... loading ...
مسئلہ یہ نہیں کہ فکری اباحیت پسند ہماری قومی زندگی کو اپنی تحویل میں لینا چاہتے ہیں ۔مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ناقص تصورات اور زندگی کے معانی پر تصرف کو ایک اُصول کے طور پر تسلیم بھی کرا لینا چاہتے ہیں۔ اپنی خاروخس اور خوار وخجل حیات کو ہمارا قومی چلن بنا دینا چاہتے ہیں۔ لعنت ، لعنت اور لعنت ایسی فکر پرجس میں زندگی کے کوئی معنی ہی نہیں ، جس میں تاریخ کا کوئی ادراک نہیں، جس میں شعور کی کوئی چمک نہیں۔ پھٹکار، پھٹکار اور پھٹکار ایسی تاویلات پر جو دل ودماغ سے نہیں معدے اور تبخیر سے پیداہوتی ہیں۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پاکستانی سیاست پر غیر یقینی کے بادل چھا رہے ہیں۔ قومی ریاستوں کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ اس میں یہ بادل گھِر گھِر کر آتے ہیں۔ ترقی یافتہ ریاستوں کو بھی اس سے کوئی فرار نہیں۔ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت ہے اور اس کے سیاسی اُفق پر کالی گھٹائیں ہر وقت چھائی رہتی ہیں۔ برطانیا قبل ازوقت انتخابات کا منہ دیکھنے کے باوجود دوبارہ غیریقینی کی ایسی ہی کیفیت میں مبتلا ہے۔ شمالی کوریا کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرات نے جاپان کو قبل ازوقت انتخابات کی راہ سجھادی، جہاں گزشتہ روز (اتوارکو) وزیراعظم شنزو آبے نے ملک میں سماجی تحفظ کے نظام کو متوازن کرنے کی خاطر ایک نئے انتداب (مینڈیٹ) کے لیے ووٹ ڈالنے کا ڈول ڈال دیا۔ بھارتی ریاستوں میں بھی سیاسی نظام کے حوالے سے ایسی خبریں روزانہ منظرعام پر آتی رہتی ہیں۔ مگر ترقی پزیر یا ترقی یافتہ کوئی بھی ریاست ہو، وہاں اس ماحول کی تعبیر ایسے نہیں کی جاتی جیسے ہمارے ہاں ہوتی ہے۔ پھر اس پر مستزاد یہ ’’دانشور‘‘دوسروں کی دانش پر سوال اُٹھا کر بات کرنے کی ہمت بلکہ بے حیائی اور ڈھٹائی بھی دِکھاتے ہیں۔درحقیقت قومی ریاستوں کا موجودہ ڈھانچہ ریاستوں کے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ہونے کے امتیاز کے بغیر اسی نوع کے فطری حالات سے جڑا اور آلودہ ہے جہاں سیاسی حالات غیر یقینی کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ اِسے کارپوریٹ جمہوریت کے تصور کا بھی ایک ہیجان نما مرض لاحق ہے۔ جس میں کشمکش لازمی ہے۔ کیونکہ یہ آدرش پر نہیں نفع ونقصان سے جڑی جمہوریت ہوتی ہے۔ جس میں عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے جمہوریت کے آدرش تصور کا سہارا لیا جاتا ہے مگر جس کی کارگزاری عملاً’’ کارپوریشنز ‘‘ کے مفادات سے وابستہ رہتی ہے۔ یہ بات ابھی کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلیت اور بدعنوانی کے مقدمات کا معاملہ جمہوریت سے کیوں جوڑ دیا گیا؟ بھئی کارپوریٹ جمہوریت آخر ہوتی کیا ہے؟ یہی تو ہوتی ہے۔ جس میں خطرہ کارپوریشنز کوہوتا ہے اور اِسے پھیلا کو عوامی بنا دیا جاتا ہے۔ بس یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ اس جمہوریت میں عوام دراصل منڈی کی مخلوق ہے۔ اس رشتے کے علاوہ اس کی توجیہہ کرنے والے ’’دانشور‘‘ دراصل خود بھی نفع ونقصان کے اس کاروبار میں شریک ہیں۔ یقین نہ آئے تو اُن کے ذاتی معاملات کو ٹٹول لیجیے۔
کارپوریٹ جمہوریت دراصل ترقی کے ایک ناقص بلکہ خطرناک تصور کے ساتھ بروئے کار آتی ہے۔ افسوس ناک طور پر مغربی ممالک جس ترقی سے اوبھ رہے ہیں ہمیںاُسے گلے لگانے بلکہ گلے کا طوق بنانے پر مجبورکیا جارہا ہے۔امریکا خطرناک ترقی کے اخلاقی نتائج بھگت رہا ہے۔ سابق امریکی صدر اوباما کو دوسری مرتبہ صدارتی انتخاب لڑنے پر پوچھا گیا کہ وہ کیوں دوسری بار صدر بننا چاہتے ہیں تو اُن کا جواب تھا کہ میری بیٹیاں اگلے برس اسکول سے کالج جانے والی ہیں، میںچاہتاہوں کہ اُنہیں زیادہ احساسِ تحفظ ملے۔ جناب یہ تحفظ اُنہیں ترقی یافتہ اسکول اور کالج میں لڑکیوں کے لیے پیدا ہونے والے مسلسل مسائل کے باعث درکار تھا۔ اس سنگینی کا ادراک موٹے پیٹوں کے لشکر کر ہی نہیں سکتے ،جنہوں نے اس پورے عمل میں حمیت بھی رہن رکھوادی ہے۔
نوازشریف کی رخصتی کو جو حضرات دانشورانہ سطح پر نظام سے جوڑ کر اِسے ترقی کے منفی مضمرات کا تناظر دے رہے ہیں، وہ دراصل قومی ریاستوں کی بناؤٹ، نظام کی حقیقت اور ترقی کے درست تصورمیں سے کسی ایک چیز سے بھی آشنا نہیں۔ پھر اُنہیں شکوہ بھی لوگوں کے دانش سے واجبی تعلق کا رہتا ہے۔ ارے بھائی!کارپوریٹ جمہوریت میں ترقی اور بدعنوانی کا ایک نامیاتی رشتہ ہے۔یہ دونوں ایک ماں کی سگی بیٹیاں ہیںاور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چلتی ہیں۔ پھر یہ ترقی انسانی ترقی کا نام نہیں بلکہ اس کا مطلب مختلف پراجیکٹس ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے انسانی ترقی کے ایک منصوبے کی فائل اُٹھا کر پھینک دی تھی جس میں پنجاب کے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو جاتے۔ اُنہوں نے کہا کہ دوارب روپے ایک ایسے پراجیکٹ میں کیسے جھونکے جائیں جس کی کوئی چمک دمک عوام کی نظر وں میں ہی نہیں آئے گی۔ مگر ہاں دانش اسکول گوارا کیے جائیں گے۔ کیونکہ اس میں اربوں روپے خرچ کرکے دکھائے جاسکتے ہیں۔ کیا اب کسی کو یہ پراجیکٹ یاد بھی رہا ہے، چہ جائیکہ اس کے نتائج کا کوئی گوشوارہ طلب کیا جائے۔کارپوریٹ جمہوریت میں ترقی کی ایک بیٹا جرم بھی ہے۔ جمہوریت میں ترقی کے ساتھ بدعنوانی اور جرائم جنم لیتے ہیں۔ امریکا تو کوئی ایسا ملک نہیں جہاں نظام( یا نظم) نہ ہو۔ پھر اُس ملک میں ترقی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ۔ امریکا میں ترقی اور نظم دونوں کا ماجرا یہ ہے کہ وہاں کسی بھی جگہ پر پولیس کو پہنچنے میں صرف تین منٹ لگتے ہیں۔ اس کے باوجود وہاں چھبیس لاکھ سے زائد افراد جیلوں میں ہیں۔ امریکا میں قیدیوں کی بڑھتی تعداد کے باعث جیلوں کا نظام بھی نجکاری کی نذر کیا جانے لگا ہے۔ نجی سطح پر قائم جیلوں سے سرکاری معاہدوں کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔ امریکا میں ترقی نے سماجی سطح پر سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا کردیا ہے کہ وہاں سالانہ پانچ لاکھ طلاقیں ہونے لگی ہیں۔
ترقی کوئی سیدھا سادہ تصور نہیں۔ اس کی ایک قیمت ہے۔ مگر کارپوریٹ جمہوریت سے مفادات سمیٹنے والے دانشور اِسے انسانی معراج کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اُنہیں اس امر کا بھی کوئی اندازا ہی نہیں کہ مغربی ممالک میں سنجیدگی سے اس امر پر غور ہو رہا ہے کہ اُنہیں اپنی ترقی کی رفتار میں ساٹھ فیصد کمی کردینے چاہئے۔یہ سوچ رکھنے والے مغربی دانشور پاکستانی دانشوروں کی طرح دہائیوں کے رٹے رٹائے فقروں ، پامال تصورات کی مجروح نکتہ آفرینیوں، گھٹیا لطیفوں اور چھچھوری مثالوں پر انحصار نہیں کرتے۔ بلکہ وہ ٹھوس اعداد وشمار ، روح عصر سے آگہی کی مشقت خیز مشق اور زمانے کے بہاؤ سے اُبھرنے والی قدرتی چال پر دھیان دیتے ہیں۔ امریکی مورخ جیرڈ ڈائمنڈ بھی اُن میں سے ایک ہے۔جو امریکا میں ترقی کے نقصانات پر غور کرتے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو اُن کی کتاب
’’Collapse:How Societies choose to Fail or succeed ‘‘ کا مطالعہ کرلیں۔ ترقی کا یہ پورا تصور دراصل منڈی کی بڑھوتری کا تصور ہے جس میں مسئلہ سماج کی اخلاقی ، علمی یا انسانی ترقی کا نہیں۔ بلکہ یہ دراصل اشیاء کی خرید وفروخت کی خانہ ساز ، خیالی اور فریبی ترقی ہے۔پاکستان میں 36فیصد افراد ایسے قرار دیے جاتے ہیں جو پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا پاتے۔مگر یہاں ترقی کی ترجیحات میں یہ مسئلہ کہیں شامل ہی نہیں، کیا یہ مزاق نہیں کہ جس شہر میں بچے سڑکوں اور رکشوں میں جنم لے رہے ہیں وہاں طبی ضروریات پر نہیں بلکہ بجلی کے منصوبوں کی لاگت اور موٹروے کے فیوض وبرکات پر بحث ہوتی ہے اور اِسے ترقی کا راستا قرار دیا جاتا ہے۔ کیا یہ مزاق نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی یا حادثات میں زخمیوں کو اُٹھانے کے لیے بھی ریاست کے پاس کوئی تسلی بخش نظام موجود نہیں، اسے ایدھی اور چھیپا جیسے نجی اور فلاحی اداروں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ریاست پاکستان اپنے شہریوں کو پینے کا پانی فراہم کرتی تھی ، مگر گزشتہ دودہائیوں میں وہ بہت تیزی سے اس سے دستبردار ہوگئی۔ کیونکہ کارپوریٹ جمہوریت میں پینے کا پانی ایک منافع بخش کاربار ہے۔کارپوریٹ جمہوریت نے پاکستان کو دراصل سرمایہ داروں کے تجارتی مقاصد کا خدمت گزار بنا کررکھ دیا ہے۔ اور اس میں پیدا ہونے والے خطرات کو وہ نظام کا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ ارے بھئی یہاں کون سا ایسا نظام ہے جو ایک عام آدمی کی فلاح کا کسی بھی موقع یا مرحلے پر خیال رکھتا ہو، جس کے لیے کوئی تکلیف اُٹھائی جائے۔نظام کا یہ بھاشن اور ترقی کا یہ چورن گنگا رام اسپتال کی راہداری میں جنم دینے والے بچے کی ماں کو چٹائیے، اگر وہ اس کے لیے تیار ہوجائے تو ہم بھی اِسے چاٹ لیں گے۔ابھی تو ہمارے پاس کہنے یا سننے کے لیے برٹرنڈ رسل کا ایک حوالہ ہے جو اُن کی کتاب ’’پاؤر۔اے نیو سوشل اینالسس‘‘ میں تحریر ہے کہ قدیم ادوار میں اکثر لوگ طلسمی طاقت حاصل کرنے کے لیے خود کو شیطان کے ہاتھوں فروخت کردیتے تھے۔ اب بھی یہی ہوتا ہے بس شیطان کی جگہ حکمران نے لے لی ہے۔حکمرانوں کے ہاتھوں یہ خود فروش گاڑی کو پٹری پر رکھنے کی بات نہیں کررہے بلکہ گاڑی کا پٹرا کرنے پر تُلے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭