... loading ...
نوبل انعام یافتہ برطانوی ناول نگار رڈیارڈ کپلنگ Rudyard Kipling نے 1901ء میں اپنے مشہور زمانہ ناول ’’کم‘‘ ’’KIM‘‘میں افغانستان سمیت وسطی ایشیا میں برطانیا اور روسی زار شاہی کے درمیان کشمکش کوسب سے پہلے ’’گریٹ گیم‘‘ کی اصطلاح کا نام دیا تھا اس فکشن ناول میں بڑی طاقتوں کی رقابت اور سازشوں کو بیان کیا گیا تھا۔اس کے بعد ہی اس خطے میں ہونے والی بین الالقوامی کشمکش کو مورخین اور صحافیوں نے ’’گریٹ گیم‘‘ کے نام سے متعارف کرایا۔رڈیارڈ کپلنگ جو خود بمبئی میں ایک انگریز خاندان میں پیدا ہوا تھا اسے شاہد اس بات کا احساس نہیں تھا کہ وہ دنیا کو خطے کے معاملات کے حوالے سے ایک ایسی اصطلاح دے کر جارہا ہے جو یہاں سے برطانیا کے خروج کے بعد تک اپنی پوری معنوی قوت کے ساتھ عالمی ادب اور صحافت کا حصہ بنی رہے گی اوروہ برطانیا جو اس ــ’’گریٹ گیم‘‘ کا ایک بڑا فریق تصور ہوتا ہے آنے والی صدی میں اس جنگ کا جھنڈا امریکا کو تھماکر خود اس کے پہلو میں کھڑا ہوگا۔
گذشتہ سترہ اکتوبر کو جس وقت عمان میں ایک بے نتیجہ چار فریقی اجلاس منعقد اختتام کو پہنچا تھا تو اس کے ایک روز بعد ہی افغانستان کے صوبے پاکتیا کے مرکز گردیز میں ایک بڑا حملہ ہوتا ہے جس میں خبروں کے مطابق 71سے زائد افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیںاور دوسو کے قریب افراد زخمی ہوتے ہیں ن میں بڑی تعداد افغان فوجیوں کی تھی۔ اس سے ایک روز بعد صوبہ کندھار کے ضلع میوند کے ایک فوجی اڈے پر افغان طالبان کا حملہ ہوتا ہے جس میں پچاس کے قریب افغان فوجی مارے جاتے ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد تاحال لاپتہ ہے۔ اس قسم کے تباہ کن حالات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے یہ سب کچھ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب امریکی وزیر خارجہ خطے کے اہم دورے پر ہیں۔ان تمام حالات کے باوجود اس بات کو ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ امریکا افغانستان سے فی الحال نکلنے میں سنجیدہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان کے حالات میں بہتری آئے کیونکہ اس طرح شکست کے تاثر کے ساتھ افغانستان سے نکلنا امریکا کے مشرق وسطی میں مقاصد کو زک پہنچا سکتا ہے اور اس کے علاوہ افغان معدنیات کے حصول کے لیے عالمی سامراجی مالیاتی مافیا نے جس قسم کی بھاری سرمایہ کاری کررکھی ہے اس کے مکمل طور پر ڈوب جانے کا خدشات اب پہلے سے زیادہ ہوچکے ہیں۔
بنیادی طور پر امریکا کی افغان پالیسی مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے اسی لیے وہ اب پاکستان کو مسلسل دھمکا رہا ہے کہ پاکستان اپنی افغان پالیسی سے پیچھے ہٹے یا اسے امریکی پالیسی کے تابع کرے یہ ایک گھنائونی سازش ہے جس کے ذریعے پاکستان کے اندر مزید بے چینی پیدا کرنے کا منصوبہ کارفرما ہے۔ اس لیے ریاست پاکستان کے ذمہ دار اداروں کو امریکی اسٹیبلشمنٹ سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ شام اور عراق میں پسپا ہوتی داعش کہاں چلی گئی؟ کہیں انہیں امریکی ہیلی کاپٹروں پر بیٹھاکر جنوبی افغانستان میں تو نہیں اتار دیا گیا؟ آکر کس بنیاد پر حامد کرزئی نے امریکا پر ایک الزام عائد کیا تھا کہ داعش کے لیے امریکی ہیلی کاپٹر استعمال میں لائے جارہے ہیں اور امریکی اڈوں سے انہیں اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے۔۔۔!! یہ سوالات اپنی جگہ بہت اہم ہیںکیونکہ شمالی عراق سے پسپا ہونے کے بعد داعش کا بڑا حصہ شمالی شام منتقل ہوگیا تھا اس کے بعد اب جبکہ رقہ میں بھی داعش پسپا ہوگئی ہے تو اس کے ہزاروں جنگجو کہاں گئے؟ نہ ان کی لاشیں ملی ہیں اور نہ ہی انہیں عراقی یا شامی سرکاری فوج اور ایران نواز ملیشیائوں نے قیدی بنایا ہے پھر انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔
بنیادی طور پر جس وقت شمالی عراق سے داعش ایک طوفان کی طرح اٹھی اور بھاگتی ہوئی عراقی فوج کا پیچھا کرتے ہوئے بغداد سے چند کلومیٹر دور آکر رکھی تو بہت سے عرب ذرائع کے کان اسی وقت کھڑے ہوگئے تھے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ جس وقت عراق پر امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کا مکمل قبضہ تھا اس دوران عراق میں سنی مسلمانوں کی جانب سے ایک مزاحمتی تحریک نے سر اٹھایا جس میں القاعدہ سے متاثر ہزاروں جوان بھی شریک تھے انہوں نے کامیابی کے ساتھ امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادیوں کو ناک میں دم کردیا اور ہر طرف امریکا اور اس کے اتحادی فوجیوں کو تباہی کا منہ دیکھنا پڑا۔اس بات سے بہت کم صحافتی ذرائع آگاہ ہیں کہ اس دوران موصل سمیت شمالی عراق کے بڑے حصے پر اسرائیلی فوجی اور اسرائیلی انٹیلی جنس موساد کے ارکان عام لباس پھیلا دیئے گئے تھے انہوں نے سب سے پہلے وہاں یورپی اور امریکی یہودیوں کے نام پر بڑے بڑے زمینی رقبے خریدے تھے یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا تھا جب بغداد کا ’’گرین زون‘‘ جہاں امریکا انتظامیہ اور عسکری ماہرین کے ٹھکانے تھے بھی عراقی مجاہدین کے بموں سے گونجنا شروع ہوگئے تھے۔ اس صورتحال کے غبار میں کسی کو اس بات کی جانب توجہ دینے کی فرست نہیں تھی کہ شمالی عراق میں اسرائیلی خفیہ ادارے کیا کھچڑی پکا رہے ہیں۔اس بات کی جانب سب سے پہلے کویت کے صحافتی ذرائع نے اشارہ کیا کہ شمالی عراق میں یہودیوں نے بڑے بڑے رقبے خرید لیے ہیںاس کے بعد دیگر عرب صحافتی ذرائع بھی اس جانب توجہ دینے لگے لیکن جلد ہی عالم عرب کے ’’روشن خیال اور سیکولر‘‘ میڈیا کو بروے کار لاکر ان خبروں کو دبا دیا گیا ۔
اس کے بعد داعش کو شمال کی جانب سے جنوب کی جانب لایا گیا جس نے عراق کی ایران نواز حکومت کے ساتھ ساتھ وسطی عراق میں سنی جہادی تنظیموں پر بھی حملے شروع کردیئے جس کی وجہ سے طاقت کا توازن خطے میں ایک مرتبہ پھر امریکا کے حمایت یافتہ عناصر کی جانب ہوگیا۔ اس کے بعد امریکا نواز عراق کی فوج نے داعش کے نام پر سنی اکثریتی علاقوں کو نشانے پر لے لیا اور بربریت کا ایک بازار گرم کردیا گیا۔ اب ایک طرف داعش کی جانب سے ہولناک مظالم اور اجتماعی قتل عام کی تصویریں اور ویڈیوز دنیا کو دکھاکر اسے خوف میں مبتلا کیا جارہا تھا تو دوسری جانبایران نواز شیعہ ملیشیائوں کو کھلی چھٹی دی گئی کہ وہ داعش کے نام پر سنی اکثریتی علاقوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں جبکہ دونوں جانب اصل نقصان معصوم شیعہ اور سنی عوام کا ہورہا تھا ۔ اس صورتحال کی بدولت امریکا اور اسرائیل خطے میں فرقہ وارانہ جنگ کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ابتداء چونکہ مشرق وسطی کے نقشے کو تبدیل کرنے سے کرنی تھی اس لیے داعش کے ذریعے عراق اور شام کی سرحدوں کو ختم کرانے کا اعلان کیا گیا اور اسے ’’خلافت اسلامیہ عراق اور شام‘‘ کا نام دے دیا گیا۔شام میں آکر داعش نے عراق والا کھیل دوبارہ شروع کیا یہاں اس نے شمالی جدید ترین مغربی اسلحے اور طوفانی پیش قدمی سے شمالی عراق پر مکمل طور پر قدم جما لیے اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ بشار الاسد کی حکومت چند دنوں کی مہمان ہے لیکن جس طرح داعش نے بغداد کے قریب اپنے قدم روکے تھے اسی طرح دمشق کے قریب آکر اس نے اپنی توپوں کا رخ ان تنظیموں کی جانب کردیاجو بشار الاسد کے خلاف نبرد آزماء تھیں جبکہ مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کے لیے نعرہ یہ لگایا جارہا تھا کہ داعش مقبوضہ فلسطین کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرائے گی۔ اس نعرے کی وجہ سے یورپ اور دیگر ملکوں سے ہزاروں مسلمان نوجوان ہجرت کرکے شام کی طرف بھاگنے لگے ۔ لیکن بعد میں انہیں آپس کی جنگوں میں الجھا دیا گیا۔ دو یا تین برس تک خطے میں اس جنگ کی شکل میں امریکا خونی کھیل کھیلتا رہا یہیں سے جنگجوں کو اٹھاکر لیبیا منتقل کیا گیا جنہوں نے تمام ملک کو نیٹو کی مدد سے کھنڈر بنا دیا۔ اس صورتحال کو دیکھ کر روس نے شام میں مسلح مداخلت کردی جس نے امریکا اور اسرائیل کے کھیل کو کسی حد تک مزید بڑھنے سے روک دیا۔ اس کے بعد ہی بغداد اور دمشق مخالف تنظیموں کی کمر توڑنے کے بعد امریکا نے بھی داعش کے خلاف اعلان جنگ کردیا اور داعش کے نام پر شامی شہریوں کو نشانہ بنایا جانے لگا ۔اب روسی، امریکا طیارے اور بشار الاسد کی بچی کچی فوج شامی مسلمانوں کو تختہ مشق بنائے ہوئی ہیں جبکہ خطے میں اب داعش کے جنگجوئوں کا دور دور تک پتا نہیں ملتا۔ رقہ کا علاقہ آزاد کرانے کے بعد داعش کے بچے کچے ارکان وہاں سے بسوںمیں بیٹھ کر نکلے ہیںلیکن کہاں گئے کسی کو علم نہیں۔ اپنے جاسوس مصنوعی سیاروں اور ڈرون طیاروں کے ذریعے زمین کے چپے چپے پر نظر رکھنے کے دعویدار امریکا کو بھی نہیں معلوم کہ داعش جنگجو کہاں چلے گئے۔ اس حوالے سے اسلامی نظریات کے حامل بعض عرب صحافتی ذرائع پہلے بھی اشارے دے رہے تھے کہ داعش کے ان ارکان کی بڑی تعداد افغانستان منتقل کی جارہی ہے۔لیکن کیسے اس بات کا ادراک کسی کو نہ تھا کیونکہ اگر زمینی طور پر داعش کے ارکان افغانستان تک رسائی چاہتے تو انہیں براستہ شمالی عراق ایران سے گذرنا پڑتا اس کے بعد ہی وہ ہرات کے راستے افغانستان پہنچ سکتے تھے یا پھر ایران کے راستے پہلے ترکمانستان اور اس کے بعد شمالی افغانستان کی جانب سے جنوبی افغانستان پہنچتے جہاں ان کی اس وقت موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ حامد کرزی کے اس بیان کے بعد یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ امریکا خود شمالی عراق اور شام سے داعش کے جنگجو سمیٹ کر افغانستان لا رہا ہے۔ تاکہ اسے پاکستان کی سرحد کے قریب دہشت گرد کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جائے ۔
جس وقت عراق اور شام میں داعش کا خوب چرچا تھا اس وقت بھی بعد عرب صحافتی ذرائع کا دعوی تھا کہ داعش میں اسرائیلی دہشت گرد بھی شامل ہیں جن کے لیے شہروں پر استعمال کرنے والے لمبی داڑیوں سے مزین خصوصی ماسک بنائے جاتے ہیں۔ جن افراد نے انگریزی فلم ’’مشن امپوسیبل‘‘دیکھی ہے تو وہ انسانی کھال کی طرح لچکدار ماسک کی تیاری سے آگاہ ہوں گے اسی قسم کے ماسک اسرائیل کی لیبارٹریوں میں بڑی تعداد میں تیار کرکے اپنے ایجنٹوں کو پہنائے گئے ۔ اس حوالے سے ایک خبر بھی شامی جنگجو تنظیم جبھتہ النصرۃ کے حوالے سے آئی تھی جس نے ایک معرکے کے دوران داعش کے دو ارکان کو گرفتار کرلیا تھا اس میں سے ایک رکن نے ایسا ہی ماسک چڑھایا ہوا تھا جب اس کے منہ سے یہ ماسک ہٹایا گیا تو وہ نیلی آنکھوں والا اور کلین شیو جارجیاکا یہودی تھا۔
اس ایک مثال سے امریکا اور اسرائیل کی ہلاکت خیزی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس قسم کے شعبدے گھڑکر اس وقت مسلم دنیا کو نقصان پہنچایا جارہا ہے اس سارے ڈرامے کا اصل مقصد یہ ہے کہ دنیا کے سامنے مسلمانوں کو خوفناک چہرہ لاکر عالمی رائے عامہ کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ اسرائیل جن عرب مسلمان ملکوں کے درمیان گھیرا ہوا ہے وہ اس قسم کے خون آشام ہیں اس لیے اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق ہے کہ وہ ان عناصر کو کچلنے کے لیے تمام مشرق وسطی پر چڑھ دوڑے۔ یہ درحقیقت اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت اسرائیل کی عالمی سیادت کے لیے راہ ہموار کرنا اور مشرق وسطی کا جغرافیہ تبدیل کرنا ہے۔
اب یہی پرانا کھیل نئے انداز میں امریکا افغانستان میں پاکستان کے خلاف شروع کروانا چاہتا ہے تاکہ خطے میں اسلام آباد، ماسکو اور بیجنگ کا مضبوط معاشی اور عسکری بلاک تشکیل نہ پاسکے یہی وجہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے گزشتہ دنوں ہی واشنگٹن میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کیساتھ امریکی قریبی تعلقات کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اس خطہ میں چین کے ’’غیر ضروری‘‘ اثرورسوخ کوروکنے کے لیے بھارت امریکا کا قریب ترین حلیف ہو گا۔ امریکی اہلکاروں کی باتوں سے اندازہ لگانے سے قبل گزشتہ عرصہ میں ہونیوالے دہشت گردی کے تیزی سے واقعات کے پس پردہ محرکات جاننے کی ضرورت ہے۔