... loading ...
وقار احمد
جنگوں کی تاریخ کا المیہ رہا ہے کہ آیا یہ نامکمل ہوتی ہیں یا پھر جھوٹی ہوتی ہیں۔ ہیروز اور فتوحات کی عظیم کہانیوں میں اکثر میدان جنگ کی زد میں آنے والے ایک عام آدمی کا درد کہیں کھو سا جاتا ہے۔1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں کے دوران عمرکوٹ، سندھ کے باسیوں کا تذکرہ ہمارے اسکولوں کی نصابی کتابوں میں کہیں نہیں ملتا۔ مجھے 1965 اور 1971 کی جنگوں کی یہ غیر تحریری کہانیاں اس چھوٹے، گرد آلود شہر کی حالیہ سیر کے موقعے پر زبانی سننے کو ملیں۔
عمرکوٹ سندھ کے مشرقی حصے میں بھارتی سرحد سے 60 کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ شہر 11 صدی کے قلعہ عمرکوٹ کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتا ہے۔ مغل شہنشاہ اکبر کا جنم بھی یہاں ہوا تھا، یہ وہ دن تھے جب اکبر کے والد ہمایوں نے شیر شاہ سوری کی فوجوں سے بچنے کے لیے عمر کوٹ کا رخ کیا تھا اور یہاں رانا پرساد نامی ہندو راجہ نے انہیں پناہ دی تھی۔ یہ قلعہ مقبول عام سندھی لوک داستان عمر ماروی سے بھی منسوب ہے۔میں اور میرے دوستوں نے صوفی کلام کے سریلے گائک شفیع فقیر کی آواز ریکارڈ کرنے کی غرض سے عمر کوٹ کا رخ کیا تھا۔ ہم صبح ریکارڈنگ کے لیے ہر طرح سے تیار بیٹھے تھے کہ خبر ملی کہ ان کے کسی عزیز کی وفات ہو گئی ہے لہٰذا انہیں آنے میں دیر ہو جائے گی کیونکہ آخری رسومات میں ان کی شرکت لازمی تھی۔ انہوں نے اپنی آمد تک اپنے ایک دوست محمد جمن کو ہماری میزبانی کرنے کو کہا۔مگر یہ افسوسناک اور غیر متوقع صورتحال ہمارے لیے اپنے اندر ایک تحفہ لے آئی تھی، اس کا احساس اس وقت ہوا جب ہمیں پتہ چلا کہ قریب 70 سالہ محمد جمن ایک زبردست سندھی شاعر اور علاقے کی تاریخ پر عبور رکھنے والے عالم ہیں۔ وہ مشہور سندھی دانشور اور قوم پرست مرحوم جی ایم سید سے کافی قریب رہ چکے تھے۔
حالیہ تاریخ سے گرد ہٹاتے ہوئے محمد جمن نے ہمیں بتایا کہ1965میں یہاں مسلمان اسی فیصدتھے لیکن انتہائی غریب ہونے کی وجہ سے بیس فیصد ہندوؤں کی چاکری پرمجبورتھے اورمقامی ہندوٹھاکر ا ن کواپنے مظالم کانشانہ بنائے رکھتا تھا۔ فقیر کا خاندان بھی ایک ٹھاکر کے ہاں ملازمت کرتا تھا۔پھر 1965 کی جنگ ہوئی جس نے یہاں کے رہائشیوں کی زندگیوں میں بڑی مصیبت پیدا کر دی۔ بھارت کی جنگ کی وجہ سے علاقے کے مسلمانوں میں بھارت کے خلاف جذبات عروج پر تھے اور علاقے کے ہندو ٹھاکروں کوخدشہ تھا کہ انھوںنے علاقے کے غریب مسلمانوں کے ساتھ طویل عرصے سے جو ناروا سلوک رکھا ہواتھا اب علاقے کے مسلمان ان سے اس کاانتقام لے سکتے ہیں ،مسلمانوں کی انتقامی کارروائیوں کے ڈر سے زیادہ ترمالدار ہندوٹھاکر سرحد پار کر کے بھارت چلے گئے۔ پاکستان کو چھوڑجانے والوں میں اکثریت ان امیر ٹھاکروں کی تھی جو علاقے میںاپنی دولت کے بل پر بے وسیلہ اورغریب مسلمانوں کا بھی بری طرح استحصال کرتے رہے تھے ۔نچلی ذات والے ہندو، جیسے بھیل، کوہلی اور میگھواڑ چونکہخود بھی ان دولت مند ٹھاکروں کے استحصال کا شکار تھے لہٰذا انہوں نے بھارت کا رخ نہیں کیا۔ پاکستان ہو یابھارت، دونوں میں کسی ایک ملک کا انتخاب کرنے سے ان کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتاتھا۔ٹھاکروں کے بھارت چلے جانے سے ان کے ملازمین کے پاس نہ رہنے کو جگہ تھی اور نہ ہی کوئی ذریعہ معاش۔ فقیر کے والد اور جمن کو اپنی تسلسل زندگی کی خاطر چائے کے ہوٹل پر بیرہ گیری یا ٹرک صفائی جیسے کاموں کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑا۔ جمن نے ہمیں بتایا کہ 1965 اور 1968 کے بیچ کا عرصہ ان کی زندگی کا سب سے بدترین وقت تھا۔
1971 میں ایک بار پھر جنگ عمر کوٹ کے باسیوں کے لیے مصیبت لے کر آئی، اس وقت بھارتی فوج نے سرحد پار کر کے تھر پارکر کے چند علاقوں پر قبصہ کر لیا تھا۔ پاکستان میں یہ بات عام نہیں ہے اوربہت کم لوگوں کومعلوم ہے کہ تھرپارکر کے کئی گاؤں کئی ماہ تک بھارتی فوج کے قبضے میں رہے اوربھارتی فوجی ان علاقوں میں دندناتے اور بھارت فوج کے خوف اپنے مال مویشی اور گھر بار چھوڑ کر قریبی علاقوں میں چلے جانے والی مقامی لوگوں کے گھروں میں لوٹ مار کرتے رہے۔جمن بتاتے ہیں کہ جوں ہی بھارتی فوج کی پیش قدمی کا خدشہ بڑھا تو کچھ لوگوں نے عمر کوٹ شہر چھوڑ کر نواحی علاقوں کا رخ کر لیا۔ چونکہ شہر میں جنگی صورتحال تھی لہٰذا لوگ اپنے گھر اور مویشی پیچھے ہی چھوڑ آئے تھے۔ پھر جب جنگ بندی نافذ ہوئی اور بھارتی فوج نے اپنے قدم پیچھے کر دیے اس کے بعد جب لوگ یہاں لوٹے تو دیکھا کہ ان کے مکان تباہ تھے اور ان کے مویشی چوری کر لیے گئے تھے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ انہیں ایک بار پھر اپنی زندگی از سر نو شروع کرنے کی جدوجہد کرنی تھی۔
عمر کوٹ کی آبادی میں مذہبی ساخت اب کافی حد تک بدل چکی ہے اور یہاں مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں ہے۔ جمن بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں عام طور پر دونوں مذاہب کے لوگوں کے درمیان امن قائم ہے،لیکن یہ تعلقات ایک نازک ڈور سے بھی بندھے ہوئے ہیں اور ایک چھوٹاسا واقعہ بھی تشدد کی جانب لے جاسکتا ہے۔انہوں نے اس افسوس کا بھی اظہار کیا کہ جنگوں سے پہلے اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے سرحد کے اس پار جانا کافی آسان تھا۔ بس سرحد پر تعینات گارڈز کو چھوٹی سی ٹپ دینی پڑتی تھی۔ مگر اب ایسا کرنا گولی کھانے کا خطرہ مول لینے کے بغیر ممکن نہیں۔
یہ بھی بڑی ہی دلچسپ بات ہے کہ جمن کا تخلص در بدر ہے۔ جس طرح انہیں ماضی میں ایک سے دوسری جگہ خود کو منتقل کرنا پڑا تھا اس کی عکاسی کے لیے اس سے بہتر اور بھلا کیا ہوگا۔اس تاریخ کی اداسی اس وقت اور بھی بڑھ گئی جب فقیر کی آمد ہوئی اور انہوں نے حب الوطنی، امن اور فانی دنیا پر اپنے گیتوں سے سر بکھیر دیے۔