... loading ...
سلمیٰ حسین
سندھ کے مشہور شہر تھرپارکر سے متصل بھارتی ریاست زین آباد 1919 میں قائم کیاگیا تھا۔کچھ مغربی بھارت کا ریگستانی علاقہ ہے جس کی سرحد پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر سے ملتی ہے۔ زین آباد اسی ریگستان میں ایک چھوٹی سی ریاست رہی ہے۔زین آباد کی جھیل پورے بھارت بلکہ برصغیر میں مشہور رہی ہے اس نہر میں دیسی اور بدیسی دونوں قسم کے پرندے پائے جاتے ہیں ۔
1919 میں زین خان نے اپنے بزرگوار کے وطن ڈاس ڈا کو خیرباد کہا اور احمد نگر کے سلطان کی دی ہوئی جاگیر اور 12 ہزاری منصب کے ساتھ کالادا گاؤں میں بودوباش اختیار کی۔ اپنے نام کی مناسبت سے جگہ کا نام زین آباد رکھا اور ایک چھوٹی سی ریاست کی شکل دی۔سالہا پہلے زین خان کے والد جھالا قبائلیوں کے ہاتھ ہلاک ہوئے اور ان کی ماں جاڈے جی نے اپنے بیٹے زین کو بہادری کی تعلیم دی اور باپ کے قاتلوں کو جہنم رسید کرنے کا قول لیا۔یہی وہ آگ تھی جس نے زین خان کو ایک جنگجو او بہادر انسان بنایا۔ جھالا قبائلیوں سے بدلہ لینے کے بعد وہ احمد آباد پہنچے اور احمد شاہ کی فوج میں شامل ہوئے۔ خطرناک ڈاکو رتن راج کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد زین خان کی بہادری کے چرچے ہر خاص وعام کی زبان پر تھے۔پھر سلطان کے فوجی معرکوں میں بہادری کے مظاہرے کے عوض 12ہزاری کا منصب اور کالادا کی جاگیر حاصل کی۔
زین خان ایک روشن دماغ سردار تھا۔ زین آباد کا ریگستانی علاقہ پانی کی قلت کے سبب نہ آگے بڑھ سکتا تھا اور نہ ہی لوگوں کی پیاس بجھا سکتا تھا۔ اس نے آس پاس کی زمینوں میں پائپ لائن بچھا کر پانی لانے کا منصوبہ بنایا لیکن گردو نواح کے راجاؤں نے زین خان کا ساتھ نہیں دیا۔زین خان کا 1923 میں انتقال ہو گیا لیکن اس قلیل عرصے میں انھوں نے زین آباد کو ترقی دینے کی کوشش کی اور ان کی ان کوششوں کے نتیجے میں اس چھوٹی سی ریاست نے قرب وجوار کے علاقوں میں امتیازی حیثیت حاصل کرلی جس کی وجہ سے قریبی گاؤں کے پیشہ ور لوگ ریاست زین آباد میں آکر بسنے لگے۔ زین خان کی موت نے ان کی اہلیہ پر شدید اثرات مرتب کیے اور چند ہی مہینوں میں وہ بھی2 لڑکوں کو چھوڑ کر اس جہاں سے کوچ کر گئیں ۔ عزیز خان اور حمید خان کی پرورش کی ذمہ داری انگریز ایجنٹ پر آ پڑی اور اس نے دونوں لڑکوں کو تعلیم و تربیت کے لیے ا سکاٹ لینڈ روانہ کر دیا اور جاگیر کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
عزیز خان کی واپسی تک انگریز نے جاگیر کا نظم و نسق ایماندری سے چلایا۔ عزیز خان کا وقت ریاستی کاموں اور شکار میں صرف ہوتا تھا۔ زین آباد کے پاس کے علاقوں میں بہترین شکار دستیاب تھا۔ لیکن عزیز خان بہت جلد اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ اس وقت ان کے بیٹے شبیر خان کی عمر صرف 3 سال تھی۔ عزیز خان کی بیگم زبیدہ نے بچے کی پرورش کے ساتھ جاگیر کے انتظامات کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا جو بیشتر لوگوں کی ناراضی کا سبب بنا اور وہ شبیر خان کے جان کے درپے ہو گئے۔ ان کی رہائش زیادہ تر بمبئی میں رہی۔
زین آباد ایک بنجر علاقہ ہے جہاں کپاس اور زیرے کی کاشت کے علاوہ کسی اور کاشت کا امکان لاحاصل تھا۔ جوار اور باجرہ کچھ حد تک ضروریات کو پورا کرتا تھا۔ زین آباد میں جھینگے کثیر تعداد میں پائے جاتے تھے اس لیے زین آباد کا ریاستی دسترخوان ہمیشہ جھینگوں کے مختلف پکوانوں سے سجا رہتا تھا۔ جھینگے کی بریانی، مسالہ جھینگا، جھینگا کری وغیرہ۔
زیرہ کا بگھار تقریباً تمام طرح کے کھانے کا لازمی جزو تھا۔ زین آباد میں نمک بنانے کا کام وسیع پیمانے پر شروع ہوا اور شبیر خاں کی مدد سے ترقی کرتا گیا۔ مزدوروں کی آنکھوں کی حفاظت کے لیے کالے چشمے اور پیروں کی حفاظت کے لیے جوتے کا انتظام تھا۔ اس زمانے میں تھر ریگستان سے آٹھ ماہ میں 150 لا کھ ٹن نمک حاصل ہوتا تھا۔زین آباد کے کھانوں میں جھینگے کی کثرت ہوتی ہے
شبیر خان انسان دوست ہونے کے ساتھ جانوروں سے بھی محبت کرتے تھے۔ ریگستان کے اطراف میں جنگلی جانور کثیر تعداد میں پائے جاتے تھے اور شکاریوں کا شکار ہو جاتے تھے۔ شبیر خاں نے جانوروں کے لیے پناہ گاہ بنائی اور جنگلی گدھوں کی حفاظت کا بھی انتظام کیااورزین آباد میں گدھوں کو جنگلی گدھوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
شبیر خان کے اکلوتے بیٹے دھن راج اپنے باپ سے اس معاملے میں دو قدم آگے نکلے۔ انھوں نے امریکہ کے چڑیا گھر سے چیتوں کی دیکھ بھال کی تربیت حاصل کی اور زین آباد لوٹ کر پناہ گاہ کو وسعت دی۔
زین آباد ملکی اور غیر ملکی چڑیوں کی بھی آماجگاہ ہے۔ ان کی چہچہاہٹ
سے زین آباد واقعی آباد ہے۔ زین آباد کا سفر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ وہاں روایتی کھانوں کا لطف اٹھایا جاسکتا ہے اور اب دھن راج نے سیاحت کے انتظامات پر بھی کافی توجہ دی ہے اور ریگستان میں خیموں کا میلہ لگا دیا ہے۔ اگرچہ زین آباد آج بھارت کاہی حصہ ہے اور بھارت کے پسماندہ ترین علاقے میں واقع ہے لیکن ریگستان میں واقع یہ ریاست آج بھی نخلستان کے نام سے جانی جاتی ہے اوردور دور سے لوگ پرندوں کے شکارکے لیے اس ریاست کارخ کرتے ہیں اور حسب منشا اور استطاعت شکار لے کر واپس جاتے ہیں ۔