... loading ...
آج کل والدین کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بچوں کے نام رکھنا نظر آتا ہے۔ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے بچے کا نام منفرد ہی نہیں نیا بھی ہو کسی نے پہلے نہ سنا ہو کم از کم اپنے خاندان اور ملنے والوں میں کسی کے بچے کا یہ نام پہلے نہ رکھا گیا ہو۔۔ کھیلوں اور شوبز سے وابستہ افراد کے نام پر بچوں کا نام رکھنے کا رجہان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ کچھ والدین ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں کرداروں کے نام سن کے اپنے بچوں کے نام رکھ دیتے ہیں بھارتی ڈراموں کے زیر اثر کچھ والدین نے بھارتی نام رکھنے شروع کر دیئے ہیں تاہم اس کا رجہان ابھی اتنا زیادہ نہیں ہوا ہے۔ ٹی وی فلم انٹرنیٹ سوشل نیٹورکنگ کے دور میں بچوں کے منفرد نام رکھنا کچھ آسان تو ہوا ہے لیکن اکثر والدین کو علم ہی نہیں ہوتا کہ اپنے بچے کا جو نام وہ رکھ رہے ہیں اس کا مطلب کیا ہے۔ وہ کس زبان سے آیا ہے۔ لوگوں کو صرف نام کے جدید اور منفرد ہونے سے مطلب ہوتا ہے نام کا مطلب کیا ہے اس سے والدین کو کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ نام نہ صرف کسی شخصیت کا پہلا تعارف ہوتا ہے بلکہ انسانی شخصیت اور کردار پر اس کے گہرے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں ۔
اسم باری تعالیٰ اللہ تعالیٰ انتہائی یکتا اور بے مثل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس کائنات و موجودات کو پیدا فرمایا بلکہ اس کائنات کو حسن و خوبصورتی اور توازن کے اعلیٰ ترین درجے پر تخلیق فرمایا اور پھر ان سب سے اعلیٰ نمونہ تخلیق انسان کو بنایا اور پھر اس انسان کو سب سے خوبصورت نام آدم سے نوازا۔۔ انسانی فطرت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر چیز میں حسن و جمال کو پیش نظر رکھا جائے اس لیے کہ اللہ پاک نے انسان کو بہترین ساخت اور عمدہ تخیل عطا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَد خَلَقنَا الاِنسَا نَ فِی اَحسَنِ تَقوِیم ’’ ہم نے انسان کو بہترین نمونے پر تخلیق کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو علم الاسما یعنی ناموں کا علم عطا فرمایا۔ اللہ تعالٰی نے آدم کو تمام ناموں کا مکمل علم دیکر فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔مفسرین نے لکھا ہے کہ اسماء سے مراد مسمیات (اشخاص و اشیاء ) کے نام اور ان کے خواص و فوائد کا علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعے حضرت آدم علیہ السلام کو سکھلا دیا۔
نام ہی کسی انسان کی شخصیت کا پہلا تعارف ہوتا ہے لہٰذا والدین کا فرض بنتا ہے کہ اپنے بچوں کے اچھے اور با معنی نام رکھیں ۔ اچھے نام اچھی علامت کا مظہر ہوتے ہیں اور اچھے نام اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں ۔ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے اچھے نام رکھنے اور بْرے ناموں سے گریز کی تلقین فرمائی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ کو دو نام بہت پسند ہیں اور وہ دو نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں اس لیے یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ نام خوبصورت با معنی اور ہر لحاظ سے جامع ہو اور پکارتے وقت پورا نام پْکارا جائے۔ نبی کریم ﷺاچھے نام رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ بلکہ نام میں اگر معنوں میں اچھائی نہ ہو یا اس میں شبہہ ہو تو اسے بدل دیا کرتے تھے۔ حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کا نام ’’ برۃ ‘‘ تھا جس کے معنی نیکوکار ہیں ۔ رسول اکرم ﷺ نے ان کا نام اس لیے تبدیل فرما دیا کہ اس میں اپنی تعریف کا پہلو نکلتا ہے۔ اسکی وجہ سے نفس کہیں دھوکہ نہ دے دے ، لہٰذا آپ کا نام زینب رکھا۔
اسی طرح ایک صحابی کا نام ’’ حزن ‘‘ تھا۔ رسول اکرم ﷺ نے ان کا نام اس لیے بدل دیا کہ اس کے معنیٰ سخت زمین ہیں اور’’ سہیل ‘‘ نام رکھ دیا۔ جس کے معنیٰ نرم ہونے کے ہیں ۔ رسول اکرم ﷺ اچھے نا م سن کر خوش اور اس کے اثرات کے متمنی ہوتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر معاملہ الجھا ہوا تھا، قریش کی جانب سے ثالثی کے لیے سہیل آئے تو حضور اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کون ہیں ۔ بتایا گیا کہ سہیل ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے معاملے کو آسان کر دیا اور پھر انہی سہیل کے ذریعے صلح حدیبیہ کا تاریخ سازمعاہدہ ہوا جس کو اللہ تعالیٰ نے فتح مبین قرار دیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ والد بنے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچ کرخوشخبری سنائی۔ بنی کریم ﷺنے بچے کا نام دریافت فرمایا۔ حضرت علی نے بتایا حرب یعنی جنگ۔ نبی کریم ﷺنے حرب نام بدل کر حسن یعنی صلح رکھ دیا۔ تاریخ بتاتی ہے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے دو دھڑوں کے درمیان صلح کروائی۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ صحیح اور درست نام نہ رکھنے سے بچے کی شخصیت پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے نام ایسا رکھنا چاہئے کہ جب بچہ بڑا ہو تو اسے اپنے نام پر فخر محسوس ہو اور فخر اسی وقت محسوس ہوگا جب اسکا اچھا اسلامی نام رکھا جائے گا۔