... loading ...
ببرک کارمل جمالی
اب کی بار سیر و تفریح کی غرض سے ہماری منزل ایک ایسا مقام تھا جہاں لوگ نہیں بستے بلکہ ملک میں بسنے والے لوگوں کا علاج کرنے والی جگہ بستی ہے۔ ہماری یہ منزل بلوچستان کے ضلع جھل مگسی سے صرف بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جسے ’’پیر لاکھا‘‘ کہا جاتا ہے۔ بلوچستان کے باسی اسے ’’ٹھار لاکھا ٹھار‘‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ ’’ٹھار لاکھا ٹھار‘‘ سندھی زبان کا جملہ ہے جس کا مطلب ہے ’’اے لاکھو میرے جسم کو ٹھنڈا کردیں ٹھنڈا۔‘‘ یہاں موجود چشمے کا پانی نہانے والے کے جسم کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے اور اسی بناپر مقامی لوگ اسے ’’آبِ شفا‘‘ بھی کہتے ہیں۔
سندھ اور بلوچستان کے ہزاروں لوگ اپنی خارش سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ یہ آبِ شفا جلد کی بیماریوں کا مکمل خاتمہ بہت جلد کردیتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ دنیا میں کسی بھی قسم کی خارش کی بیماری ہو اور اس پانی میں نہاتے ہوئے مریض ’’ٹھار لاکھا ٹھار‘‘ کے الفاظ اپنی زبان سے ادا کرتا رہے تو اس کے جسم میں موجود خارش اور الرجی بالکل ختم ہوجاتی ہے۔
بلوچستان کے حسن کے زیادہ تر جلوے اور اپنے بلوچستان کے وسیع و عریض دلکش نظاروں کو دیکھنے کے لیے ہم نے بھی پیر لاکھو کا رخ کرنے کا ارادہ کر لیا۔ صبح چھ بج کر بیس منٹ پر ہم نے تیاری شروع کر دی۔ سب دوست میرے ہاں پہنچ گئے۔ ہم سب نے بائیک کے بریک اچھی طرح چیک کیے اور تیل کی ٹنکی فل کروالی۔ تمام بائیکرز نے گاڑیاں اسٹارٹ کیں اور منزل کی طرف چل پڑے۔ شروع میں ہمارے سامنے ویران علاقے آئے جہاں پر لوگ پانی کی بوند بوندکے لیے ترس رہے تھے۔ ان میں سے ایک علاقہ میرا اپنا آبائی ضلع جعفر آباد تھا۔ جیسے ہی ہم نے کھیرتھر کینال کو عبور کیا تو کچھ سر سبز علاقہ شروع ہوا مگر وہ بھی چند کلومیٹر تک جاری رہا۔ یہ علاقہ ضلع جھل مگسی میں واقع ہے۔ یہاں سے ہم بائیکر نے رفتار کچھ تیز کردی۔ لیکن تمام بائیکرز کے قافلے کو ساتھ لے کر چلنا تھا۔ کوئی آگے تو کوئی پیچھے تھا۔ مگر سب کی انتہائی رفتار 45 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہی محدود تھی۔
سوا گیارہ بجے کے قریب ہم باریجہ میں ایک ہوٹل پر تازہ دم ہونے اور چائے پینے کی غرض سے رکے۔ یہ ہوٹل سی پیک روڑ کے ساتھ بنا ہوا ہے۔ اس وقت پہاڑی سلسلہ ہم سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر تھا لیکن یہ باقی ماندہ سفر پورا کرنے میں ایک گھنٹہ مزید درکار تھا۔ سفر طویل اور قافلہ بائیکرز کا ہو تو راہ میں کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ ہم سب بائیکرز نے پہاڑی سلسلہ شروع ہونے سے پہلے دوبارہ بائیکس کا مکمل چیک اپ کیا۔ بائیک کو چیک کرنے کے لئے ہماری ٹیم میں ایک مکینک بھی تھا جو بائیکس کی چھوٹی موٹی خرابیوں کی تشخیص اور علاج کا ہنر بخوبی جانتا تھا اور بائیک کی فٹنس کو بہترین اور تسلی بخش بنا دیتا تھا۔ کوئی بھی تکنیکی خرابی پہاڑوں کی چڑھائی پر کہیں بھی ہم سب کو مشکل میں ڈال سکتی تھی۔
جس وقت پہاڑوں کا نگر شروع ہوا تو ہماری بائیکس پہاڑوں پر گویا رینگنے لگیں۔ اونچے نیچے پہاڑ، دیدہ زیب نظارے ہمارے گرد گھوم رہے تھے۔ دو سے تین فٹ چوڑے راستے پر بائیک کو کنٹرول میں رکھنا انتہائی ضروری تھا کیونکہ اگر بائیک کنٹرول سے باہر ہوگئی تو پھر بچنا محال ہو جائے گا۔ ہم کم از کم تین سو سے چار سو فٹ بلندی پر بائیکس چڑھا رہے تھے۔ چڑھائی کے دوران سب کو اپنی جان کی فکر تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہمیں پہلے اتنے مشکل راستوں کا پتا ہوتا تو کبھی ہم اس سفر پر نہ نکلتے۔ کبھی ہم بائیکر پیچھے بیٹھے دوست کو اتارتے اور کبھی دوبار بٹھا دیتے تھے۔ ہمارے کچھ بائیکرز تو اس پر پیچ چڑھائی کو ایسے پار کر رہے تھے جیسے وہ صدیوں سے ان پہاڑوں پر بائیک چلاتے آرہے ہیں۔ جیسے ہی پہاڑوں کی اترائی آئی تو ہم نے بائیکس کے بریک پکڑلیے اور آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگے۔ نیچے اترنے کے بعد ہمیں ہماری منزل نظر آنے لگی تو ہم نے خوشی سے نعرہ تکبیر اللہ اکبر فضا میں بلند کردیا۔
آخرکار ہم سب بمشکل تمام اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ ہمارے سامنے لاکھو پیر کا مزار تھا اور ساتھ میں پتھروں سے بنائی ہو مسجد تھی۔ سامنے ہی آب شفا کا چشمہ تھا جو پہاڑوں کو چیر کر نکلتا ہے۔ یہ مسجد اور پیر لاکھو کا مزار کب بنائے گئے؟ یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ نہ ہم نہ ہمارے ساتھ موجود بائیکر، اور نہ بے چارہ گوگل۔ آج تک اس دیدہ زیب مقام اور یہاں موجود آبِ شفا پر ایک تحریر بھی نہیں لکھی گئی جو افسوس ناک بات ہے۔ جس روز سی پیک مکمل ہوا، اس دن یہاں کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی۔ ہمارے چاروں طرف پہاڑوں کی اداسی پھیلی ہوئی تھی۔ اس جگہ نہ تو کوئی بندہ تھا نہ بندے کی ذات۔ ہاں! پیر لاکھو کے مزار کے سامنے بہت سی خوبصورت گھنٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور گھنٹیوں کے ساتھ کچھ تعویذ بھی بندھے ہوئے تھے جن سے پتا لگ رہا تھا کہ کئی لوگ منتیں لے کر پیر لاکھو کے مزار پر آتے ہیں۔ ہم نے درگاہ کے اندر داخل ہونے سے پہلے ان گھنٹیوں کو بجایا اور پھر درگاہ کے اندر داخل ہو گئے۔ درگاہ کے اندر ایک جھولا لٹک رہا تھا۔
اب ہم نے پہاڑوں کی جانب نظریں گھمائیں تو دور پہاڑوں کے اوپر کچھ بکریاں چرتی ہوئی نظر آرہی تھیں جو ہمیں چیونٹی جتنی دکھائی دے رہی تھیں۔ مزار سے باہر نکل کر ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، آب شفا میں کود پڑے اور نہانے لگے۔ سب دوست بلند آواز میں ’’ٹھار لاکھا ٹھار‘‘ بول رہے تھے۔ جب ہم دوست نہاتے نہاتے تھک گئے تو ہم نے کھانے کا سامان کھولا، دیگچی نکالی اور کھانا پکانے لگے جبکہ میں نے اپنی جیب سے کچھ ٹافیاں نکالی اور سب کو دینے لگا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے ہزاروں لوگ اپنی خارش سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ یہ آبِ شفا جلد کی بیماریوں کا مکمل خاتمہ بہت جلد کردیتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ دنیا میں کسی بھی قسم کی خارش کی بیماری ہو اور اس پانی میں نہاتے ہوئے مریض ’’ٹھار لاکھا ٹھار‘‘ کے الفاظ اپنی زبان سے ادا کرتا رہے تو اس کے جسم میں موجود خارش اور الرجی بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ اس پانی میں کچھ معدنیات یا کچھ کیمیکلز، پہاڑوں سے حل ہو کر آتے ہیں جو جسم کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔ مگر آج تک اس پانی کا ٹیسٹ بھی کسی لیبارٹری میں نہیں کروایا گیا کہ آخر اس پانی میں ایسا کیا موجود ہے جو جسم کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ فی الحال اس بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ اس پانی میں کیا ملا ہوا ہے۔ ہم سب دوستوں نے مل کر کھانا کھایا اور مسجد میں نماز ادا کی۔ یہ مسجد سینکڑوں سال پرانی ہے۔ مسجد میں نماز ادا کرتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہم صدیوں بعد اس مسجد میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ مسجد کے اندر ہوا خوشگوار تھی۔دو گھنٹے تک آرام کرنے کے بعد ہم سب نے واپسی کا راستہ اپنایا اور پہاڑوں کو خدا حافظ کہا۔ ایک بار پھر ہم عظیم بلوچستان کے خاموش میدانوں سے ہوکر، خوبصورت پہاڑوں اور کھلی فضاؤں کی سمت چل پڑے۔