وجود

... loading ...

وجود

پاکستان کیسے اور کیونکر ٹوٹا ؟

اتوار 29 اکتوبر 2017 پاکستان کیسے اور کیونکر ٹوٹا ؟

پاکستان بننے کے بعد سکندر مرزا سیکریٹری دفاع کم اور انگریزوں کے وفادار زیادہ تھے یہ بنگال کا رہنے والا اور غدار ِدین ووطن میر جعفر کا پڑپوتا تھا1954میں مشرقی پاکستان کے گورنر بننے کے بعد اس نے وہاں وہ ظلم کے پہاڑ توڑے کہ بنگالی سبھی پاکستان کے خلاف نعرے لگانے لگے متحدہ پاکستان میں مشرقی پاکستان میں بسنے والے بنگالیوں کی تعداد کسی بھی دوسری زبان بولنے والوں سے کہیں زیادہ تھی بلکہ اردو بولنے والوں سے تو دو گنا سے بھی زیادہ مگر جب اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا تو بنگالی بپھر گئے بنگلہ زبان کے لیے تحریک چلی جسے گولیوں سے بھونا گیا ور بنگالی ان لسانی فسادات میں شہید ہوئے 1970کے پہلے عام انتخابات ہوئے تو اس وقت ڈکٹیٹر ایوب خان کو ہٹا کر یحییٰ خان قابض ہو چکا تھا۔
یحییٰ خان نے ان انتخابات کو انتہائی صاف شفاف کروایا لیکن اس کے نتائج توقعات کے برعکس نکلے یحیٰی خانی دور کے خفیہ ادارے خان عبدالقیوم خان کی مسلم لیگ کو فاتح قرار دے رہے تھے مگر اس کے تقریباً سب امیدوار جو کہ جغادری سیاستدان وڈیرے اور مختلف علاقوں کے جاگیردار تھے بری طرح ہارگئے اور مسٹر بھٹو کی نوزائیدہ پیپلز پارٹی نے صرف 34فیصد ووٹ لیکرمغربی پاکستان کامیدان مار لیا۔
اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الر حمٰن نے بزرگ سیاستدان نور الامین کی ایک سیٹ کے علاوہ سبھی 165سیٹیں جیت لیں ۔اب انتقال کی منتقلی کا مرحلہ درپیش تھا یحییٰ خان کی آئندہ مستقل صدر رہنے کے لیے خواہش پر شیخ مجیب رضامند نہ ہوا ۔آئین کے مطابق منتخب قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ڈھاکہ میں منعقدہونا تھا جس کا اعلان کردیا گیا ۔یحیٰی خان عیاش طبع راگ رنگ کی محفلوں اور شراب کا رسیا تھا اور (جنرل )رانی کی زلف کا اسیر بن چکا تھا وہ ہر صورت اپنی صدارت کو برقرار رکھنا چاہتا تھا اس لیے اس نے مغربی پاکستان میں اکثریتی جماعت کے سربراہ بھٹو صاحب سے آنکھ مچولی شروع کردی بھٹو صاحب نے ڈھاکہ میں ہونے والے اجلاس کی کھلم کھلا مخالفت شروع کردی یہاں تک کہہ ڈالا کہ جو مغربی پاکستان کا ممبر قومی اسمبلی اس اجلاس میں جائے گااس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔
اس اجلاس میں مغربی پاکستان سے شمولیت کے لیے پیپلز پارٹی کا ہی واحد ممبر قومی اسمبلی نواب محمد احمد خان قصوری کا بیٹا احمد رضا قصوری گیا (واضح رہے کہ بعد میں نواب محمد احمد خان کے قتل ہونے پر بھٹو صاحب کو ان کے قتل کے جرم میں ہی پھانسی کی سزا دی گئی تھی)بھٹو صاحب نے اسی دوران ایک اور نعرہ مستانہ لگادیا کہ”اُدھرتم اِدھر ہم” یحییٰ خان حالات سے قطعاً مطمئن نہ تھا بنگلہ بدھو مجیب الرحمٰن انتخابات کے نتیجے میں واضح وزیر اعظم نہ بننے کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں تحریک چلا چکاتھاعدالتیں اور تمام ادارے اس کا حکم بجالا رہے تھے جسے کچلنے کے لیے مشرقی کمان میں موجود افواج پاکستان کویحییٰ خان نے حکم دے ڈالا۔ مگر یہ کوششیں ناکام ہوگئیں دونوں پاکستان کے حصوں میں ایک ہزار سے زائد میل کا فاصلہ تھا ور مشرقی پاکستان میں کوئی فوجی کمک پہنچ ہی نہیں سکتی تھی خونخوار بلی کی طرح موقع ملتے ہی ہندو مہاشے مکتی باہنی اور اپنی افواج کے ذریعے مشرقی پاکستان کی سرحدیں عبور کرکے داخل ہوگئے اور خونخوار بھیڑیوں کے ذریعے متحدہ ہندوستان پر مسلمانوں کی700سالہ حکمرانی کابدلہ لینے اور پاک وطن کو توڑنے کے ناپاک ارادوں سے جھپٹ پڑے وہاں پر اسلامی چھاترو شنگھو((IJT کے کارکنوں نے مسلمانوں کی سرزمین کی حفاظت کے لیے البدر و الشمس بنا کر اور افواج پاکستان سے ملکر ہندو افواج کا زبردست مقابلہ کیا اپنے ہزاروں نوجوان شہید کروائے جس کی وجہ سے ہی اب شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد انہی پاکستان کے حمایتی نوجوانوں کو پھانسی پر لٹکا رہی ہے مشرقی پاکستان میں گھمسان کی جنگ جاری تھی۔یحیٰی خان بھٹو کی رہائش گاہ لاڑکانہ شکار کے بہانے پہنچے وہاں 2دن قیام کے دوران مذاکرات میں طے پایا کہ مغربی پاکستان کے وزیر اعظم بھٹو صاحب اوروہ بدستور صدر رہیں گے اس طرح بھیانک سازش کے ذریعے “مشرقی پاکستان ” کو “الواداع ” کہنے کا منصوبہ تیار ہوگیا ۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں پولینڈ کی مشرقی پاکستان میں جنگ بندی کی قرار داد پر بحث کی جانی تھی جس کے لیے بھٹو صاحب کو پاکستان کا نمائندہ بنا کر بھیجا گیا بھٹو صاحب نے اجلاس میں کسی کی بھی ایک نہ سنی زبردست جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہندوستان کے خلاف 1000سال تک جنگ لڑیں گے اور یہ کہ ہم کوئی جنگ بندی وغیرہ نہیں چاہتے اور قرار داد پھاڑ کر واک آؤٹ کردیا پھر سلامتی کونسل کو کیا کرنا تھا؟ جب پاکستانی مندوب ہی بائیکاٹ کرچکا تھا “میاں بیوی راضی توکیاکرے گا قاضی” امریکہ کے ہم پاکستان کے بعد لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران اتحادی بن گئے تھے بعد ازاں سیٹو سنیٹو کے ممبر بھی بنے جدید اسلحہ بردار امریکن بحری بیڑے کا بہت پراپیگنڈا کیا گیا کہ وہ بحیرہ عرب میں داخل ہو چکا ہے اور جلد مشرقی پاکستانی افواج کی امداد کرے گا مگر یہودیوں کے زیر اثر سامراجی گماشتوں کے ہر قسم کے دیگر وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی جھوٹ نکلا۔
اور ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں یحیٰی خان کے حکم پر مشرقی کمانڈکے جنرل نیازی نے 93000مسلم سپاہ کے ساتھ بھارتی جنرل اروڑا سنگھ کے آگے ہتھیارڈال دیے ساری مسلم سپاہ کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر بھارتی افواج لے گئیں اور قید کرڈالا ۔افسوسناک ترین اس جنگ کا پہلو یہ ہے کہ بھارتیوں نے اپنے کہنے کے مطا بق کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو سمندر میں غرق کردیا ہے ملک تو ٹوٹا مگر بے غیرت افواج ہماری نوجوان اور کم سن 28000بچیوں کو بھی منہ کالا کرنے کے لیے ساتھ لے گئے جن کی اب دوسری یا تیسری نسل کلکتہ ودیگرشہروں کے” ان بازاروں “میں بیٹھی کسی محمد بن قاسم کی آمد کا انتظار کر رہی ہے مگر ہم مسلمانوں کی غیرت ایمانی کا آخری قطرہ بھی شاید ختم ہوچکا ہے!اب تو حکمران بھی دوستیوں کا دم بھرتے اور ذاتی فنکشنوں میں موذی مودی سینکڑوں بغیر پاسپورٹ ہندوؤں کے جلو میں شامل ہوتے اور شریفین ان سے ہماری مسلمان خواتین کا پردہ تک بھی نہیں کرواتے اور پاک باز غیرت مند اور غیور بوڑھی والدہ تک کو بھی ان سے ملوانا اپنا کارنامہ سمجھتے ہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر