... loading ...
بڑے کمرے میں نامور مدیران اخبارات جمع تھے۔ اچانک دروازے سے وزیراعلیٰ بلوچستان جوکہ چیف آف جھالاوان بھی کہلاتے ہیں جناب نواب ثنا اللہ زہری اور ان کے ساتھ جواں سال وزیرداخلہ سرفراز بگٹی داخل ہوئے۔ وزیراعلیٰ صاحب نے بلوچستان میں صحافیوں کودرپیش سیکورٹی کی صورتحال پرتبادلہ خیال کرنے کے لیے پاکستان بھرسے آئے ہوئے مدیران کے نمائندہ وفدکوخوش آمدیدکہا۔ باتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مدیران نے وزیراعلیٰ سے کہا جناب بلوچستان کے صحافیوں اور اخبارات سے منسلک لوگوں کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔ کالعدم بلوچ لیبریشن آرمی نے دھمکی دی تھی کہ 22 اکتوبر تک بلوچستان کا میڈیا یا تو ہمیں کوریج دے یا پھر وہ ہمارے حملوں کے لیے تیار ہوجائے۔ اسی صورتحال کے پیش نظر ہم تمام مدیران آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں تاکہ اس مسئلے کا حل نکل سکے۔
صحافیوں نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ آج خصدار میں اخبارات تقسیم نہیں ہوسکے۔ اخبار کے بنڈل اٹھانے سے ٹرانسپورٹروں نے انکار کردیا۔ ہاکروں نے بھی اخبار اٹھانے سے انکار کردیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔وزیراعلیٰ نے وزیرداخلہ کوکہاکہ آپ اس معاملے کودیکھیں ۔وزیرداخلہ نے ڈی سی خصدارکوفون ملایاجس پر ڈی سی نے انہیں بتایا کہ نہیں حضور یہاں توسب سیٹ ہے ! وزیرداخلہ صاحب فرمانے لگے نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے، ایسا کوئی واقعہ آج پیش نہیں آیا۔ کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے وفد نے وزیراعلیٰ صاحب اوروزیرداخلہ سے گزارش کی کہ حضور ہم ملک کے مختلف شہروں سے چل کر یہاں آگئے ہیں اور آپ فرما رہے ہیں کہ ایساکوئی معاملہ ہی نہیں ہے۔ حضورایسا تو نہ کریں ۔ وزیراعلیٰ صاحب نے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی سے اس صورتحال پر سوال کیا؟۔ سرفراز بگٹی کہنے لگے جی سر وہ ایسا ہے۔ میں نے دیکھ لیا ہے۔ اس معاملے کو ہم دیکھ رہے ہیں ۔ یہ ہوجائے گا۔ وہ نہیں ، ایسابڑا ایشو نہیں ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب باغیوں نے بلوچستان کے صحافیوں ، ہاکروں ، العرض اخباری صنعت، الیکٹرونکس میڈیا سے وابستہ ہر شخص اور ادارے کو واضح طور پر پمفلٹ بانٹ کر فون کرکے دھمکیاں دی گئی ہیں کہ 22 اکتوبر کے بعد وہ کہیں بھی ،کسی کو بھی نشانہ بنایاجاسکتاہے۔
وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ بلوچستان نے دورے پر آئے ہوئے صحافی رہنماؤں سے کہا کہ یہ ناراض بلوچ کون ہوتے ہیں ؟ کوئی نہیں ہے ناراض بلوچ۔ سب میڈیا کی ڈرامے بازی ہے۔ میڈیا نے فضول میں ان کو ہیرو بنایا ہوا ہے۔ اس پر صحافیوں میں سے ایک نمائندے نے کہا کہ آپ کی گفتگو سے لگ رہا ہے ،ہم سول حکومت کے نمائندے سے نہیں بلکہ کسی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے سے ملاقات کررہے ہیں ۔ جس کو زمینی حقائق اور حقیقت کا کوئی ادراک نہیں ۔ خیر وزیراعلیٰ صاحب نے کہا کہ ہم ایک کمیٹی وزیرداخلہ صاحب کی سربراہی میں بنادیتے ہیں جو کہ صحافیوں کو حفاظت فراہم کرنے کے حوالے سے تمام ضروری اقدامات کا جائزہ لے گی۔حکومت کی احساس ذمہ داری کااحساس ہوچکنے کے بعد صحافی سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے گھر پہنچے جہاں پر پورٹ اینڈ شیپنگ کے وفاقی وزیر میر حاصل خان بزنجو سے بھی ملاقات ہوئی۔ مدیران نے اپنا دکھ اور بلوچستان کی تازہ ترین صورتحال سے ڈاکٹر عبدالمالک کو آگاہ کیا تو ڈاکٹر عبدالمالک بتانے لگے کہ جب میں نے بلوچستان کی حکومت سنبھالی تو مجھے نوازشریف صاحب نے بلاکر کہا کہ آپ پرسب سے بھاری ذمہ داری ،بلوچستان کاامن بحال کرناہے لہذا،آپ ناراض بلوچوں کو سیاست میں لائیں اور ان کو راضی کریں ۔ جس کے بعدمیں نے سب سے پہلی ترجیح ،بلوچستان کے ناراض بلوچوں کوراضی کرنارکھی۔اس وقت کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ صاحب تھے جو آج قومی سلامتی کے مشیر ہیں میری (عبدالمالک) اور ناصر جنجوعہ صاحب کی کوششوں سے ناراض بلوچ واپس سیاسی میدان میں آنے لگے۔
ناصر جنجوعہ زبردست معاملہ فہم اور سول بالادستی کو دل سے تسلیم کرنے والے جنرل تھے ان کے دروازے صحافیوں اور سیاست دانوں کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے تھے وہ ہر معاملے پر نقطہ نظر سننے، اس کو سمجھنے، اوردوسروں کے موقف کو اہمیت دینے کی ایسی صلاحیت رکھتے تھے جو عموماً فوجی جنرلوں میں کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ عبدالمالک صاحب نے کہا کہ جب میری حکومت کے تین ماہ باقی رہ گئے تھے تو مجھ سے باغی بلوچ سردار حربیار مری نے رابطہ کیا اور اس نے کہاکہ وہ واپس پاکستان آنا چاہتا ہے مگر اس کو تحفظ دیا جائے اوراس کو قابل عزت واپسی کا راستہ فراہم کیا جائے۔ عبدالمالک بلوچ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے فوراً، اسلام آباد کا سفر کیا اور نوازشریف صاحب کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا انہوں نے وہیں پر جنرل راحیل شریف کو بھی بلا لیا اور ان کے ساتھ ساری صورتحال شیئر کی، اور مجھے کہا کہ آپ فورا جائیں اور حربیار سے ملیں اگر حربیار مری واپس آجاتا ہے تو پیچھے تو، ڈاکٹر اللہ نذر بچے گا،اور اس باغی سردار کے پاس تو آواران وغیرہ کا تھوڑا سا علاقہ ہے۔لہذاحربیارمری کی واپسی بلوچستان کے امن کے لیے بہت فائدہ مندثابت ہوگی۔میں حربیار سے مل کر آیا اور ملاقات کی تمام تفصیلات نوازشریف صاحب کو بتائیں انہوں نے کہا کہ آپ فوراً، اس پر کام شروع کردیں ، یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی آپ راحیل شریف صاحب کو بھی صورتحال سے آگاہ کریں ۔ ڈاکٹرصاحب بتاتے ہیں کہ میں راحیل شریف صاحب سے ملا اور ان کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا انہوں نے تمام باتیں سنیں اور کہا کہ ’’ٹھیک ہے ،میں آپ کوبتاتاہوں ‘‘مگرانہوں نے میری حکومت کے باقی ڈھائی مہینوں میں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر میری حکومت کی مدت ختم ہوگئی اور ناصر جنجوعہ بھی ریٹائر ہوگئے اورجنرل راحیل شریف بھی مدت ملازمت پوری ہونے پرچلے گئے۔ عبدالمالک صاحب کہنے لگے ہم نے اچھا موقع ضائع کردیا، حربیار مری آنے پر راضی تھا، مگر ہم نے اس سے فائدہ نہیں لیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیپلشمنٹ کے پاس سیاسی سمجھ بوجھ اور سیاسی معاملہ فہمی سیاسی بصیرت سیاسی تدبر اور سیاسی شعور کا فقدان ہے۔ اب ماحول تبدیل ہوچکا ہے۔
ناصر جنجوعہ صاحب کے جانے سے بہت فرق پڑا ہے۔ مدیران نے حاصل بزنجو صاحب اور عبدالمالک صاحب سے سوال کیا کہ نوازشریف کی کرپشن اور پانا ماکے حوالے سے آپ کیا سمجھتے ہیں ؟ عبدالمالک بلوچ صاحب نے کہا کہ یہ ڈرامے کا ایک سین ہے، ہم نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہوں گے، ہم اس کا ساتھ دینگے اور ہر محاذ پر ان کی حمایت کریں گے ، حاصل بزنجو صاحب نے کہا میں چار سال سے نوازشریف کے ساتھ تھا، اگر وزیر اعظم نے کرپشن کرنی ہوتی ہے تو وہ اپنے وزراء سے کہتا ہے کہ پیسے لاؤ، ہم سے نوازشریف کہتا نا کہ پیسے لاؤ ؟مگر نوازشریف نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ سب جھوٹ اور ڈرامے بازی ہے۔سی پی این ای کا وفد سابق وزیر اعلیٰ صاحب سے ملاقات کرنے کے بعد اس بات پر متفق تھا کہ وفدکو کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجواہ صاحب سے ملاقات کرنی چاہئے اور بلوچستان کے صحافیوں کو لاحق تمام خطرات سے ان کوآگاہ کرناچاہیے۔ اس کام کے لیے اکرام سہگل صاحب کو ذمہ داری سونپی گئی۔ اکرام سہگل صاحب نے متعلقہ حکام سے رابطہ کیا اور حکام نے اگلے روز صبح 9 بجے کا وقت دیا اور ساتھ ہی بتادیا کہ جنرل صاحب تمام مدیران سے نہیں مل سکتے کوئی تین لوگ آسکتے ہیں ۔ لہٰذا اکرام سہگل، عامر محمود اور ڈاکٹر جبار خٹک کے نام اس تین رکنی وفد کے لیے فائنل کیے گئے، جن کوجنرل صاحب ،ملاقات کا شرف بخشنے والے تھے۔ یہ وفد اپنے دورے کے آخری روز صبح 9 بجے سے حکام سے رابطے میں تھا۔ 9 سے 10 بجے، حکام نے کہا،بتاتے ہیں جنرل صاحب جہاز میں ہیں ، صبر کریں ۔ 10 سے 11 بجے۔ پھر 12 بجے، پھر ایک، اور پھر 2 اور پھر تین بج گئے اور 4 بجے تمام لوگوں کی واپسی کی فلائٹ تھی، لہٰذا 4 بجے تمام لوگ طویل انتظار کرنے کے بعداپنے شہروں کے لیے واپسی کے سفر پر روانہ ہوگئے ۔
واپسی سے قبل،آخری رات کوئٹہ پریس کلب میں بلوچستان کے صحافیوں کی سی پی این ای کے ذمہ داران سے تفصیلی نشست رہی۔ جب سی پی این ای کے ذمہ داران نے مقامی صحافیوں کوتمام صورتحال سے آگاہ کیاتوبلوچ صحافی رنجیدہ ہوگئے بلوچستان کے صحافیوں نے اس صورتحال پردکھ کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ آپ ہمیں یہاں مرنے کے لیے چھوڑ کر جارہے ہو۔ 22 اکتوبر سے 24 اکتوبر تک سی پی این ای کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے بلوچستان میڈیا ایکشن کمیٹی کی دعوت پر جو دورہ کیا اس کا نہ کوئی سر سامنے آیا نہ پیر نکلا۔حالت تویہ ہے کہ وزیراعلیٰ صحافیوں کودی جانے والی دھمکیاں اوراخبارات کی تقسیم نہ ہوپانے سے ہی لاعلم تھے۔صوبے کی سیکیورٹی کی صورتحال نازک موڑلے چکی ہے۔ایسے میں سول حکومت کایہ رویہ سینئرصحافیوں کی سمجھ سے بالاترتھا۔ اسٹیبلشمنٹ طرز کی غیر سنجیدہ سول حکومت کا بلوچستان پر راج ہے۔ جو کسی مسئلے کو ماننے کے لیے راضی ہی نہیں ہے۔ ان کے پاس جو عینک ہے اس میں سب صحیح اور صاف نظر آتا ہے، مگر جو لوگ بلوچستان کو، عینک اتارکر دیکھتے ہیں ان کی آنکھوں میں آنسو تیرتے ہیں ۔ صورتحال یہ تھی کہ کوئٹہ تک میں 23 اکتوبر کو کوئی اخبار نہیں تقسیم ہوسکا۔ اور اس صوبے کے وزیر اعلیٰ کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ صوبے میں صحافیوں کو کس قسم کے خطرات لاحق ہیں ۔
دوسری طرف بلوچستان میں 2002سے اب تک 147 اخبار نویس قتل کیے جاچکے ہیں ۔ جن میں سے صرف تین کا قتل دہشت گرد یاباغیوں نے ماناہے ۔باقیوں کا قتل کس کے سر ، اس کا کوئی جواب نہیں دیتا۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں زندہ رہنے کے لیے جائز کوریج دینے پر صحافیوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات کاٹے گئے ہیں ۔جسٹس فائزعیسیٰ صاحب کے سامنے جب صحافیوں کے مقدمات رکھے گئے اورصحافیوں نے حقیقت سے ان کوآگاہ کیاتوجسٹس صاحب نے صحافیوں کے مقدمات پرکاروائی توروک دی مگربحرحال مقدمات اپنی جگہ قائم ہیں ۔جوکہ کسی بھی وقت صحافیوں کے لیے خطرے کاسبب بن سکتے ہیں ۔بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے کہ صحافی ،دشت گردوں کی Glorification کرتے ہیں ، جبکہ دہشت گرد کہتے ہیں کہ میڈیا ہمیں جائز تشہیر بھی مہیا نہیں کرتا۔ ملک میں بلوچستان کے صحافی خطرناک کھیل کے عین بیچ میں آگئے ہیں ۔ دوسری طرف وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور ترجمان بلوچستان حکومت امان اللہ کاکڑ کا سول حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود جو طرز گفتگو ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے نئے عارضی سیٹ اپ میں ان دوحضرات کو حصہ دینے کے واضح اشارے دے رکھے ہیں ۔دکھ تواس بات کاہے کہ بلوچستان میں صحافیوں اوردیگرمحب وطن لوگوں کے ساتھ جوکچھ ہورہاہے، چاہے وہ کسی طرف سے بھی ہورہاہواکثراس کی خبربھی ملک بھرمیں نہیں پہنچ پاتی۔بلوچستان کی تازہ صورتحال جس میں صحافیوں کوجان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں ہیں ،اس پرکسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگی۔ایسے میں بلوچستان کے صحافی سوال کرتے ہیں کے کیاہمارے بلوچستان کادردکسی دردمیں شمارنہیں ؟