وجود

... loading ...

وجود

دنیا بھر میں خواتین کاکردار بڑھ رہاہے

پیر 23 اکتوبر 2017 دنیا بھر میں خواتین کاکردار بڑھ رہاہے

پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق، دنیا بھر میں 15 خواتین بر سرِ اقتدار ہیں جن میں سے 8 اپنے ملک کی پہلی خاتون رہنما ہیں۔جن میں برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے اور جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل اپنی سیاست اور سفارتکاری کے اعتبار سے اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد اور میانمار کی سربراہ آنگ سان سوچی اپنی سفاکی ، بے رحمی اور اسلام دشمنی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں،پوری دنیا میں صرف خواتین بر سرِ اقتدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خواتین رہنما اقوام متحدہ کی 193 رکن ریاستوں میں سے 10 فیصد سے کم کی نمائندگی کر رہی ہیں۔امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں چاروں شانے چت ہونے والی امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے جولائی 2016 میں ڈیموکریٹس کی نامزدگی کے بعد کہاتھا کہ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ہم نے روایتی بندھنوں کو توڑنے کے لیے ایک اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ ہوسکتاہے کہ امریکی انتخابات کے دوران لڑکیوں میں کوئی رات دیر تک یہ دیکھنے کے لیے جاگ رہی ہوکہ میں اگلی خاتون صدر بن سکتی ہوں ، لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اگلی اان میں سے کوئی ایک ہو گی’۔
یاوٹس سینٹر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ نیو یارک شہر میں اس کی سب سے بڑی شیشے کی چھت ہے، اور امریکہ کی تاریخ میں پہلی خاتون صدر بننے کے لیے یہ بہترین انتظام تھا۔لیکن ہیلری کلنٹن کی شکست نے رجحان کو بدلنے نہیں دیا، گذشتہ ایک دہائی میں عالمی سطح پر منتخب شدہ برِسر اقتدار خواتین کی تعداد دگنی ہو چکی ہے۔ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ایسی خواتین جنھیں خاتون رہنما میسر ہیں ان کی امنگیں زیادہ ہیں۔تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر منتخب خواتین بلاشبہ روایات اورروایتی بندھنوں کو توڑ رہی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے ملکوں کی دیگر خواتین کو ساتھ لے کر چل رہی ہیں؟ بھارت کی مقامی حکومتوں میں سیاسی کوٹے کے نظام سے اس بارے میں کوئی اندازہ لگایاجا سکتا ہے یا اس حوالے سے اندازہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔ 1993 سے اب تک، بے ترتیب انداز میں منتخب شدہ 3 میں سے ایک بھارتی گاؤں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ خاتون کے لیے چیف کونسلر کا عہدہ مخصوص کرے جو کہ قدرتی طور پر ایک سماجی تجربہ ہے۔
2012 میں ہزاروں انڈین نوجوانوں اور ان کے والدین پر کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ خاتون رہنما اور گاؤں کی نوجوان خواتین کی اولین خواہشات کا باہمی تعلق ہے۔جب والدین سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لحاظ سے کیا چاہتے ہیں، اس عمر میں جب ان کا پہلا بچہ ہوا اور جب اس کی ملازمت کے امکانات پیدا ہوئے تو زیادہ تر والدین نے اپنے بیٹوں کے لیے اعلیٰ خواہشات کا اظہار کیا۔لیکن ایک بار جب گاؤں میں خاتون رہنما دو انتخابی مدتیں پوری کر چکی تو والدین کی لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ‘خواہشات کا فرق’ ان لوگوں کے مقابلے میں جنھیں خاتون کی رہنمائی میسر نہیں رہی، کم ہو کر 25 فیصد رہ گیا ہے۔خود نوجوانوں کے لیے بھی، یہ صرف 32 فیصد ہو گیا۔ جب خاتون نگران تھیں تب بھی لڑکوں سے توقعات کم نہ ہوئیں، لہٰذا یہ معمولی فرق لڑکیوں کے لیے بہترین خواہشات سے مجموعی طور پر کم ہی رہا ہے۔
اس تحقیق کے مصنف کے مطابق خواتین رہنماؤں کو پالیسی کے ذریعے عورتوں کے حالات بدلنے کی محدود گنجائش حاصل رہی ہے۔ لیکن مثبت کردار کے نمونے کے طور پر ان کی موجودگی ان کے ارد گرد نوجوان خواتین کی خواہشات اور تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کافی تھی۔
2012 میں کی گئی ایک سوئس تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ مثالی شخصیت، خواتین کے رویے پر اثر انداز ہوتی ہے جب وہ قیادت کرنے کی صورتحال سے گزرتی ہیں، چاہے وہ مثالی شخصیت ان سے دور ہو۔تحقیق کے مصنف نے لڑکوں اور لڑکیوں کو ورچوئل ریالٹی کے حامل ماحول میں چار مختلف گروپوں کی شکل میں تقریر کرنے کی دعوت دی۔ ایک کو جرمن چانسلر اینگلا مرکل کی تصویر دیوار پر نظر آئی، ایک گروپ کو ہیلری کلنٹن (اس وقت وہ وزیر خارجہ تھیں)، ایک کو دیوار پر بل کلنٹن دکھائی دیے اور ایک کو سرے سے کوئی تصویر نہیں دکھائی گئی۔
لڑکیوں نے مرد سیاست دان یا کسی بھی مثالی شخصیت کی غیر موجودگی کے مقابلے میں، کامیاب خاتون سیاست دان کے سامنے نمایاں طور پر زیادہ لمبی تقریر کی۔ اور جتنی زیادہ لمبی تقریر کی انھوں نے اپنی اتنی ہی زیادہ مثبت درجہ بندی کی۔سوئس تحقیق کے مصنف نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ‘یہ صرف خواتین سیاست دانوں کی تعداد میں اضافہ نہیں بلکہ یہ مساوات کا ہدف بھی ہے، یہ وہ انجن بھی ہو سکتا ہے جس کے ذریعے یہ مقصد حاصل ہو۔‘
یہ اعداد و شمار اس تصور کو تقویت بخشتے ہیں کہ سیاسی کرداروں میں خواتین کی صرف موجودگی کو روزمرہ کی زندگی میں وسیع مساوات سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔عالمی اقتصادی فورم نے اپنی ‘گلوبل جینڈر گیپ’ نامی رپورٹ میں چار کلیدی عناصر کی بنیاد پر درجہ بندی کی ہے جس میں صحت اور بقا، تعلیم کا حصول، معیشت میں شرکت اور سیاست میں شمولیت شامل ہیں۔سنہ 2016 میں آئس لینڈ، فِن لینڈ اور ناروے وہ ممالک تھے جن کا مجموعی صنفی فرق کم ترین سطح پر تھا اور وہاں سیاست میں عورتوں کی شمولیت کا بھی زیادہ امکان تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان ممالک میں جہاں خواتین کو سیاست میں نمائندگی ملتی ہے وہاں وہ زیادہ بہتر انداز میں کام کرتی ہیں۔خواتین رہنماؤں اور ان کی خواتین ہم منصبوں کی زندگی کے حالات میں بہتری کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم کرنا مشکل ہے۔یہ جزوی بات ہے کیونکہ گذشتہ صدی میں تقریباً ہر ملک میں صنفی مساوات بہت بہتر ہوئی ہے، قطع نظر اس کے کہ وہاں خاتون رہنما رہی ہیں یا نہیں۔اس کے علاوہ، کئی خواتین کو حال ہی میں منتخب کیا گیا یا پھر وہ کم عرصے تک ہی رہنمائی کر سکیں اس لیے ان کی پالیسیوں کے براہ راست اثرات کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔البتہ، جو ثبوت ہمارے پاس ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو خواتین روایتی بندھنوں کو توڑ سکیں انھوں نے اپنی ہم وطنوں کی اْمنگوں میں اضافہ کیا۔ اور ان کے ملکوں میں خواتین کے لیے بہتر معیار زندگی کے امکانات بھی روشن ہوئے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں زرعی شعبے میں اوسطً 43 فیصد افرادی قوت خواتین پر مشتمل ہے اور ماہرین کے خیال میں گذشتہ دو دہائیوں میں زرعی شعبے میں خواتین کے کام کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے برائے خوراک و زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق اس بات کے ’واضح شواہد‘ موجود ہیں کہ زراعت میں خواتین کا کردار بڑھا ہے کیونکہ خواتین کے اس شعبے میں آنے کے بعد مرد زرعی شعبے میں اب نوکریاں نہیں کر رہے ہیں۔بین الاقوامی ادارہ محنت کے اعداد و شمار کے مطابق اقتصادی طور پر سرگرم خواتین کی ایک چوتھائی تعداد زرعی شعبے سے منسلک ہیں۔گو کہ ان اعداد و شمار میں علاقائی طور پر فرق پایا جاتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ملازمت فراہم کرنے میں زرعی شعبے کا اہم کردار ہے لیکن امیر اور غریب ممالک میں یہ شرح مختلف ہے کیونکہ امیر ممالک میں مرد و خواتین صنعتوں اور خدمات کے شعبوں میں ملازمت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔پھر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ زرعی شعبے میں خواتین کا کردار کہاں بڑھا ہے؟یہ رجحان سب سے زیادہ شمالی افریقہ میں دیکھنے کو ملا جہاں زراعت میں خواتین کا کردار 30 فیصد سے بڑھ کر 43 فیصد ہو گیا ہے۔ ایسے ہی رجحانات مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا، لاطینی امریکہ میں دیکھنے کو ملے۔ جبکہ نیم صحرائی افریقی علاقوں میں زرعی شعبے میں خواتین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ تین دہائیاں قبل یہاں زراعت میں خواتین مزدوروں کی تعداد میں 60 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے خیال میں یہاں پہلے سے ہی خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کاشتکاری میں خواتین کا بڑھتا ہوا کردار مثبت اقدام ہے۔ کچھ خواتین خود اپنی زمینوں پر کاشتکاری کرتی ہیں تو کچھ کسی اور کی زمین پر ملازمت کرتی ہے۔گو کہ خواتین کے اس بڑھتے ہوئے کردار کا مطلب خواتین کا با اختیار ہونا ہر گز نہیں ہے بلکہ اس کی اہم وجہ مردوں کا ہجرت کر کے دوسری جگہ جانا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں میں بہتر مواقعوں کی تلاش کے لیے شہری علاقوں کا رخ کرنے کا رجحان زیادہ ہے۔ اس لیے جو خواتین پیچھے رہ جاتی ہیں انھیں اکثر زمینوں پر زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔زرعی شعبے کی افرادی قوت میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے لیکن اْن کی ملازمت کی نوعیت اکثر غیر واضح ہوتی ہے۔ خواتین اکثر اوقات جز وقتی ملازمت کرتی ہیں۔
عالمی بینک کے تجزیے کے مطابق تنخواہ دار خواتین کی ملازمتوں میں بھی زیادہ تر نوکریاں مزدوری یا کم ہنر مندی کی ہوتی ہیں۔ انتظامی طور پر موجود محدود آسامیوں پر زیادہ تر مرد کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر خواتین کاشت کاری کرتی ہیں تو مارکیٹنگ اور رقم وصولی کی ذمہ داری مردوں کی ہی ہوتی ہے۔دیہی علاقوں میں پانی بھرنے اور ایندھن جمع کرنے کا کام بھی عورتیں کرتی ہیں۔تاہم دستیاب شواہد کے مطابق اکثر خواتین کی تنخواہ مردوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صنف کے لحاظ سے آمدن میں فرق ہے اور 14 ممالک میں خواتین کی اوسطً تنخواہیں مردوں کے مقابلے میں 28 فیصد کم ہیں۔ماہرین کے خیال میں تنخواہوں کے اس فرق کاسبب’پیداوار کا فرق’ ہے اور ترقی پذیر ملکوں میں خواتین کاشتکاروں کی پیداوار اوسط پیدوار سے 20 سے 30 فیصد کم ہے اور کم پیداوار کا الزام خانگی امور کی ذمہ داری ادا کرنے پر عائد کیا جاتا ہے۔
یف اے او کا کہنا ہے کہ کئی معاشروں میں گھر بار سنھبالنا اور بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ دار خواتین ہوتی ہیں اور دیہی علاقوں میں پانی لانا، ایندھن جمع کرنے کا کام بھی عورتیں کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے آمدن کمانے والے ذرائع میں اْن کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ایف اے او کی پروگرام اسسٹنٹ ماریہ لوئیس کے مطابق ‘خواتین کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ روایات کو چیلنج کریں۔’ماہرین کا کہنا ہے کہ فوڈ پراسیسنگ اور دوسرے ویلیو ایڈیشن سے معاشرے میں صنفی عدم مساوات کم کی جا سکتی ہے۔ماہرین کاخیال ہے کہ زراعت میں خواتین کی ملازمتیں بڑھنے سے کافی فائدہ ہوا ہے۔ اس حوالے مالی کی ایک
28 سالہ خاتون تھیرراکاحوالہ دیاجاتاہے وہ کہتی ہیں کہ ‘آج میں کم کاروبار والے سیزن کے بارے میں زیادہ پریشان نہیں ہوں۔ اب ہم نئی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جو ہمیں زیادہ مضبوط بناتی ہیں‘۔یہ خاتون اْن خواتین میں شامل ہیں جنھیں ایف اے او کی جانب سے ’خصوصی زرعی کِٹس’ ملی ہیں جس میں مٹر، باجرہ اور اعلیٰ معیار کی سبزیوں اور پھلوں کے بیج شامل ہیں۔اس نئی تکنیک کی مدد سے مالی کی خواتین اْن اوقات میں آمدنی حاصل کر سکتی ہیں جب اْن کے شوہر ملازمت کے لیے علاقے میں موجود نہیں ہوں گے۔تھیررا نے کہا کہ ‘آئندہ آنے والے مہینوں کے لیے ہمارے پاس اضافی خوراک موجود ہے‘۔دنیا بھر میں کئی تنظمیں اور این جی اوز ایسی تکنیکیں متعارف کروا رہی ہیں جس میں محنت کم کی جائے اور خواتین کو قرضے فراہم کیے جائیں۔ یہ دونوں عناصر چیزوں کو مثبت طور پر بدل کر رکھ سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کو سماجی طور پر با اختیار بنانے کے لیے زمین کے ملکیت بہت اہم ہے اور ترقی پذیر ممالک میں خواتین اور مردوں میں جائیداد کی ملکیت کے قوانین مختلف ہیں۔شواہد کے مطابق کوئی بھی شخص زمین کی ملکیت اور اْس پر کاشتکاری سے بہت با اختیار ہوتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پالیسی میں تبدیلی تو آغاز ہے لیکن زیادہ توجہ سماجی روایات پر دینا ہو گی جو خواتین کو وراثت میں حق دینے کیخلاف ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے میں زیادہ خواتین کے کام کرنے سے کسی حد تک معاشرے میں صنفی عدم توازن تو کم ہو گا لیکن اس کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔


متعلقہ خبریں


پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا وجود - هفته 23 نومبر 2024

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات وجود - هفته 23 نومبر 2024

لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے وجود - هفته 23 نومبر 2024

پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ وجود - هفته 23 نومبر 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر