... loading ...
جو حلقے اس بات سے واقف ہیں کہ ماضی میں حامد کرزئی کس بینڈ سے بولتے رہے ہیں ان کے لیے یہ بیان خاصا حیران کن ہوسکتا ہے، جو ذرائع اس بات سے واقف ہیں کہ کرزئی واشنگٹن اور دہلی کی زبان میں پاکستان کو لتاڑتے رہیں ان کے لیے اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں کیونکہ حقیقت بھی یہی ہے۔ امریکی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کس قدر گر سکتے ہیں اس سے ایک دنیا واقف ہے ۔ سب سے زیادہ کیوبا کی انقلابی حکومت کو اس کا ادراک ہے جب سابق صدر فیدل کاسترو کو قتل کرنے کی تمام تر ناکامیوں کے بعد امریکی سی آئی اے کو میامی کے مختلف مافیا ئوںکا سہارا لینا پڑا تھا جو بعد میں سی آئی اے کے پیسے کھاکر بھاگ گئے تھے۔ یہی کام امریکا افغانستان میں کرتا رہا 2005ء کے بعد جیسے ہی افغان طالبان نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان کی تاریخ کا سبق دینا شروع کیا تو امریکا اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے پرائیوٹ فوج بلیک واٹر اور دیگر ناموں کے ساتھ میدان میں لے آیا جیسا وہ عراق میں کرتا رہا۔لیکن فوج سرکاری ہو یا پرائیویٹ میدان تو افغانستان کا تھا اس لیے نتائج بھی وہی نکلے جو تاریخ میں نکلتے آئے ہیں۔ اس کے بعد عراق اور شام میں داعش کا ہتھکنڈہ استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی یہی چال چلنے کی کوشش کی گئی لیکن حالات یہ ہیں کہ نصف سے زائد افغانستان پر افغان طالبان کا قبضہ ہے ۔ امریکا جان بوجھ کر داعش کے ارکان کو جنوبی افغانستان میں لڑانا چاہتا تھا تاکہ پاکستانی سرحد اور قبائلی علاقوں میں دوبارہ بے چینی پیدا کی جائے۔
عرب صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ آنے والے وقت میں افغانستان ایک مرتبہ پھر بڑا میدان جنگ بن سکتا ہے کیونکہ امریکی صدر کے اس بیان کے بعد کہ پاک چین اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کئی متنازعہ علاقوں سے گذرتا ہے جس سے خطے میں ممالک کے درمیان مزید کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے ایسا صرف اس لیے کہا جارہا ہے کہ پاکستان اور چین کے اس مشترکہ منصوبے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی جائے اور بھارت کو بھی اس سے فائدہ پہنچایا جائے جس پر چینی حکام کی جانب سے واشنگٹن کو فورا یہ پیغام دیا گیا تھا کہ یہ منصوبہ تنہاء پاکستان اور چین کے درمیان نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سے ممالک شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ہم پہلے بھی یہ لکھتے رہے ہیں کہ امریکا نے اپنے اتحادیوں خصوصا بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان خصوصا بلوچستان میں دہشت گردی کی جو آگ پھیلائی تھی اس کا بڑا مقصد یہی تھا کہ چین کو اقتصادی طور پر گوادر تک رسائی حاصل نہ ہوسکے مگر پاکستان کے ریاستی اداروں نے جان توڑ کوششوں کے بعد دہشت گردی کی اس عالمی سازش کا مقابلہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اب داعش کا ہتھیار استعمال کرنے انہیں جنوبی افغانستان کی جانب لے آیا ہے اس حوالے سے یہ بھی خبر عرب صحافتی ذرائع آچکی تھی کہ جنوبی افغانستان میں دبائو بڑھ جانے کی وجہ سے جو عرب جنگجو شمالی کی جانب بکھری ہوئی پوزیشن میں موجود تھے وہ بھی جنوبی کی جانب ایک مرتبہ پھر سمٹنا شروع ہوگئے ہیں جو آنے والے وقت میں افغان طالبان کے ساتھ مل کر ان علاقوں میں داعش اور اس کے مددگار افغان فوج اور امریکا کا مقابلہ کریں گے۔ یقینی بات ہے اگر یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے تو افغانستان میں ایک مرتبہ پھر بڑی جنگ کے شعلے بلند ہوسکتے ہیں لیکن اس مرتبہ ماسکو اور بیجنگ بھی افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرچکے ہیںاور ان کے ساتھ رابطے میں ہیںاس لیے آنے والے وقت میں امریکا کے لیے افغانستان کی صورتحال مزید پریشان کن ہوسکتی ہے۔امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ اس کام کے لیے ٹرمپ کا ’’پاگل پن‘‘ استعمال کرے گی کیونکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے خیال میںافغانستان میں امریکا کی پتلی حالت کا ذمہ دار پاکستان ہے۔
اس تمام صورتحال کے ساتھ پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں کو مشرق وسطی کی صورتحال پر بھی گہری نگاہ رکھنا ہوگی۔ ہم پہلے ہی متعدد بار یہ لکھتے رہے ہیں کہامریکا اور اسرائیل کی کوشش ہے کہ شمالی عراق اور شام میں ایک آزاد کرد ریاست تشکیل دے کر وہاں ضدید ترین میزائل شیلڈ پروگرام نصب کردیا جائے اس کی تنصیب اس سے پہلے روس نے پولینڈ اور بعد میں جارجیا میں ناکام بنا دی تھی۔امریکا’ اور عالمی مغربی صہیونی قوتیں’ گریٹر اسرائیل‘‘ کی خاطر مشرق وسطی میں کا جلد نقشہ تبدیل کرنے کی کوششوں میں ہیں یہی وجہ تھی کہ عراق اور شام میں موجود داعش نے خلافت کے نام پر ان دو ملکوں کے بیچ سرحدیں ختم کردی تھیں۔ دوسری جانب سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا دورہ ماسکو انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں انہوں نے امریکی ناراضگی کی پروا نہ کرتے ہوئے روس کے ساتھ جدید میزائل سسٹم جو اس سے پہلے ترکی نے حاصل کرلیا ہے حاصل کرنے کا معاہدہ کیا ہے ، عالم عرب کی اسٹیبلشمنٹ میں یہ فکر زور پکڑتی جارہی ہے کہ عربوں کو آپس میں لڑاکر اسرائیل کو مزید بالادست کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ جبکہ خطے میں مختلف قسم کے دہشت گرد گروپ بھی امریکا اور مغربی قوتوں کی سیسہ گری کا شاخسانہ ہیں۔اس سلسلے میں عالمی صہیونی قوتوں کے سامنے پاکستان بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے اس حوالے سے پاکستان کو بیرونی خطرات کے ساتھ ساتھ داخلی خطرات کا بھی سامنا ہے اس لیے داخلی طور پر کرپٹ سیاسی مافیا کی سخت سرکوبی وقت کی اہم ضرورت ہے اس کے بغیر تیزی سے تبدیل ہوتے عالمی اور علاقائی حالات کا مقابلہ ممکن نہیں۔
(ختم شد)