... loading ...
نئے صوبوں کے قیام پر کسی باشعور شخص کو کبھی بھی اختلاف نہیں رہا ہے ۔مگر صوبے انتظامی بنیادوں پر بننے چاہئیں نہ کہ قومیت پرستی ،علاقائی یا لسانی بنیادوںپر۔قومیت پرستی کا ناسور تو پاکستا ن بنتے ہی سر اٹھانے لگا تھا جس کا بڑا قبیح نتیجہ 1971میں بنگلہ دیش بننے کی صورت میں ہم بھگت چکے ہیں ۔ہم اس کے بعد بھی آج تک مہاجر ،سرائیکی ،پنجابی ،بلوچی، پٹھان اور کشمیری بنے ہوئے ہیں اور ہر مفاد پرست سیاسی مچھندر منتخب ہونے کے لیے انہی نعروں اور برادری ازم کی عصبیتوں سے ڈنگ ٹپائو کام لیتا ہے۔
جن جن علاقوں میں مخصوص اقوام و برادریوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے مفاد پرست امیدواران بھی سیاسی جماعتیں انہی میں سے انتخاب کرتی اور اپنی ٹکٹوں سے نوازتی ہیں اور وہ ان قومیتی ،لسانی اور برادری ازم کے نعروں سے باآسانی منتخب ہو جاتے ہیں۔کم تعداد رکھنے والے دیگر برادریوںاور قومیتوں کے گروہ اندر ہی اندر کڑھتے اور ظلم کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
کراچی میں تو لسانی بنیادوں پر محلے تک قائم ہو گئے جس کے نتیجے میں تنگ آ کر دیگر زبانوں قومیتوں کے افراد یہاں سے بستر بوریا سمیٹ کر کسی اور جگہ جا بسے اس طرح پاکستان بھر میں گلی گلی اور قصبوں محلوں تک یہ مخصوص نعرے کینسر بنے سرائیت کر چکے ہیں اب حل یہی آن بچا ہے کہ ان مخصوص بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامی امور کے تحت مزید صوبے بنادیے جائیں تو بڑی حد تک قومیتوں اور لسانیت کے بت ٹوٹ پھوٹ سکتے ہیںوگرنہ دیر ہوگئی تو ہمیں بے رحم آپریشن کرنا پڑے گا جو کہ شاید اتنا سود مند نہ ہوسکے گا ۔
آج سیاست خالصتاً روپے پیسے کا کھیل تماشہ بن چکی ہے عام یا درمیانے طبقہ کا کوئی فرد یا کوئی سیاسی کارکن منتخب ہونے کا تصور بھی نہیںکرسکتا ایک قومی اسمبلی کے حلقہ کے لیے چالیس تا 50کروڑ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں اور کسی جگہ مقابلہ ٹھن جائے جیسے حلقہ جات 120و قومی اسمبلی کے اسپیکر والا 122اور لودھراں میں جہانگیرترین وغیرہ جہاں اربوں روپے خرچ کیے گئے کہ90فیصد ووٹررقم لے کر ہی ووٹ دیتے ہیں ۔جب ایسے امیدوران منتخب ہو نگے تو لا محالہ کرپشن کا بازار گرم کرکے اپنے خرچے پورے کریں گے ۔
انتخاب جیتتے ہی وزارتوں کے حصول کی دوڑیں لگ جاتی ہیں کہ وزارت ملنے سے حرام کمائیاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ اس طرح سے ساری سیاسی عمارت ہی کرپشن کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ احتساب صرف نعروں کی حد تک ہے وگرنہ سارا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے سبھی بڑی پارٹیوں نے ایک دوسرے کو بڑا چور ،ڈاکو ،ٹھگ ڈکلیئر کر رکھا ہے اور اب تو گالم گلوچ کرنے اورگریبانوں تک ہاتھ پہنچ چکے ہیںاحسن انتخابی قوانین مرتب نہ ہوسکے تو انتخاب کے بعد بھی سر پٹھول جاری رہے گا۔
انگریزوں نے ہندو پاک کا اقتدار مسلمانوں سے چھیناتھااس لیے جاتے ہوئے ہندوستان کی حکمرانی مسلمانوں کے حوالے کی جانی چاہیے تھی مگر ہندو بنیوں نے نمستے نمستے کرتے اور ہاتھ جوڑتے ہوئے انگریزوں کو اپنی وفاداریوں کا ثبوت دیتے ہوئے 4/5حصہ پر حکمرانی کا طوق گلے میں سجالیا پھر ہماری غلطیوں یحییٰ خانی اقتداری بندر بانٹ اور مغربی پاکستانی لیڈرز کی حکمرانی کرنے کی مذموم خواہشات نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر ڈالا اب ہم مسلمان ہندوستان کے تقریباً 1/10حصہ مغربی پاکستان (حال پاکستان )پر قابض رہ گئے ہیں یہاں پر بھی اندرونی بیرونی دشمنوں کی وجہ سے گریٹر بلوچستان ،سندھو دیش، سرائیکی صوبہ ،پختونستان ،مہاجر صوبہ اور پتہ نہیں کیا کیا اس کی تقسیم کرنے کے کریہہ پلان سیاستدانوں نے اپنی اپنی ذاتی ڈفلی بجانے اور مکمل اقتدار حاصل کرنے کے لیے بنا رکھے ہیں ۔
خدا ہمیں حفظ و امان میں رکھے اور ایسے نام نہاد سیاستدانوں کے پلید ارادوں سے نجات دلائے اور پاکستان بننے پر لاکھوں مائوں بہنوں بیٹوں بچوں کی قربانیوں کے صدقے خدائے عز وجل ہم پر خصوصی رحمتوں کی بارش برسا کر ہمیں اسلامی فلاحی مملکت قائم رکھنے اور یہاں اسلامی نظام نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم مہنگائی بیروزگاری غربت و دہشت گردی سے نجات پاکر ملک کو دنیا کی اگلی صفوں میں کھڑا کرسکیںسارے لسانی ،ثقافتی قومیتی ،علاقائی بتوں کو گہرا دفنا سکیں موجودہ حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان بنتے وقت لگائے جانے والے نعرے پاکستان کا مطلب کیا ؟لا الہ الااللہ کی پاسداری کرتے ہوئے ملک کو سودی نظام سے نجات دلائیں اور آئین میں مذکور افراد کے مساوی بنیادی حقوق کی تکمیل کرتے ہوئے ہر فرد کے لیے خوراک لباس تعلیم علاج رہائش انصاف مفت فراہم کریںاور انتظامی بنیاد پر مزید صوبوں کا قیام عمل میں لائیں تاکہ ظالم سامراجیوں ہندو بنیوں یہود و نصاریٰ مرزائیوںو اسرائیلیوں کی عالمی سازشوں سے ہم محفوظ رہ سکیں۔