... loading ...
آٹھ اکتوبر 2017ء کی صبح کوئٹہ کی سبی شاہراہ پر بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک کو بارود سے بھری گاڑی سے نشانہ بنایاگیا یعنی خودکش حملہ تھا جس کے نتیجے میں پولیس کے7جوانوں سمیت 9افراد جاں بحق ہوگئے۔ اسی خونی تدبیر کے تحت احمد خانزئی کے قمبرانی روڈ پر شعبہ انسداد دہشت گردی کے انسپکٹر عبدالسلام بنگلزئی کی گاڑی پر گولیاں برسائی گئیں ۔وہ محفوظ نہ رہے۔آخر الذکر قتل کی ذمہ داری لشکر جھنگوی العالمی نے قبول کرلی۔ یہ پیغام اس تنظیم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر پھیلایا۔ چنانچہ پولیس اہلکاروں کے ٹرک پر حملے کے حوالے سے سکوت اختیار کیا گیا ۔ معلوم بات ہے کہ ایک ہی گروہ نے ایک ہی مقام پر اس خون آشامی کا بندوبست کیا ہے۔ پولیس اہلکاروں اور قانون نافذ کرنیوالے دوسرے اداروں پر ان تنظیموں کے حملوں میں تیزی تب آئی جب ان کا مربوط رابطہ فاٹا کی کالعدم تنظیموں سے بنا۔ چنانچہ لشکر جھنگوی ان تنظیموں کا حصہ بن گئی اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں نوجوان ان کی دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے تیار و بھرتی کیے گئے۔ آپریشن ضرب عضب نے ان کا شیرازہ بکھیر دیا ۔انکے ٹھکانوں کو تباہ کردیا، یوں یہ سارے گروہ افغانستان منتقل ہوگئے۔ ان سے وابستہ بلوچستان کے نوجوان بھی ہمراہ پناہ میں چلے گئے ۔ بھرتی کا عمل اب بھی جاری ہے، خصوصاً کوئٹہ اور صوبے کے دیگر اضلاع میں عموماً وارداتوں میں مقامی نوجوان شامل ہوتے ہیں کیونکہ ان کو یہاں کے نہ صرف علاقوں کا پتہ ہوتا ہے بلکہ انہیں قیام کرنے اور ریکی کرنے میں مشکلات بھی چنداں نہیں ہوتی۔نیز غیر ملکی دہشت گردوں کو اپنے ہاں محفوظ بھی رکھتے ہیں تاوقتیکہ انہیں استعمال کیا جائے ۔
داعش ہو یا پاکستانی طالبان، جماعت الاحرار ہو یا لشکر جھنگوی العالمی ان کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے تانے بانے ملتے ہیں ، بڑے گہرے مراسم و تعلقات ہیں ۔بلوچستان کے اندر مختلف سانحات میں غیر ملکی افراد کو بھی خودکش حملوں میں استعمال کیاگیا جیسے گزشتہ سال اکتوبر میں کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج میں ہونیوالے دہشتگردوں کاایک حملہ آور غیر ملکی تھا یعنی وسطی ایشیائی ممالک کا باشندہ تھا ۔ ایسی کئی مثالیں ملک کے مختلف شہروں اور اضلاع کی دی جاسکتی ہیں جہاں غیر ملکی دہشتگردوں کو لایاگیا ۔یقینا یہ ایک سوال ہے کہ ہمارے اتنے بڑے انٹیلی جنس نیٹ ورک کے باوجود یہ گروہ نہ صرف حملے کرتے ہیں بلکہ برابر دعوت و تبلیغ کے ذریعے مقامی نوجوانوں کو اپنا شریک کار بنانے میں بھی کامیاب ہیں ۔ سی ٹی ڈی انسپکٹر عبدالسلام کو گھر سے دفتر جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا یقینی طور پر ان کی آمدروفت کے اوقات اور گھر تک کی معلومات دہشت گردوں کے پاس تھیں ۔ اور بلاشک انسپکٹر کو مارنے والے مقامی ا فراد ہیں جو اپنا کام کرکے معلوم اور شناسا گلی محلوں میں اوجھل ہوگئے۔ پولیس اہلکاران کے لیے ماضی میں اور اب بھی نسبتاً آسان ہدف ہیں ۔ اگرچہ ان مسلح جتھوں نے بڑے پیمانے پر نقصان سے پاک فوج اور فرنٹیئر کور کو بھی دوچار کیاہے ۔
حالیہ دنوں مہینوں میں اور بھی پولیس جوان اور آفیسرز ہدف بن چکے ہیں ۔12اگست کو کوئٹہ کے پشین اسٹاپ پر پاک فوج کے ٹرک پر خودکش حملے میں دس جوانوں سمیت15افراد جاں بحق ہوئے۔10جولائی کوچمن میں ایس ایس پی ساجد مہمند خودکش حملے میں لقمہ اجل بنے۔ 13جولائی کو کوئٹہ کے ارباب غلام علی روڈ پرایس پی قائد آباد مبارک شاہ کو تین محافظوں سمیت قتل کیاگیا۔ اس سے قبل 11جون کو سریاب روڈ پر پولیس ناکے پر فائرنگ کرکے بلوچستان کانسٹیبلری کے تین اہلکاروں کو قتل کیاگیا۔اسی مہینے آئی جی آفس کوئٹہ کے باہر خودکش حملے میں 15اہلکار شہید ہوئے۔رمضان المبارک میں ڈی ایس پی عمر رحمان کو جیل روڈ پر مسجد سے نکلتے ہوئے نشانہ بنایاگیا۔ جنوری میں جوائنٹ روڈ پر دو پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ۔ اہم نکتہ و سوال ان گروہوں کا افغانستان میں مقیم ہونا اور وہاں تربیتی کیمپ چلانا ہے۔ ٹی ٹی پی کے آپریشنل سربراہ عمر منصور عرف خلیفہ منصور یا عمر نرے پر افغان حدود میں ہی ڈرون حملہ ہوا ہے۔ گویا ان گروہوں کو بھارت پال رہا ہے ۔ وہی بھارت جسے امریکا نے افغانستان میں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اس دوستی کی تجدید کا اظہار امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے حالیہ ارشادات سے ہوتا ہے کہ امریکا بھارت کے ساتھ ہے اور یہاں تک کہا کہ بھارت پاکستان پر نظر رکھے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ افغانستان کسی کے لیے بھی تر نوالہ نہیں بن سکتا۔
امارت اسلامیہ کی عملیات میں تیزی آئی ہے جس سے کٹھ پتلی افغان حکومت اور امریکی، بڑے بے قرار وپریشان ہوچکے ہیں ۔ امارت اسلامیہ کے حریت پسندوں نے افغان صوبے پکتیکا کے شہر گردیز میں پولیس تربیتی مرکز میں حملے کیے دو بدو جنگ کی صوبائی پولیس سربراہ تریالئی عبدیانی سمیت 60اہلکار مارے گئے۔ ایک اور حملہ غزنی میں فورسز پر کیاجس میں بھی بیس اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ پھر جمعرات19اکتوبر کو صوبہ قندھار کے ضلع میوند میں فوجی بیس پر حملے میں 43اہلکار مارے گئے۔21 اکتوبر کو کابل میں مارشل فہیم ڈیفنس یونیورسٹی کے باہر حملہ میں پندرہ سیکیورٹی اہلکار جان سے گئے ۔ امارت اسلامیہ کا دعویٰ ہے کہ ان واقعات میں ساڑھے تین سو سے زائد اہلکار مارے جاچکے ہیں اور ایک بڑی تعداد زخمیوں کی ہے۔ امارت اسلامیہ کے جنگجوحملہ کرکے بھاگے نہیں ہیں بلکہ جب تک زندہ تھے لڑتے رہے ہیں ۔دیکھا جائے تو امارت اسلامیہ ایک ہفتہ کے دوران اعصاب شکن کاروائیوں میں کامیاب ہوئی ہے۔ گردیز اور غزنی حملوں کے بعد کوئٹہ میں پولیس پر حملے ہوئے تاہم قندھار کے آرمی بیس کا حملہ کوئٹہ پولیس پر حملے کے اگلے روز ہوا ۔ یعنی19اکتوبر کو اور اسی روز بلوچستان کے شہر مستونگ میں دستی بم حملہ ہوا جس میں پندرہ افراد زخمی ہوئے۔ رات کے وقت گواد رمیں دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں پر دستی بم پھینکا گیا جس میں 26افراد زخمی ہوگئے ۔
امریکا اور پاکستان کے تعلقات کشیدگی کی انتہاء پر ہیں ۔ افغان حکومت ، بھارت اور امریکا پاکستان کو امارت اسلامیہ کا مددگار سمجھتے ہیں لیکن امارت اسلامیہ سے تعاون کرنیو الا تو روس اور ایران بھی ہے۔بلکہ خود امریکا بارہا واضح طور میں کہہ چکا ہے ۔تو پھر سارا ملبہ پاکستان پر یا تخریب کاری و دہشت گردی کا نشانہ پاکستان کیوں بنایا گیا ہے۔ خود امریکا کو اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ وہ افغانوں کی سرزمین پر قابض ہے، ان کی آزادی و خود مختاری چھین چکا ہے۔ جس کے خلاف امارت اسلامیہ مسلح جدوجہد کررہی ہے۔ حزب اسلامی امریکی انخلاء کا مطالبہ کررہی ہے ۔پھر کیوں امریکا راست اقدام نہیں اٹھاتا اگر وہ امن کا خواہاں ہے تو امارت اسلامیہ سے اس بنیاد پر مذاکرات ہوسکتے ہیں ۔ ایسے کئی امریکی سیاسی رہنماء اور فوجی حکام اپنی حکومت کو افغانستان چھوڑنے کا صائب مشورہ دے چکے ہیں ۔ امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزوف ڈنفورڈ کہہ چکے ہیں کہ ’’امریکا جنگ جیت نہیں سکتا اور پاکستان کے تعاون کے بغیر تو بالکل ناممکن ہے۔ ‘‘گویا امریکی جارحیت پر خود امریکی حکام کے درمیان اختلاف ہے۔ امریکا افغانستان میں شہریوں کا قتل عام کررہا ہے۔ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے اعلان پر اب تک افغانستان کے طول و عرض میں امریکی و نیٹو فورسز 800کے قریب بم گراچکے ہیں ۔آبادیاں نشانہ بنی ہیں ،گھر ملیامیٹ ہوئے ہیں اور بڑے پیمانے پر شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں ۔رہے افغان طالبان تو وہ دنیا کے لیے سرے سے خطرہ ہیں ہی نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت ہے جن کا مطالبہ امریکی فوجی قبضے کا خاتمہ ہے۔
دنیا یا خطے کے لیے اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ داعش اور وہ وتنظیمیں ہیں جن کی پشت پناہی بھارت اور افغان خفیہ ادارے کررہے ہیں ۔رہی بات داعش کی سرپرستی و معاونت کی، تو یہ الزام امریکا پرعائد کیاجاتا ہے ۔سابق افغان صدر حامد کرزئی تو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ امریکا افغانستان میں اسلحے کی بہتات ،بے امنی اور داعش کی موجودگی کا ذمے دار خود ہے اور وہی داعش کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے ۔ غیر فوجی رنگ کے ہیلی کاپٹر داعش کے لیے اسلحے کی ترسیل اور نقل و حمل میں استعمال ہوتے ہیں ۔ حامد کرزئی نے یہ بول کر بہت ہی دانشمندی کی بات کہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہ دونوں ممالک امریکا اور بھارت کی بجائے اپنے مفادات کا تحفظ کریں ۔اشرف غنی اور ان کا حکومتی ٹولہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ امریکیوں کی واپسی ہو ۔ امارت اسلامیہ سے مذاکرات ہوں اور پاکستان کے ساتھ زمینی حقائق کی بنیاد پر دوستی و تعلقات استوار ہو ں ۔ ایسا ہوگا تو پھر اشرف غنی اور اس کے ہمنواؤں کے لیے کوئی جگہ نہیں رہے گی۔ اشرف غنی کے قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر بند کرنے کے مطالبے کا پس منظر بھی یہی ہے۔
اشرف غنی کے پیش نظر یہ حقیقت رہنا چاہیے کہ ملک کا ایک بڑا حصہ ان کی عملداری میں نہیں رہا ۔ اب تو کابل میں بھی ان کی طنابیں ڈھیلی پڑ گئی ہیں ۔لونگ وار جرنل (ایل ڈبلیو جے) نے اپنی ستمبر کی رپورٹ میں کہا کہ افغانستان کے پینتالیس فیصد اضلاع امارت اسلامیہ کے زیر انتظام ہیں یا وہاں مزاحمت ہو رہی ہے ۔ مزید بر آں اسپیشل انسپیکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن کی مئی کی رپورٹ ہے کہ ملک کے گیارہ اعشاریہ ایک فیصد اضلاع حکومتی کنٹرول میں نہیں ہیں ۔ افغانستان میں بہر حال افغان ہی مررہے ہیں ۔ جنگ و جدل کی بہر حال حمایت نہیں کی جاسکتی۔یہ جنگ امریکا کی مسلط کی ہوئی گویا بدی کا سرچشمہ امریکا ہی ہے۔ امن ضرور قائم ہوگا اگرامریکا افغانوں کو ان کا ملک حوالے کردے۔ اس طرح نہ افغانستان میں داعش رہے گی اور نہ دوسری دہشت گرد تنظیموں کے لیے کوئی جائے پناہ ہوگی۔ اور پاکستان میں بھی پولیس اہلکاروں کے ٹرک پر حملے جیسے سانحات کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگا۔