... loading ...
برصغیر میں ملتان کو ہمیشہ سے ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے ۔ یہ خطہ کئی معرکہ آرائیوں کامرکز رہا اور مولتان (MOOLTAN ) کا تخت ہمیشہ سے فاتحین کو للچاتا رہا ہے ۔ تاریخ میں ا س علاقے کے حوالے سے کئی معرکوں کا ذکر ہے ۔ سکندر اعظم نے 320-325 AD )) میں مولتان کو فتح کرکے اپنا گورنر مقرر کیا ۔ اُس کے بعد 1285 AD میں چنگیز خان کی افواج نے تیمور خان کی سربراہی میں مولتان پر حملہ کیا ۔ مولتان سے ملتان بننے کی کہانی تاریخی فسوں کا شاہکار ہے ۔ یہ شہر سورج کے پجاریوں کا ایک بہت بڑا مرکز رہا اُس کے بعد بدھ مت کے ماننے والے بھی اس علاقے پر چھائے رہے ۔ عرب فاتح محمد بن قاسم کی آمد کے بعد اس خطے میں اسلام کی شمع فروزاں ہوئی ۔ لوگوں نے تیزی کے ساتھ دین مبین کے دامن میں پناہ لی ۔ یہ ہمیشہ سے مذہبی رجحان رکھنے والوں کا مرکز رہا اس لیے اسے ’’ مدنیۃ اولیاء ‘‘ کی شناخت حاصل ہوئی ۔
ملتان کی تاریخ میں ’’ شیپو بادشاہ King Khashipn ‘‘ کا وہ واقعہ بہت دلچسپ ہے جس میں وہ اپنے بیٹے’’ ہلاد‘‘ کو آگ میں جلانے کا حکم دیتا ہے ۔ میرے کالم کے سیاق و سباق کا ’’ شیپو بادشاہ ‘‘ کے مذکورہ قصے سے کوئی تعلق نہیں لیکن ملتان میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی باہمی سرد جنگ نے کارکنوں کو ’’شیپوبادشاہ ‘‘ کا بیٹا ’ ’ ہلاد ‘‘ بنا دیا ہے ۔
سیاست کے طالب علم بخوبی جانتے ہیں کہ ملتان کو ہمیشہ سے جنوبی پنجاب کی سیاست میں بہاولپور ڈویژن کی طرح اہم مقام حاصل رہا ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژن کے زیادہ تر سیاستدان یہاں رہائش پذیر رہے ہیں اورعوام کے سیاسی شعور میں بھی خاصی پختگی رہی ۔
ماضی کے مختلف ادوا میں یہ علاقہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا گڑھ رہا ۔اب ایک طویل عرصے کے بعد اس خطے نے انگرائی لی ہے ۔سیاسی ماحول پر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی شخصیت کا سحر طاری ہے ۔ تحریک انصاف کے مقابلے کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو سخت محنت اور جدوجہد درکار ہے ۔ضمنی الیکشن میں جاوید ہاشمی کی شکست یہاں کی سیاست میں تبدیلی کا سندیسہ ثابت ہوئی تھی ۔ اُس کے بعد سے عوام کا ’’ موڈ ‘‘ واضح دکھائی دے رہا ہے ۔
اس واضح برتری کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کو پارٹی کے اندر ایک کے بعد ایک اور معرکہ درپیش والی صورتحال کا سامنا ہے ۔ پارٹی کے سینئر وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی اور جنرل سیکرٹری جہانگیرترین کے درمیان جاری سرد جنگ نے پارٹی قیادت اور کارکنوں کو شدید قسم کی پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے ۔ ملتان میں پارٹی ٹکٹ کے اُمیدوار اور عہدیدار بہت بڑی آزمائش سے دوچار ہیں ۔ اگر کوئی جہانگیر ترین سے ملتا ہے تو فوراً تصویر بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی جاتی ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی شاہ محمود قریشی یا زین قریشی کے قریب جائے تو اُس کی تصویر منظر عام پر آ جاتی ہے ۔ملتان میں پی ٹی آئی کے عہدیدار اور کارکن ’’دونوں بڑوں‘‘ کو وضاحتیں دے دے کر تھک بلکہ اُکتا چکے ہیں ۔ یہاں جہانگیر ترین اورشاہ محمود قریشی کھل کر ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ’’کھارے پانی میں دال نہیں گلتی ‘‘ ۔ لیکن پی ٹی آئی اس صورتحال میں پورا انتخابی معرکہ سر کرنا چاہتی ہے ۔
آنے والے انتخابات کے دوران ملتان میں زبر دست سیاسی معرکہ آرائیاں دیکھنے کو ملیں گی ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین اپنے بیٹے علی ترین ، شاہ محمود قریشی اپنے صاحبزادے زین قریشی کو اور پیپلز پارٹی کے رہنماء سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اپنے لخت جگر عبد القادر گیلانی کو میدان میں اُتارنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ یہ کس قدر دلچسپ صورتحال ہے کہ اس پارٹی میں وراثتی سیاست کی پابندی بھی صرف عمران خان کر رہے ہیں وہ اپنے عزیز رشتہ داروں کو ٹکٹ دینا وراثتی سیاست کو فروغ دینے کے مترادف سمجھتے ہیں جبکہ پارٹی میں اوپر سے لے کر نیچے تک سب اپنی اپنی خاندانی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے حصول میں بھی ایک دوسرے کے مدمقابل ہو سکتے ہیں اس لیے دونوں کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لینا بعید از قیاس نہیں ہے ۔
ملتان سے قومی اسمبلی کے حلقوں این اے 148 ، این اے 149 ، این اے 150 ، این اے151 اور این اے 152 میں پاکستان تحریک انصاف کو بھر پور پذیرائی حاصل ہو رہی ہے ۔ اس علاقے میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کی کامیابی کے امکانات ہیں لیکن دونوں مرکزی رہنماؤں کی آپس کی سر د جنگ کی وجہ سے 2018 ء کے انتخابات میں پارٹی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ ملتان کی سیاست میں افواہوں کی فیکٹریاں بھی اپنی پیداوار جاری رکھے ہوئے ہیں یہ پروپیگنڈہ بھی زور شور سے کیا جا رہا ہے کہ 2013 ء کے عام انتخابات کے عین موقع پر پاکستان تحریک انصاف سے منہ موڑنے والے موجودہ وفاقی وزیر سکندر بوسن کو بھی تحریک میں واپس لے لیا جا ئے گا ۔ اس خبر نما افواہ نے پارٹی کارکنوں میں مایوسی کے ساتھ ساتھ بغاوت کے آثار بھی نمایاں کیے ہیں ۔ اور ایسے کسی فیصلے پر کارکنوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے کے خدشات ہیں ۔
میں نے ملتان میں اپنے دو روزہ قیام کے دوران یہاں کی سیاست پر سیاست دانوں کے چہرے، گروپوں اور دھڑے بندی نمایاں دیکھی مجھے مدینتہ اولیاء کی سیاست میں عام آدمی کا چہرہ نظر نہیں آیا ۔ البتہ عام آدمی نے ساری اُمیدیں پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان سے وابستہ کر رکھی ہیں ۔ لیکن عمران خان کے نام پر یہاں جو سیاست ہو رہی ہے اُس میں مقامی قیادت کا ذاتی اور گروہی مفاد اولین ترجیح کے طور پر سامنے نظر آتا ہے ۔
عمران خان عام آدمی کے چہرے کو اُجالنا چاہتا ہے ۔ وہ حقیقی خوشیاں ایک زندہ حقیقت کے طور پر اس سماج کا حصہ بنا نا چاہتا ہے ۔ ’’ کپتان ‘‘ کس حد تک تبدیلی کی جہت کو پیش کرنے میں کامیاب رہا ہے اس کے لیے کسی خورد بینی مطالعے کی ضرورت نہیں ہے ۔ہماری موجودہ سیاست کی یورشیں اُس کی کامیابی کا اعلامیہ ہیں ۔ حزن و ملال اور مایوسی کی فضاء میں اُمید کا دیا روشن ہوا ہے ۔ جمہوری عمل کی کشتی کے ہچکولے کھانے کے باوجود جمہوری تسلسل قائم ہے ۔ عمران خان کے لئے دلوں میں بہت محبت ہے ۔ ان کے بے ریا کارکن اپنے ماہ رُخ کے پروانے ہیں ۔ لیکن دکھ اور افسوس کے ساتھ ساتھ کہنا پڑتا ہے عمران خان کی جماعت کے اکثر قائدین کی اپنی اپنی آنکھیں اور اپنے اپنے چاند ہیں ۔