... loading ...
انسانی وحیوانی ملاوٹ شدہ کم پوٹینسی والی دوائیوں اور جعلی ادویات تیار کرنے میں شاید پاکستان اول نمبر پر آچکا ہے کہ جوں جوں حرام خور دنیا کے پلید ترین اور غیرا سلامی نظام سود نے معیشت کو شکنجے میں لے لیا ہے کاروباری حضرات نے بھی سودی منافع بینکوں کو واپس لٹانے کے لیے غلیظ ترین ملاوٹ کا نظام اپنا یا ہے کہ اس کے بغیر وہ کاروبار نہیں کرسکتے کہ کروڑوں جو بینکوں سے کم ازکم 13تا18فیصد سود پر لے رکھے ہیںاگر وہ بروقت ادا نہ کیے جائیں تو پھر مرکب سود یعنی سود در سود کا ایسا جھٹکا لگتا ہے کہ نانی اماں یاد آنے لگتی ہے اور ایسے افراد کی ساری حاصل کردہ رقوم سے دوگنا تگناپیسہ ادا کرکے بھی اس پھٹکار پڑے سود سے جان نہیں چھوٹتی اگر اس نظام میں سود پر رقوم حاصل کرنے والوں کا کوئی مفاد ہوتا تو پھر پاکستان میں سینکڑوں بنک نہ چل رہے ہوتے ۔آکاس بیل کی طرح بنک مزید بڑھتے چلے جارہے ہیں تقریباً تمام زمینداروں اور کاروباری حضرات کی تمام زمینیں اور مکانات ،ملیںدوکانیں وغیرہ بینکوں کے پاس رہن رکھی جاچکی ہیں مگر پھر بھی بنکنگ کا نظام خدا اور اس کے رسولﷺ کے ناپسندیدہ نظام سود پر کاروبار کرتے ہوئے دیوالیہ اور ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے،
اگر ان بینکوں کو نیشنل بنک امدادی رقوم ادا نہ کرے تو یہ سبھی بند ہوجائیں ناجائز کاروباری حضرات تو اب بے زبان جانوروں کی ادنیٰ خوراک کھل بنولہ میں بھی لکڑی کا برادہ چونا پھک اور گلی سڑی کپاس شامل کرکے اسے اصل روپ دے کر فروخت کر رہے ہیں ۔جس پر حکومت اشتہارات بھی اخباروں و ٹی وی چینلوں کی زینت بنارہی ہے ،مگر ان کی پکڑ دھکڑ کا احسن انتظام ان کے بس کا روگ نہیں کہ سبھی جعلی یا دو نمبر کاروباری حضرات یا تو حکومتی چرنوں میں گھسے بیٹھے ہیں یا کسی ممبرا سمبلی یا وزیر کے قریبی رشتہ دار یا دوست احباب میں سے ہیں اس لیے یہ سب جعلی فراڈی دو نمبر یا ملاوٹ شدہ اشیاء دھڑلے سے بن کر کھلی مارکیٹ اور بازاروں میں بک رہی ہیں کسی نے خوب کہا تھا کہ چور چوری کر ہی نہیں سکتا اور ڈاکو واردات بھی نہیں کرسکتا جب تک اس میں متعلقہ تھانیدار کا حصہ نہ ہو یہ سبھی نحوست بھرے غلیظ ترین کاروبار کرنے والے باقاعدہ منتھلی (ہر ماہ )رقوم تھانوں میں جمع کرواتے ہیں اور ان کا باقاعدہ حساب کتاب رکھا جاتا ہے اور ان حرام کی کمائیوںکا حصہ بقدر جثہ اوپر تک یعنی تمام سطحوںکے آفیسرز تک باقاعدگی سے پہنچتا رہتا ہے ۔
یہ بالکل اسی طرح کہ بھٹو صاحب نے روٹی کپڑا مکان اور بے زمین کسانوں کو 12ایکڑ فی کس دینے کاا علان کیا ۔مگر چونکہ اسمبلی میں 85فیصد سے زائد جاگیردار اور وڈیرے ہی منتخب ہوکر آن پہنچے اس لیے ان کی انگریزوں کی طرف سے عطا کردہ زمینیں کوئی مائی کا لعل کیسے غریب کاشتکاروں اور وراثتی مزارعین کو تقسیم کرسکتا تھا؟ جب وزیر اعلیٰ پنجاب ملتان کا نواب صادق قریشی اور گورنر بہاول پور کے والی کے بیٹا عباسی ہو نیز سندھ میں تالپور اور ممتاز بھٹو اہم عہدوں پر فائز تھے تو بھٹو صاحب کتنا ہی سر پیٹ لیتے ان کی زمینوں کو تقسیم کرنے کی کوششیںکامیاب نہ ہوسکیںبعد ازاں حکمرانوں نے جاگیرداری نظام کے خاتمہ کی کوششیں کی تو شاہ محمود قریشی اور ترین صاحب نے سپریم کورٹ سے اسٹے آرڈر کروالیا جو آج تک جاری ہے کسی بھی پارٹی کا تمندار یا لیڈر اپنی ناجائز طریق پر بنائی گئی جائدادیں یا زمینیں کبھی بھی نوکروں غریبوں اور مزدوروں کو تقسیم کرنے پر کیسے آمادہ ہوسکتے ہیں ؟وہ تو سیاست ہی مال لگائو اور پھر سینکڑوں گنا کمائوکے فارمولے پر کررہے ہیں۔
اب چونکہ کرپشن زدہ ملاوٹ مافیاکی حکومتی سرپرستیوں کی وجہ سے بنیادیں انتہائی گہری ہوچکی ہیں اس لیے انہیں آہنی ہاتھوں سے نمٹے بغیر کوئی چارہ نہیں بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سبزیوں کو چمکانے کے لیے کیمیکل سے دھویا جاتا ہے ،کیچپ ٹماٹر کے بغیر ہی”قابل افراد” بنا رہے ہیں مردہ جانوروں کی انتڑیوں الائشوں سے کوکنگ آئل تیار کرنے والوں ،غلیظ ترین اجزاء کے مکسچر سے دودھ تیار کرنے والوں جعلی مشروبات کوک پیپسی ملاوٹ شدہ سرخ مرچیں اور دیگر مصالحہ جات تیار کرنے والوں کو کس طرح تختہ دار پر کھینچنے سے کم سزا دی جاسکتی ہے؟ایسے افراد انسانیت کے ناسور اور قاتل ہیں ان سے رعایت کرنے والوں کو بھی چوکوں پر کوڑے لگوانے چاہیں ادویات میں دوائیوں کے مکسچر تیار کرتے وقت سالٹ کی پوٹینسی کم ہونے کی وجہ سے وہ دوائیاںکام ہی نہیں کرتیں بلکہ انسانوں اور حیوانوں تک کو مزید جان لیوا بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہیں جس سے لوگ کم عمری میں ہی دیر یا بدیر لقمہ اجل بن رہے ہیں آخر ان کے قتل پر کسی کو تو پھانسی پر لٹکنا چاہیے ۔
صد ر ممنون حسین نے توبنوں یونیورسٹی میں طلباء سے خطاب کے دوران کہہ ڈالا کہ چار سال میں ڈیم بنے نہ ہسپتال، لوگ ان سے پوچھیں کہ 14800ارب کا قرضہ کہاں گیا کرپشن نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے جو اس وقت بہت بڑا مسئلہ ہے اس ناسور کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا مزید فرمایا جھٹ فریب مکر اور مداری سیاست نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے حکمرانوں نے ملاوٹ مافیا اور 2نمبر مال تیار کرکے فروخت کرنیوالوں کے خلاف کاروائیاں کرنے کے لیے انسداد ملاوٹ کے ادارے بنارکھے ہیں اور وہ دکھاوے کے لیے چھاپے بھی مارتے ہیں اور ان کے اس عمل کی بڑی بڑی خبریں اخبارات و ٹی وی کی زینت بنتی ہیں مگر ان کا حال بھی رشوت کو روکنے والے محکمہ انسداد رشوت ستانی والا بن گیا ہے کہ رشوت لو اگر پکڑے جائو تو انسداد والوں سے حصہ بٹائو اور چھوٹ کر پھر اسی رشوت ستانی کے کام میں جت جائو۔نیب پر انحصار کیا گیا مگراربوں لوٹنے والے فراڈیوں سے کروڑوں جمع کرکے انہیں چھوڑ ڈالا یہ بھلا کہاں انصاف ہوا؟ بچوں کے اسکولوں کے ارد گردکھڑے ریڑھی بان معصوم اور بے سمجھ بچوں کے چپس بسکٹ پاپڑ شربت وغیرہ جعلی بیچ رہے ہیں اس طرح لاغر بیمار کمزور نواجون نسل مستقبل میں کیا کارنامہ انجام دے سکے گی؟گٹکا تک بچوں کے پیٹوں میں پہنچ رہا ہے کوئی حکمران یا بیورو کریٹ پرسان حال نہ ہے کہ لین دین کے ذریعے ہی سارا غلیظ کاروبار جاری رہتا ہے۔
دوسری طرف اشیائے ضروریہ و خوردنی اشیاء پھلوں سبزیوں گوشت وغیرہ کی قیمتیں امسال تین سو گنا تک بڑھ چکی ہیںخلق خدا کے چولھے بجھ رہے ہیں کسی کو مکمل غذا دستیاب نہیں۔2نمبر مال بھی انہی میں گھسا ہوا ہے جس کا مکمل قلع قمع کرنا اشد ضروری ہے۔