... loading ...
روزنامہ رائزنگ کشمیر اور بلند کشمیر(سری نگر) کی تفصیلات کے مطابق 23اکتوبر 2017ء کو بھاجپا کی قیادت والی مرکزی سرکار نے ساڑھے تین سال کے بعدجامع مذاکراتی عمل شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مرکزی سراغرساں ادارے انٹیلی جنس بیورو (آئی، بی) کے سابق سربراہ دنیشور شرما کو باضابطہ طور مذاکرات کار مقرر کیا ہے۔یہ مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد بھاجپا کی قیادت والی این ڈی اے سرکار کی طرف سے کشمیر میں بات چیت کا عمل شروع کرنے کے حوالے سے پہلی کوشش ہے۔2002کے بعد دنیشور شرما مرکز کی جانب سے اب تک کے چوتھے نامزد مذاکرات کار ہیں۔سب سے پہلے کے سی پنتھ کو نامزد کیا گیا تھاپھر موجودہ ریاستی گورنر این این ووہرا اورتیسرے مذاکرات کارسابق نائب صدر ایم ایم انصاری اور دلیپ پڈگائونکر تھے۔ سال2010ء کی تحریک کے بعد کانگریس کی سربراہی والی یو پی اے سرکار نے جموں کشمیر میں زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کے ساتھ بات چیت کیلیے دلیپ پڈگائونکر کی سربراہی میں تین مذاکرات کاروں کی تقرری عمل میں لائی تھی۔انہوں نے ریاست کے درجنوں دورے کیے اور اپنی ایک مفصل رپورٹ مرکزی وزارت داخلہ کو پیش کی لیکن اس رپورٹ کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔
مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے دنیشورشرما کی تقرری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دنیشور شرما علیحدگی پسندوں سمیت کسی سے بھی ملنے کا اختیار رکھتے ہیں اور وہ تمام متعلقین کے ساتھ بات چیت کے دوران ریاستی عوام کی’’جائز خواہشات‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ ادھرمرکز کے نامزد مذاکرات کار دنیشور شرما نے کہا ہے کہ کشمیر جانا ان کے لیے جیسے گھر واپسی ہے۔انہوں نے میڈیا سے پہلی بار بات کرتے ہوئے کہا’’ یہ بہت بڑی ذمے داری ہے، میں کوشش کروں گا کہ اعتماد پر پورا اتروں’’ کشمیر میں امن قائم کرنا ہی بہت بڑا کام ہے‘‘۔شرما نے مزید کہا’’ میں آئندہ آٹھ یا دس دنوں میں سری نگر پہنچ جاؤں گا۔
دنیشور شرما1976بیچ کے کیرلا کیڈر سے وابستہ آئی پی ایس آفیسر ہے جو قریب دو دہائیوں تک مرکزی سراغرساں ادارے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کیساتھ وابستہ رہے۔ وہ1991میں آئی بی کے ساتھ منسلک ہوئے اور اس دوران انہوں نے کشمیر کے علاوہ شمال مشرقی ریاستوں علاوہ یو،پی میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔انہوں نے نوے کی دہائی میں رضاکارانہ طور وادی کشمیر میں کام کرنے کی خواہش ظاہر کی اور 1999کی کارگل جنگ کے بعد تشکیل دیے گئے انٹیلی جنس کے مشترکہ ٹاسک فورس کے سربراہ بن گئے۔ دنیشور شرما یکم جنوری2014ء کو آئی بی چیف بننے سے قبل ادارے میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے اور 31دسمبر 2016ء کو ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ انہیں دہشت گردی اور اندرونی سلامتی سے جڑے معاملات کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔
کانگریسی لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر غلام نبی آزادنے اس پر شکوک شبہات کا اظہار کیا اور حریت کانفرنس نے پاکستان کے بغیر مذاکرات میں شمولیت کو وقت گزاری سے تعبیر کیا ۔ایک اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے مذاکرات کے بجائے 2010ء میں مذاکرات کاروں کی پیش کردہ سفارشات کو عملانے کی حمایت کی ۔گویا ابھی اعلان ہی کیا ہوا کہ ہر طرف سے مخالفت کا آغاز ہو چکا ہے آخر کیوں؟ اس کے لیے ہمیں دلی کی جانب سے تخلیق کردہ مذاکرات کاری کو پوری تفصیل سے دیکھنے کی ضرورت ہے جس کا احاطہ ایک مختصر مضمون میں ممکن نہیں ۔1947ء کے بجائے اگر ہم سیدھے 1990ء سے ہی دیکھ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ بھارت کشمیریوں سے’’ مسئلہ کشمیر‘‘کے حل کے لیے مذاکرات کرنے کو ہر گز تیار نہیں ہے بلکہ وہ جب بھی مذاکرات کی حامی برتا ہے تو اس کی تفصیل بیان کرتے ہو ئے ستر برس پرانا راگ نئے الفاظ کے ساتھ الاپنا شروع کرتا ہے کہ ہم ہر اس فرد اور تنظیم سے مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں جو ’’کشمیر میں امن کا خواہش مند ‘‘ہو ،سوال پیدا ہوتا ہے کہ کشمیری نوجوانوں نے بندوق قیام امن کے لیے اٹھائی ہے اور کیا حریت کانفرنس کے پلیٹ فارم پر سیاسی جدوجہد کا مقصد قیامِ امن ہے ؟ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسائل کاآخری حل میز پر تلاش کیا جاتا ہے ۔
آج ہی نہیں بلکہ سیاسی دنیا کی ہمیشہ سے ہی یہی روایت رہی ہے کہ آج نہیں تو کل فریقین کو میز پر آکر مذاکراتی مرحلے سے گزرکرمسائل کو سننے اور پھر ان کے حل کے تلاش میں جٹ جا نا پڑتا ہے ۔کشمیر کے سیا ستدانوں میں ایک بھی ایسا شخص مو جود نہیں ہے جو مذاکرات کا قائل نہ ہو ۔سید علی شاہ گیلانی جیسے بزرگ سیاستدان بھی ’’جنہیں بھارتی میڈیا انتہائی شدت پسند شخص کے روپ میں پیش کر نے میں کوئی بھی لمحہ بھولتی چوکتی نہیں ہے‘‘ مذاکراتی عمل کے منکر نہیں ہیں اور تو اور عسکری میدان کے بڑے بڑے شہسوارگلبدین حکمت یار،خالد مشعل اور سید صلاح الدین احمد بھی مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کے خواہاں ہیں ۔حماس اور طالبان کا ایک بھی ا سٹیٹمنٹ آن ریکارڈ موجود نہیں ہے ،جس یہ پتہ چلے کہ انھوں نے اپنے دشمن نمبر ایک امریکا اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کر نے کو گناہ قرار دیا ہو ۔گو یہ بات متفق علیہ ہے کہ عالم اسلام میں کوئی ایک بھی شخص مذاکراتی عمل کا مخالف نہیں ہے ۔
مسئلہ کشمیر اور قیام امن دو الگ الگ چیزیں ہیں بھارتی قیادت جب sky is the limitکہہ رہی ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے آسمانوں کوچھوتے ہوئے کشمیریوں کے لیے سب کچھ کر گذرنے والے ہیں۔ یہ لفاظی کے پردے میں ایک مظلوم ملت کے لیے غلامانہ موت کا پیغام ہوتا ہے اور ہماری سادگی یہ کہ ہم سمجھتے ہیں یا سمجھائے جاتے ہیں کہ ’’دلی والے تیار ہیں کچھ نہیں تو سیلف رول یا اندرونی خود مختاری کے بعد آزادی دیں گے ان کے لیے مشکل یہ ہے کہ کئی ریاستوں میں لوگ آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اگر یہاں پہلے ہی مرحلے میںآزادی دی گئی توبھارت میں ایک خطرناک اور تباہ کن زلزلہ آجائے گااور شاید وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے ۔لہذاکیوں نہ اول مرحلے میں کچھ بھی قبول کر کے آزادی کی راہ ہموار کی جائے۔
قیام امن کا مطلب کیا ہے ؟ کشمیر میں بندوقوں کی گھڑگھڑاہٹ ،آزادی کے فلک شگاف نعروںاور ہڑتالوں کے بجائے موت کی خاموشی جس میں اسلام اور آزادی کے بجائے سب کچھ ہو جب کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کشمیر میں آزادی کے مسئلے پر بات چیت کے لیے ناگزیر امن ۔حقیقت یہ ہے کہ بھارتی قیادت کے وہم و گمان میں بھی امن کا دوسرا مفہوم نہیں ہے ۔دلی والوں کی ساری توجہ اور دوڑ دھوپ صرف کشمیر میں اس امن کے لیے ہے جو یہاں 1990ء سے قبل تھا ۔جس امن کے نتیجے میں’’ اندرا عبداللہ ایکارڈ ‘‘وجود میں آیا ،جس امن کی ’’برکت‘‘سے شیخ خاندان اور مفتی خاندان کشمیریوں کے سروں پر سوار رہوئے اور اب تک ہیں۔جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے اس کے حل سے ہی بھارت کا مسلسل فرار اس کی اصل کامیابی ہے ۔اب جہاں تک آج کی تازہ ترین پیشکش کا تعلق ہے وہ یہاں کی آزادی پسند قیادت کومسئلہ کے حل میں مدد مانگنے کے بجائے ایک طرح سے مشغول رکھنے کے خاطر ہی سارا کھیل کھیلتا ہے اور اسکا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح انکی توجہ جدوجہد سے ہٹکر بات چیت میں ختم ہوجائے ۔اگر بھارت مسئلہ کشمیر کے حل میں یقین رکھتا ہے تو اس سے چاہئے کہ وہ پہلے اس کے لیے زمینی صورتحال میں تبدیلی لائے یہاں اب بھی نوجوانوں کو فوجی کیمپوںاور تھانوں پر بلا کر پریشان کیاجاتا ہے ۔گرفتاریاں ،پولیس اور فوج کی حراست میں تشدد اور ہزاروں لوگوں کو جیلوں میں بند رکھ کر ان کے حوصلہ توڑنے کی کوششوں کے علاوہ آزادی پسند سیاستدانوں کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی اس بات کی دلیل ہے کہ دلی والے مسئلہ کے حل کے حوالے سے ابھی سنجیدہ نہیں ہیں ۔مسئلہ کشمیر کے زبانی ورد سے یہ مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہو گا اور نہ ہی اس سے اسکے پس منظر سے ہٹا کر بھول بھلیوں میں گم کرنے کی کوششوں سے ہی یہ کسی طرح اپنی موت آپ مر ے گا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس سے ایک حل طلب مسئلہ قبول کیا جائے ۔
2نومبر2010کے ایک مضمون میں میں نے ’’مذاکرات کاری یا وقت گذاری‘‘کے عنوان کے تحت عرض کیا تھا کہ’’ بھارت کی مرکزی سرکار نے کشمیر میں برپا ’’انقلاب برائے حصولِ آزادی‘‘کی شدت اور تسلسل کے پس منظر میں نامور افرادکے سہ رکنی گروپ کو یہاں کے عام و خاص کے ساتھ بالعموم اور طلبأ وخواتین کے ساتھ بالخصوص بات چیت کرنے کے لیے بھیجا ۔ان کے آمد سے پہلے ہی حریت کانفرنسوںنے ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی بات چیت کے ساتھ یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ ضیاع وقت ہے اور کچھ بھی نہیں ،نتیجے کے طور پر یہ مذاکرات کار حریت کانفرنسوں یاکسی نامور آزادی پسند سے ملنے میں ناکام رہے ۔اس کے باوجود وہ مذاکرات کار یہاں کے کئی لوگوں سے ملے جن میں کئی جیلوں میں بند عسکریت پسند،طلبا ،خواتین اور زیادہ تر یہاں کی مین اسٹریم کے لوگ شامل ہیں مگر جن سے مذاکرات کرنے کی خواہش لے کر وہ لوگ آئے تھے انھیں ان سے ملے بغیر ہی واپس جانا پڑا ۔ حریت کے دونوں دھڑوں کی دلیل یہ تھی کہ یہ لوگ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں مذاکرات کرنے نہیں آئے ہیں بلکہ کشمیر کے حالات سے واقفیت اور کشمیر کی موجودہ صورتحال کے مطالعہ کے لیے آئے ہیں ۔
پہلے بھی بھارت نے کشمیریوں کی لیڈرشپ کے ساتھ مذاکرات کے لیے کئی وفود بھیجے وہ آئے اور چلے گئے مگر مسئلہ کشمیر اپنی جگہ برقرار رہا ۔نہ ہی مسئلہ حل ہوا اور نہ ہی بھارت نے اسے مسئلہ مانا ،بھارت آج بھی ایک لاکھ جنازے اُٹھنے کے باوجود کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے ۔ضد اور ہٹ دھرمی کا عالم یہ ہے کہ بھارت کشمیر کے الحاق کے برعکس انضمام پر مصر ہے حالانکہ دنیا جانتی ہے اولاََ الحاق ہی نہیں ہوا ہے اور اگر ہوا بھی ہے تو ایک ایسے شخص کے ذریعے جس کو کشمیریوں کا منڈیٹ کبھی بھی حاصل نہیں تھا وہ ایک تاجر تھا جس نے انگریزوں کے ساتھ ملکر ایک ظالمانہ سودا کے نتیجے میں کشمیری قوم کو سکھوں سے چند نانک شاہی سکوں کے عوض خریدا تھا ۔بھارت کی موجودہ سرکار کشمیر کی آزادی پر مذاکرات تو درکنار دفعہ 370اور35Aکے خاتمے کے لیے سازشوں میں مصروف ہے ۔جو لیڈرشپ مسئلہ کشمیر کو لیکر میدان میں عوامی سپورٹ کا مظاہرا کئی مرتبہ کر چکی ہے اور2010ء کے بعد2016ء کی تحریک اس کے لیے بہت بڑا ثبوت ہے مگر بھارتی وزیر داخلہ اس سب کے باوجود اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں 1948ء میں بھارت کھڑا تھا بطور ثبوت وزیر داخلہ کے دنیشور کمار کے کام سے متعلق بیان دیکھ لیجیے اور 23فروری1948ء میں گوپالا سوامی آئینگر کا اقوام متحدہ میں دیا گیا بیان بھی دیکھ لیجیے موصوف نے اقوام عالم کے ممبران کے سامنے کہا تھا:
“As the Security Council is aware, the Government of India is fully committed to the view that after
peace is restored and all people belonging to the State have returned there, a free plebiscite should
be taken and the people should decide whether they wish to remain with India, go over to Pakistan or to remain Independent if they choose to do so.” تب تو پاکستان اور آزادی کی بات بھی کشمیریوں کو خوش کرنے کے لیے کہی جاتی تھی جب کہ آج یک نفری مذاکرات کاراور سابق سراغرساں ڈائریکٹر کشمیر میں قیام امن کے لیے طریقہ کار ڈھونڈنے کے لیے تشریف لا رہے ہیں ۔حیرت کی بات یہ کہ وزیر داخلہ اب تک یہ کہتا ہے کہ دنیشور شرما کشمیریوں کے جائز مطالبات جاننے کے لیے کشمیر جائیں گے کیا دلی سرکار کو اب تک یہ نہیں معلوم ہے کہ کشمیر میں عسکریت اور آزادی پسند سیاستدان کس مقصد کے لیے برسرجدوجہد ہیں یا یہ صرف بین الاقوامی دنیا کو بیوقوف بنانے اور کشمیریوں کو سیاست اور مذاکرات سے فرار ہونے کی آڑ میں بدنام کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے ۔