... loading ...
مفتی غلام مصطفی رفیق
عورتوں کی مظلومیت کی تاریخ اتنی ہی طویل ہے جتنی کہ خود ظلم کی تاریخ،جس وقت سے کائنات میں انسانیت کے ہاتھوں ظلم شروع ہواہے اسی وقت سے عورت مظلوم رہی ہے ۔اسلام کے علاوہ عورت سے متعلق چاہے یہودیت کا نظریہ ہویاعیسائیت کا،رومن سوچ ہویاہندی ہرایک میں عورت کی تحقیروتذلیل کی گئی،عورت کوانسان سمجھناتودرکنارحیوان کی فہرست سے ہی اسے خارج کردیاگیا،حتی کہ 586ء میں تمام عیسائی دنیاکے علماء یورپ میں اس مسئلہ میں بحث کرنے کے لیے جمع ہوئے کہ عورت میں روح ہے یانہیں ؟اس سے اسلام کے علاوہ دیگرمذاہب کے پیروکاروں کے ہاں عورت کی حیثیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے ۔ہندوقدیم تہذیب میں شوہر کے انتقال کے بعد عورت کواچھوت اورمنحوس سمجھاجاتااورایسے حالات پیداکردیئے جاتے تھے کہ وہ زندگی پرجل کرمرنے کوترجیح دیتی تھی۔ اسلام نے آکرنہ صرف یہ کہ عورت کی مظلومیت کوختم کیا بلکہ اس کواس کاجائزمقام دے کر وقار اورسربلندی بخشی۔قرآن کریم خداکاکلام ہے اورہمیشہ حق ہی کہتاہے ،یہ کلام عورت کی تحقیروتذلیل کا ہرگزقائل نہیں ،لیکن ساتھ ہی اسے جاہلیت قدیمہ وجاہلیت جدیدہ کی زن پرستی سے بھی اتفاق نہیں ،وہ عورت کوٹھیک وہی مرتبہ ومقام دیتاہے جونظام کائنات میں اللہ نے اسے دے رکھاہے ،عورت عبداورمکلف مخلوق ہونے کی حیثیت سے تومردکے مساوی اورہم رتبہ ہے لیکن انتظامی معاملات میں مردکے تابع اورماتحت ہے ۔اس سے بڑھ کراورکیابات ہوسکتی ہے کہ قرآن کریم کی بڑی سورتوں میں سے ایک سورۃ کانام ہی عورتوں کے نام پررکھاگیاہے ”سورۃ النساء”۔قرآن کریم کی اسی سورہ نساء میں باری تعالیٰ نے مردوں کی حاکمیت کے بیان کے ساتھ یہ بھی ارشادفرمادیاکہ ”عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ایسے ہی واجب ہیں جیسے مردوں کے عورتوں کے ذمہ”اس آیت میں دونوں کے حقوق کی مماثلت کاحکم دیکر اس کی تفصیلات کوعرف کے حوالے کرکے جاہلیت جدیدہ وقدیمہ کی تمام ترظالمانہ رسموں کویکسرختم کردیا۔ البتہ یہ ضروری نہیں کہ دونوں کے حقوق صورۃً بھی ایک جیسے ہوں ،بلکہ اگرعورت پرایک قسم کی ذمہ داری لازم ہے تواس کے بالمقابل مردپردوسری قسم کی ذمہ داری واجب ہے ،عورت امورخانہ داری اوربچوں کی تربیت وحفاظت کی ذمہ دار ہے تومردان کی ضرورتوں کوپوراکرنے کے لیے کسب معاش کاذمہ دارہے ،عورت کے ذمہ مردکی خدمت واطاعت ہے تو مردکے ذمہ عورت کے اخراجات وانتظام،اسلام نے عورت کواس کی فطری کمزوریوں کی وجہ سے معاشی جھمیلوں سے دوررکھاہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ عورت کے ساتھ ہرقسم کے حسن سلوک کاحکم دیاگیا۔حدیث شریف میں ارشادفرمایاگیا:تم میں سے سب سے بہتروہ ہے جس کاسلوک اپنی بیوی سے بہترہے ۔حقوق والدین کی بات کی گئی توباربارماں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں زیادہ تاکید کی گئی ،فرمایاگیاکہ: ماں حسن سلوک کی زیادہ حقدارہے ،جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔عورت اگرلڑکی ہونے کی حیثیت سے ہے تواسے بجائے بوجھ سمجھنے کے اس کی پرورش کواجروثواب کاباعث قرار دیا گیا۔ ارشاد فرمایا: جو شخص لڑکیوں کی کفالت کرے گا دوزخ کی آگ اس پرحرام ہوگی ۔فرمایا:جوشخص دوبیٹیوں کی بلوغت تک نگہداشت کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ اتناقریب ہوگا جیسے ہاتھ کی دوانگلیاں قریب ہوتی ہیں ۔ فرمایا:عورتوں کی عزت وتکریم شرفاء کااوران کی اہانت وتحقیررذیلوں کاشیوہ ہے ۔ ان چندمختصراشارات سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جاہلیت اولیٰ کے نظریات ورسومات کوختم کرکے اسلام اورپیغمبراسلام نے عورت کاکس قدراونچامقام عطاکیا،حسن سلوک کی دیا،پرورش کرنے پرجنت کی بشارت اوررفاقت کی کوشخبری دی۔مگرآج پھر وہی جاہلیت کی رسومات کوزندہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ،تحریک آزادی نسواں ،حقوق نسواں ،مساواتِ مردوزن کے خوشنمانعروں کی صورت میں فتنے کھڑے کیے جارہے ہیں ،اوراسلام کے نظام عفت وعصمت کوتہ وبالاکرنے اس صنف نازک کودوبارہ اسی جاہلیت اولیٰ کی جانب لوٹانے کی سعی مذموم کی جارہی ہے ، اور مقصودیہ ہے کہ مسلمانوں کی یہ شرافت مآب دولت اورقیمتی خزانہ دوبارہ گھرکی دہلیزاورچاردیواری سے باہرنکل کرعالَم کے لیے تماشہ بن جائے ،رونقِ خانہ بننے کے بجائے شمع محفل ہو،اورمختلف مقامات پر،اسٹیجوں پربھٹکتی ہوئی رسواہوتی ہوئی،مشقتیں اورمصیبتیں اٹھاتی ہوئی مردوں کی نشاطِ طبع کاسامان بن جائے ۔یادرکھاجائے کہ اسلام اورقرآن عورت کے حقوق کامحافظ ہے ۔قرآن کریم کی مذکورہ بالاآیت کریمہ جس میں مردوں کے حقوق کے ساتھ عورتوں کے حقوق کاتذکرہ ہے ،اس آیت کریمہ کے ذیل میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ نے نہایت عمدہ اورجامع تفسیرلکھی ہے ،مناسب معلوم ہوتاہے کہ یہاں اس کاایک اقتباس قارئین ملاحظہ فرمائیں :”اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں تمام دنیا کی اقوام میں عورت کی حیثیت گھریلو استعمال کی اشیاء سے زیادہ نہ تھی، چوپاؤں کی طرح اس کی خرید وفروخت ہوتی تھی، اس کو اپنی شادی بیاہ میں کسی قسم کا کوئی اختیار نہ تھا، اس لئے اولیاء جس کے حوالے کردیتے وہاں جانا پڑتا تھا، عورت کو اپنے رشتہ داروں کی میراث میں کوئی حصہ نہ ملتا تھا بلکہ وہ خود گھریلو اشیاء کی طرح مالِ وراثت سمجھی جاتی تھی وہ مردوں کی ملکیت تصور کی جاتی تھی، اس کی ملکیت کسی چیز پر نہ تھی اور جو چیزیں عورت کی ملکیت کہلاتی تھیں ان میں اس کو مرد کی اجازت کے بغیر کسی قسم کے تصرف کا کوئی اختیار نہ تھا ،ہاں اس کے شوہر کو ہر قسم کا اختیار تھا کہ اس کے مال کو جہاں چاہے اور جس طرح چاہے خرچ کر ڈالے ، اس کو پوچھنے کو بھی کوئی حق نہ تھا یہاں تک کہ یورپ کے وہ ممالک جو آج کل دنیا کے سب سے زیادہ متمدن ملک سمجھے جاتے ہیں ان میں بعض لوگ اس حد کو پہنچے ہوئے تھے کہ عورت کے انسان ہونے کو بھی تسلیم نہ کرتے تھے ۔عورت کے لئے دین ومذہب میں بھی کوئی حصہ نہ تھا نہ اس کو عبادت کے قابل سمجھا جاتا تھا نہ جنت کے ۔ روما کی بعض مجلسوں میں باہمی مشورہ سے یہ طے کیا گیا تھا کہ وہ ایک ناپاک جانور ہے جس میں روح نہیں ، عام طور پر باپ کے لئے لڑکی کا قتل بلکہ زندہ درگور کردینا جائز سمجھا جاتا تھا بلکہ یہ عمل باپ کے لئے عزت کی نشانی اور شرافت کا معیار تصور کیا جاتا تھا ،بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ عورت کو کوئی بھی قتل کردے نہ تو اس پر قصاص واجب ہے نہ خوں بہا، اور اگر شوہر مرجائے تو بیوی کو بھی اس کی لاش کے ساتھ جلا کر سَتِی کردیاجاتا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے بعد اور آپ کی نبوت سے پہلے ۵۸۶ء میں فرانس نے عورت پر یہ احسان کیا کہ بہت سے اختلافات کے بعد یہ قرارداد پاس کی کہ عورت ہے تو انسان مگر وہ صرف مرد کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ۔الغرض پوری دنیا اور اس میں بسنے والے تمام اقوام ومذاہب نے عورت کے ساتھ یہ برتاؤ کیا ہوا تھا کہ جس کو سن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس بیچاری مخلوق کے لئے نہ کہیں عقل ودانش سے کام لیا جاتا تھا نہ عدل وانصاف سے ۔قربان جائیے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین حق کے جس نے دنیا کی آنکھیں کھولیں ، انسان کو انسان کی قدر کرنا سکھلایا، عدل وانصاف کا قانون جاری کیا ،عورتوں کے حقوق مردوں پر ایسے ہی لازم کئے جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں ،اس کو آزاد وخودمختار بنایا، وہ اپنی جان ومال کی ایسی ہی مالک قراردی گئی جیسے مرد، کوئی شخص خواہ باپ دادا ہی ہو بالغ عورت کو کسی شخص کے ساتھ نکاح پر مجبور نہیں کرسکتا اور اگر بلا اس کی اجازت کے نکاح کردیا جائے تو وہ اس کی اجازت پر موقوف رہتا ہے ، اگر نامنظور کردے تو باطل ہو جاتا ہے ،اس کے اموال میں کسی مرد کو بغیر اس کی رضا واجازت کے کسی تصرف کا کوئی حق نہیں شوہر کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد وہ مختار ہے ،کوئی اس پر جبر نہیں کرسکتا، اپنے رشتہ داروں کی میراث میں اس کو بھی ایسا ہی حصہ ملتا ہے جیسا لڑکوں کو، اس پر خرچ کرنے اور اس کے راضی رکھنے کو شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام نے ایک عبادت قرار دیا، شوہر اس کے حقوق واجبہ ادا نہ کرے تو وہ اسلامی عدالت کے ذریعہ اس کو اداء حقوق پر ورنہ طلاق پر مجبور کرسکتی ہے ۔عورتوں کو مردوں کو سیادت اور نگرانی سے بالکل آزاد کردینا بھی فسادِ عالم کا بہت بڑا سبب ہے ،عورت کو اس کے حقوق مناسبہ نہ دینا ظلم وجور اور قساوت وشقاوت تھی جس کو اسلام نے مٹایا ہے ، اسی طرح ان کو کھلے مہار چھوڑ دینا اور مردوں کی نگرانی وسیادت سے آزاد کردینا اس کو اپنے گذارے اور معاش کا خود متکفل بنانا بھی اس کی حق تلفی اور بربادی ہے نہ اس کی ساخت اس کی متحمل ہے اور نہ گھریلو کاموں کی ذمہ داری اور اولاد کی تربیت کا عظیم الشان کام جو فطرۃ اس کے سپرد ہے وہ اس کا متحمل ہے ۔علاوہ ازیں مردوں کی سیادت ونگرانی سے نکل کر عورت پورے انسانی معاشرہ کے لئے خطرہ عظیم ہے جس سے دنیا میں فساد وخوں ریزی اور طرح طرح کے فتنے پیدا ہونا لازمی اور روز مرہ کا مشاہدہ ہے ،اس لئے قرآن کریم نے عورتوں کے حقوقِ واجبہ کے بیان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃ یعنی مردوں کا درجہ عورتوں سے بڑھا ہوا ہے اور دوسرے لفظوں میں یہ کہ مرد ان کے نگران اور ذمہ دار ہیں ۔مگر جس طرح اسلام سے پہلے جاہلیت اُولیٰ میں اقوام عالم سب اس غلطی کا شکار تھیں کہ عورتوں کو ایک گھریلو سامان یا چوپایہ کی حیثیت میں رکھا ہوا تھا اسی طرح اسلام کے زمانہ انحطاط میں جاہلیت اُخرٰی کا دور شروع ہوا اس میں پہلی غلطی کا رد عمل اس کے بالمقابل دوسری غلطی کی صورت میں کیا جارہا ہے کہ عورتوں پر مردوں کی اتنی سیادت سے بھی چھٹکارا حاصل کرنے اور کرانے کی سعی مسلسل جارہی ہے جس کے نتیجے میں فحش وبے حیائی عام ہوگئی دنیا جھگڑوں اور فساد کا گھر بن گئی قتل وخوں ریزی کی اتنی کثرت ہوگئی کہ جاہلیت اُولیٰ کو مات دے دیا،عرب کا مشہور مقولہ ہے : الجاھل امامفرط او مفرط (یعنی جاہل آدمی کبھی اعتدال پر نہیں رہتا اگر افراط یعنی حد سے زیادہ کرنے سے باز آجاتا ہے تو کوتاہی اور تقصیر میں مبتلا ہو جاتا ہے ) یہی حال اس وقت ابنائے زمانہ کا ہے کہ یا تو عورت کو انسان کہنے اور سمجھنے کے لئے بھی تیار نہ تھے اور آگے بڑھے تو یہاں تک پہنچے کہ مردوں کی سیادت ونگرانی جو مردوں عورتوں اور پوری دنیا کے لئے عین حکمت ومصلحت ہے اس کا جوا بھی گردن سے اُتارا جارہا ہے جس کے نتائج بد روزانہ آنکھوں کے سامنے آرہے ہیں اور یقین کیجئے کہ جب تک وہ قرآن کے اس ارشاد کے سامنے نہ جھکیں گے ایسے فتنے روز بڑہتے رہیں گے ۔آج کی حکومتیں دنیا میں قیام امن کے لئے روز نئے نئے قانون بناتی ہیں اس کے لئے نئے نئے ادارے قائم کرتی ہیں کروڑوں روپیہ ان پر صرف ہوتا ہے لیکن فتنے جس چشمے سے پھوٹ رہے ہیں اس کی طرف دہیان نہیں دیتیں ، اگر آج کوئی کمیشن اس تحقیق کے لئے بٹھایا جائے کہ فساد وخوں ریزی اور باہمی جنگ وجدل کے اسباب کی تحقیق کرے تو خیال یہ ہے کہ پچاس فی صد سے زائد ایسے جرائم کا سبب عورت اور اس کی بے مہار آزادی نکلے گی مگر آج کی دنیا میں نفس پرستی کے غلبہ نے بڑے بڑے حکماء کی آنکھوں کو خیرہ کیا ہوا ہے خواہشات نفسانی کے خلاف کسی مصلحانہ قدغن کو گوارا نہیں کیا جاتا”۔اللہ تعالیٰ ہمارے قلوب کو نور ایمان سے منور فرمائیں اور اپنی کتاب اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر پورا عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں کہ وہی دنیا وآخرت میں سرمایہ سعادت ہے ۔