... loading ...
(گزشتہ سے پیوستہ)
ملک مشتاق گھنجیرہ ایڈو کیٹ غازی علم دین شہید کی فائل سے متعلق ایک اور نوٹ کا ذکرکرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ” آخری دنوں میں جو لوگ ان سے ملنے آئے تھے ان میں سب سے اہم نام ملک مولا بخش ایڈوکیٹ کا تھا ۔ یہ اس کمیٹی کے سربراہ تھے جنہوں نے غازی شہید کا جسد خاکی لاہور پہنچایا تھا ۔ ان کی ہفتہ وار غازی سے ملاقات ہوا کرتی تھی ۔ ان نوٹس میں مزید لکھا گیا ہے کہ ان دنوں نواب آف کالاباغ کے تین چار ملازم ہفتے میں دو روز جیل آتے اور اپنے باغات کے تازہ پھل ، کھانا اور کالاباغ کا حلوہ غازی علم دین تک پہنچاتے تھے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے نواب صاحب کالاباغ کا ذکر جیل ریکارڈ میں موجود نہیں بلکہ یہ سب چیزیں بھجوانے والے کے طور پر ان کی والدہ کا نام درج ہے ۔
سینٹرل جیل میانوالی میں غازی علم دین نے سرکاری طور پر جو وصیت کی تھی وہ ان کے مزارپر درج ہے ۔اُس کے مطابق ” میرے سب رشتے داروں کو یہ تاکید کر دی جائے میری پھانسی مل جانے سے ان کے سب گناہ نہیں بخشے جائیں گے ۔ بلکہ ہر ایک کے اپنے اپنے عمل ہی اُس کو دوزخ سے بچا سکتے ہیں ۔ پس ان کے لیے نماز قائم کرنا اور زکوة اور جملہ شرعی احکام شرعی کی پابندی لازم ہے ۔ بھائی دین محمد اور بھائی غلام محمد ( تایازاد) تُم پر کسی نہ کسی وقت مصیبت ضرورنازل ہو گی ۔ اس لیے تُم ہر نماز کے بعد ” یا مزمل “ کا ورد ضرور کرنا۔ میری قبر کا فرش دو فُٹ اونچا اور تیس مربع فُٹ ہو ۔میری قبر کا کٹہرا سوا فُٹ اونچا ہو ۔ ایک جانب سے اڑھائی فُٹ یا ساڑھے تین فُٹ کی جگہ کچی رکھی جائے جس کے اردگرد جنگلہ میرے والد بزرگوار کے اپنے ہاتھ کابنایا ہوا لگایا جائے ۔ قبر اندر سے کچی رکھی جائے ۔ صندوق میں دفن کرنے کی ضرورت نہیں نیچے صرف ریت بچھائی جائے ۔ جو آدمی میرے خاندان سے میرے بعد وفات پائے اس کی قبر میرے دائیں ہاتھ بنائی جائے ۔ بڑے تھڑے کے چاروں کونوں پر گلاب کے پودے لگائے جائیں ،باہر کی جانب دو کوٹھٹریاں بھی بنائی جائیں اور کنواں بھی تعمیر کیا جائے ۔اور مسجد بھی بنائی جائے اس کا فرش میری قبر سے کسی حالت میں کم نہ ہو اور مجھے ملنے کے واسطے جو وظیفہ آپ کو بتایا گیا ہے وہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کو پڑھنا چاہیے۔ اس روز حُقہ ، کھٹی چیز، یا بدبودار اشیاءمثلاً پیاز وغیراہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے دفن کر چُکو تو دو رکعت نماز نفل شکرانہ اور دو رکعت نماز مغفرت ادا کرنا ہیں ۔ نعش کے ہمراہ فساد بالکل نہ کیا جائے اور امن امان کی تلقین کی جائے ۔ میری نعش کے ساتھ ذکر الہی ضرور ہو مگر سر سے پگڑی نہ اُتاری جائے ۔جو میری قمیض عدالت میں پڑی ہے میرے ماموں سراج الدین کو دی جائے ۔میری شلوار میرے بھائی محمد دین کو دی جائے ۔جو میرے یہاں چار کپڑے ہیں ان میں سے میری پگڑی میرے تایا کو دی جائے اور کرتی جھنڈو برادر پھجے کو دی جائے ۔ چادر میرے والد کو دی جائے اور سلیپر میرے بھائی غلام محمد کو دیئے جائیں ۔ سب بھائیوں کو السلام علیکم ۔ میرا حال اخبار میں ضرور لگوایا جائے اور نماز کی سب مسلمانوں کو تلقین کی جائے فرض اللہ کا قرض ہے اور سُنت رسول کریم ﷺ کا ۔ جو وظیفہ میں نے تم کو بتایا ہے وہ صرف میری تسبیح پر ہوگا ۔ اور کسی اور تسبیح پر نہیں ہوگا ۔ وہ محمد خلیل سے لے لینا ڈیڑھ سو دانوں والی ہوگی ۔ میری یہ وصیت پوری کی جائے اور میں نے یہ قتل اس لیے کیا تھا کہ اُس نے میری آقاءکی شان میں گستاخی کی تھی ۔
دوبارہ بلیک وارنٹ جاری ہونے کے بعد غازی جب آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے کہاکہ مجھے تھوڑی دیر کھلا چھوڑ دیا جائے تا کہ میں کچھ دیر دوڑ سکوں ۔ دوسری خواہش جس کا انہوں نے اس وقت اظہا ر کیا وہ یہ تھی کہ ” میری خواہش ہے کہ میں کھلے ہاتھوں کے ساتھ پھانسی گھاٹ تک چل کر جاؤں ۔ ان کی اس خواہش کی تعمیل کی گئی اور وہ کھلے ہاتھوں کے ساتھ چل کر پھانسی گھاٹ تک گے۔اس موقع پر تیسری خواہش جس کا انہوں نے اظہار کیا تھا وہ جیل حُکام نے پوری نہیں کی تھی تختہ دار پر چڑھاتے ہوئے ان کے چہرے پر سیاہ نقاب نہ چڑھایا جائے۔
غازی علم دین شہید کو میانوالی جیل میں منتقل کرنے کے ساتھ ہی میانوالی میں ہنگامے شروع ہو گیے تھے جو ان کی شہادت کے بعد تک جاری رہے ۔ پھانسی سے دو روز قبل جب جیل کو میانوالی اور گردونواح کے لوگوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا تو جیل توڑنے کا منصوبہ بنایا گیا ،لیکں غازی علم دین شہید کے خاندان کے بزرگوں کی طرف سے اجازت نہ ملنے پریہ منصوبہ ترک کر دیا گیا تھا ۔ معلوم ہوا ہے کہ جب غازی علم دین شہید کے جسد خاکی کو جیل کی ڈیورھی میں لایا گیا تو عوام نے جیل پر حملہ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں ایک پولیس آفیسر زخمی ہوا تھا ، اس ہنگامے کے بعد جیل حکام نے نماز جنازہ کے بعد غازی علم دین شہید کے جسد خاکی کو جیل کے جنوب مشرقی کونے میں لاوارثوں کے قبرستان میں دفن کر دیا تھا ۔
بعد ازاں چودہ نومبر کو قبر کشائی کے بعد شہید کا جسد خاکی لاہور بھجوادیا گیا جہاں علامہ اقبالؒ اور مسلم زعماءنے میت وصول کی اور نماز جنازہ کے بعدغازی علم دین کو سپرد خاک کر دیا گیا ۔
تاریخِ انسانی میں شہیدانِ ناموسِ رسالت ﷺ کے روش، درخشان، اُجلے اور سنہری دبستان کامطالعہ کریں تو شاتمانِ رسول کے ان جگر دار دشمنوں ۔۔۔۔۔۔ استقامت کے تراشے ہوئے پیکروں ۔۔۔ ایمان کی تجسیم کے معطر و برگزیدہ ناموں کی فہرست میں غازی علم دین شہید کا نام ضو فشانیاں بکھیرتا نظر آتا ہے۔۔غازی علم دین شہید نے ایمان کی پختگی ۔ اور جذبے کی ثقاہت کو دار کی کسوٹی پر کس کے دیکھا۔۔۔۔انہوں نے جس انداز میں جنابِ رسالت مآب ﷺ سے اپنی محبت اور والہانہ عقیدت کا ثبوت دیا اس سے شماتت کی ہر جسارت سر نگوں ہو ئی اور حفاظتِ حرمت کی کوشش سر بلندٹھہری ۔۔۔۔ آج غازی علم دین شہیدؒ کی حیثیت اور مقام کے سامنے دنیا کی عظمتیں سر نگوں بیٹھی ہیں اور عقبیٰ کی نعمتیں خیر مقدم کے لیے سروقد کھڑی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرحبا ۔۔۔ اے شہیدِ پاک طینت را ۔۔۔۔۔۔۔۔ مرحبا ۔۔