وجود

... loading ...

وجود

مزید صوبوں کا قیام

جمعه 20 اکتوبر 2017 مزید صوبوں کا قیام

نئے صوبوں کے قیام پر کسی باشعور شخص کو کبھی بھی اختلاف نہیں رہا ہے ۔مگر صوبے انتظامی بنیادوں پر بننے چاہئیں نہ کہ قومیت پرستی ،علاقائی یا لسانی بنیادوںپر۔قومیت پرستی کا ناسور تو پاکستا ن بنتے ہی سر اٹھانے لگا تھا جس کا بڑا قبیح نتیجہ 1971میں بنگلہ دیش بننے کی صورت میں ہم بھگت چکے ہیں ۔ہم اس کے بعد بھی آج تک مہاجر ،سرائیکی ،پنجابی ،بلوچی، پٹھان اور کشمیری بنے ہوئے ہیں اور ہر مفاد پرست سیاسی مچھندر منتخب ہونے کے لیے انہی نعروں اور برادری ازم کی عصبیتوں سے ڈنگ ٹپائو کام لیتا ہے۔
جن جن علاقوں میں مخصوص اقوام و برادریوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے مفاد پرست امیدواران بھی سیاسی جماعتیں انہی میں سے انتخاب کرتی اور اپنی ٹکٹوں سے نوازتی ہیں اور وہ ان قومیتی ،لسانی اور برادری ازم کے نعروں سے باآسانی منتخب ہو جاتے ہیں۔کم تعداد رکھنے والے دیگر برادریوںاور قومیتوں کے گروہ اندر ہی اندر کڑھتے اور ظلم کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
کراچی میں تو لسانی بنیادوں پر محلے تک قائم ہو گئے جس کے نتیجے میں تنگ آ کر دیگر زبانوں قومیتوں کے افراد یہاں سے بستر بوریا سمیٹ کر کسی اور جگہ جا بسے اس طرح پاکستان بھر میں گلی گلی اور قصبوں محلوں تک یہ مخصوص نعرے کینسر بنے سرائیت کر چکے ہیں اب حل یہی آن بچا ہے کہ ان مخصوص بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامی امور کے تحت مزید صوبے بنادیے جائیں تو بڑی حد تک قومیتوں اور لسانیت کے بت ٹوٹ پھوٹ سکتے ہیںوگرنہ دیر ہوگئی تو ہمیں بے رحم آپریشن کرنا پڑے گا جو کہ شاید اتنا سود مند نہ ہوسکے گا ۔
آج سیاست خالصتاً روپے پیسے کا کھیل تماشہ بن چکی ہے عام یا درمیانے طبقہ کا کوئی فرد یا کوئی سیاسی کارکن منتخب ہونے کا تصور بھی نہیںکرسکتا ایک قومی اسمبلی کے حلقہ کے لیے چالیس تا 50کروڑ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں اور کسی جگہ مقابلہ ٹھن جائے جیسے حلقہ جات 120و قومی اسمبلی کے اسپیکر والا 122اور لودھراں میں جہانگیرترین وغیرہ جہاں اربوں روپے خرچ کیے گئے کہ90فیصد ووٹررقم لے کر ہی ووٹ دیتے ہیں ۔جب ایسے امیدوران منتخب ہو نگے تو لا محالہ کرپشن کا بازار گرم کرکے اپنے خرچے پورے کریں گے ۔
انتخاب جیتتے ہی وزارتوں کے حصول کی دوڑیں لگ جاتی ہیں کہ وزارت ملنے سے حرام کمائیاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ اس طرح سے ساری سیاسی عمارت ہی کرپشن کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ احتساب صرف نعروں کی حد تک ہے وگرنہ سارا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے سبھی بڑی پارٹیوں نے ایک دوسرے کو بڑا چور ،ڈاکو ،ٹھگ ڈکلیئر کر رکھا ہے اور اب تو گالم گلوچ کرنے اورگریبانوں تک ہاتھ پہنچ چکے ہیںاحسن انتخابی قوانین مرتب نہ ہوسکے تو انتخاب کے بعد بھی سر پٹھول جاری رہے گا۔
انگریزوں نے ہندو پاک کا اقتدار مسلمانوں سے چھیناتھااس لیے جاتے ہوئے ہندوستان کی حکمرانی مسلمانوں کے حوالے کی جانی چاہیے تھی مگر ہندو بنیوں نے نمستے نمستے کرتے اور ہاتھ جوڑتے ہوئے انگریزوں کو اپنی وفاداریوں کا ثبوت دیتے ہوئے 4/5حصہ پر حکمرانی کا طوق گلے میں سجالیا پھر ہماری غلطیوں یحییٰ خانی اقتداری بندر بانٹ اور مغربی پاکستانی لیڈرز کی حکمرانی کرنے کی مذموم خواہشات نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر ڈالا اب ہم مسلمان ہندوستان کے تقریباً 1/10حصہ مغربی پاکستان (حال پاکستان )پر قابض رہ گئے ہیں یہاں پر بھی اندرونی بیرونی دشمنوں کی وجہ سے گریٹر بلوچستان ،سندھو دیش، سرائیکی صوبہ ،پختونستان ،مہاجر صوبہ اور پتہ نہیں کیا کیا اس کی تقسیم کرنے کے کریہہ پلان سیاستدانوں نے اپنی اپنی ذاتی ڈفلی بجانے اور مکمل اقتدار حاصل کرنے کے لیے بنا رکھے ہیں ۔
خدا ہمیں حفظ و امان میں رکھے اور ایسے نام نہاد سیاستدانوں کے پلید ارادوں سے نجات دلائے اور پاکستان بننے پر لاکھوں مائوں بہنوں بیٹوں بچوں کی قربانیوں کے صدقے خدائے عز وجل ہم پر خصوصی رحمتوں کی بارش برسا کر ہمیں اسلامی فلاحی مملکت قائم رکھنے اور یہاں اسلامی نظام نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم مہنگائی بیروزگاری غربت و دہشت گردی سے نجات پاکر ملک کو دنیا کی اگلی صفوں میں کھڑا کرسکیںسارے لسانی ،ثقافتی قومیتی ،علاقائی بتوں کو گہرا دفنا سکیں موجودہ حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان بنتے وقت لگائے جانے والے نعرے پاکستان کا مطلب کیا ؟لا الہ الااللہ کی پاسداری کرتے ہوئے ملک کو سودی نظام سے نجات دلائیں اور آئین میں مذکور افراد کے مساوی بنیادی حقوق کی تکمیل کرتے ہوئے ہر فرد کے لیے خوراک لباس تعلیم علاج رہائش انصاف مفت فراہم کریںاور انتظامی بنیاد پر مزید صوبوں کا قیام عمل میں لائیں تاکہ ظالم سامراجیوں ہندو بنیوں یہود و نصاریٰ مرزائیوںو اسرائیلیوں کی عالمی سازشوں سے ہم محفوظ رہ سکیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر