہم اس وقت دنوں قائدین کے درمیان موجود ماحول برقرار رہا تو نتائج پی ٹی آئی کے لیئے تکلیف دہ بھی ہو سکتے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جنوبی پنجاب کے کامیاب جلسوں کے بعد صوفیاء کی دھرتی سندگ میں داخل ہو چُکے ہیں ۔ شاہ عبد الطیف بھٹائی ؒ اور لعل شہباز قلندر ؒ کی اس دھرتی میں صوفیاء اور بزرگان دین کا بہت احترام ہے یہ تقدس وادی سندھ کی تہذیب کا حصہ ہے ۔ اس کی وجہ سے یہاںکی سیاست ہمیشہ گدی نشینوں کی دسترس میں رہی ہے ماضی کی طرح آئندہ عام انتخابات میں بھی ان سجادہ نشینوں کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ سندھ اور ملتان کے سجادہ نشینوں کے ذکر نے لاہور کے قبرستان میانی صاحب میں آسودہ خاک شہید پاک طینت غازی علم دین شہید ؒکے خاندان کے ایک فرد کی باتیں یاد آ گئیں ہیں
’’کامران رشید لاہور کے اک گمنام شہری ہیں وہ غازعلم دین شہید ؒ کے بھائی محمد دین کے پوتے ہیں ان سے پوچھنے والوں نے پوچھا ’’ غازی علم دین ؒ کے لوگ کبھی سامنے نہیں آئے حالانکہ ملعون راجپال کا خاندان آج بھی ان نام کیش کروارہا ہے ۔ ؟ کامران رشید کا جواب تھا کہ ’’ غازی علم دین شہید ؒ کا خاندان آپ بھی ہیں اور میں بھی ہوں ، جو حُب رسول ﷺ رکھتا ہے وہ غازی علم دین شہید ؒ کا خاندان ہے ۔ہمیں غازی صاحب نے اپنی وصیت میں منع فرمایا تھا کہ آپ میری وجہ سے نہیں بلکہ اپنے اعمال کی وجہ سے بخشے جائیں گے ۔ کامران رشید کے بقول میرے دادا، میرے والد ، حتیٰ کہ میری پھوپھو صاحبہ بھی ابھی زندہ ہیں ۔میری پھوپھوصاحبہ ایک سال تک غازی علم دین شہید کی گود میں کھیلی ہیں ۔ ہم نے اپنے دادا سے یہ سنا تھا کہ ’’ غازی صاحب کی خواہش ہے کہ آپ میرے نام کو کبھی استعمال نہ کریں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہم نے آج تک کسی کو اپنی تصویر تک نہیں دی ۔ میرے دادا محمد دین ، میرے والد رشید احمد سمیت خاندان کے کسی فرد کی تصویر کبھی شائع نہیں ہوئی ۔ یہ غازی صاحب کا فلسفہ تھا ناموس رسالتﷺ پر اپنی جان قربان کردو یہ عظیم سعادت ہے ۔کامران رشید کے بقول غازی کے مزار کی دیکھ بھال وہ خود کرتے ہیں ۔ محکمہ اوقاف نے قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ہم نے عدالت کے ذریعے دفاع کیا کیونکہ غازی شہید کی وصیت کے مطابق ان کے مزار پر چندہ اکٹھا کرنے کی سختی سے ممانعت ہے ۔لوگ 31 ۔ اکتوبر کو ان کا عرس مناتے ہیں مگر ہم22 جمادی الثانی کو غازی صاحب کا یوم شہادت سمجھتے ہیں اور اُس روز مزار پر حاضری دیتے ہیںاور فاتحہ خوانی کرتے ہیں ‘‘۔غازی علم دین شہید ؒ کے خانوادے کی یہ باتیں دینی اور سیاسی سجادہ نشینوں سمیت ہم سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔