... loading ...
( حصہ سوم)
سر سید احمد خان برصغیر پاک وہند کی ملت اسلامیہ کی تعمیر نو کے معمار اعظم ہیں ۔ سنہ 1857کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے سارا نزلہ مسلمانوں پر اتارا، مسلمانوں پر کسب معاش کے دروازے تو بند کئے ہی گئے ساتھ ساتھ ان پر تعلیم کے دروازے بھی بند کر دیئے گئے۔ ایسے دور ابتلا میں سر سید نے مسلمانوں کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے تعلیمی ادارے قائم کئے۔ اس کے لیے سر سید کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔ سر سید کی کہانی سر سید کی زبانی میں لکھا ہے،بمقام بنارس ’’کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان ہندوستان‘‘ منعقد ہو گئی جس کے سیکرٹری سر سید قرار پائے۔ اس کمیٹی کا کام یہ تھا کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس بات کے دریافت کرنے میں کوشش کرے کہ سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں مسلمان طالبِ علم کس لیے کم پڑھتے ہیں ، علومِ قدیمہ ان میں کیوں گھٹ گئے اور علومِ جدیدہ ان میں کیوں نہیں رواج پاتے اور جب یہ موانع ٹھیک ٹھیک دریافت ہو جائیں تو ان کے رفع کرنے کی تدبیریں دریافت کرے اور ان تدبیروں پر عمل درآمد کرنے میں کوشش کرے۔ نواب محسن الملک کا بیان ہے کہ، جس تاریخ کو کمیٹی مذ کور کے انعقاد کے لیے جلسہ قرار پایا تھا اس سے ایک روز پہلے میں بنارس میں پہنچ گیا تھا۔ رات کو سر سید نے میرا پلنگ بھی اپنے ہی کمرے میں بچھوایا تھا۔ گیارہ بجے تک مسلمانوں کی تعلیم کے متعلق باتیں ہوتی رہیں ، اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی۔ دو بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو میں نے سر سید کو ان کے پلنگ پر نہ پایا۔ میں اْن کے دیکھنے کو کمرے سے باہر نکلا، دیکھتا کیا ہوں کہ برآمدے میں ٹہل رہے ہیں اور زار و قطار روتے جاتے ہیں ، میں نے گھبرا کر پْوچھا کہ کیا خدانخواستہ کہیں سے کوئی افسوسناک خبر آئی ہے؟ یہ سن کر اور زیادہ رونے لگے اور کہا کہ اس سے زیادہ اور کیا مْصیبت ہو سکتی ہے کہ مسلمان بگڑ گئے اور بگڑتے جاتے ہیں ، اور کوئی صورت ان کی بھلائی کی نظر نہیں آتی۔ پھر آپ ہی کہنے لگے کہ جو جلسہ کل ہونے والا ہے، مجھے امید نہیں کہ اس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا ہو۔ ساری رات اْدھیڑ بن میں گزر گئی ہے کہ دیکھیے، کل کے جلسے کا انجام کیا ہوتا ہے اور کسی کے کان پر جْوں چلتی ہے یا نہیں ۔
سر سید احمد خان پر خود مسلمانوں کے ایک طبقے کی جانب سے مسلمان معاشرے کو تباہ کرنے والا اور کافرتک ہونے کے الزمات لگائے گئے۔ ایسے میں سر سید کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہو گئے۔ سر سید کی کہانی سر سید کی زبانی میں باب سر سید کے قتل کی سازش کے تحت لکھا ہے، جب سر سید کے کفر و ارتداد اور واجب القتل ہونے کے فتوے اطرافِ ہندوستان میں شائع ہوئے تو ان کی جان لینے کی دھمکیوں کے گمنام خطوط ان کے پاس آنے لگے۔ اکثر خطوں کا یہ مضمون تھا کہ ہم نے اس بات پر قرآن اْٹھایا ہے کہ تم کو مار ڈالیں گے،ایک خط میں لکھا تھا کہ شیر علی جس نے لارڈ میو کو مارا تھا، اس نے نہایت حماقت کی، اگر وہ تم کو مار ڈالتا تو یقینی بہشت میں پہنچ گیا ہوتا۔
1891میں جبکہ سر سید کالج کی طرف سے ایک ڈپوٹیشن لے کر حیدرآباد گئے تھے اور حضور نظام کے ہاں بشیر باغ میں مہمان تھے، ایک مولوی نے ہمارے سامنے سر سید سے ذکر کیا کہ کلکتہ میں ایک مسلمان تاجر نے آپ کے قتل کا مصمم ارادہ کر لیا تھا اور ایک شخص کو اس کام پر مامور کرنا چاہتا تھا۔ اس بات کی مجھ کو بھی خبر ہوئی، چونکہ میں علی گڑھ کی طرف آنے والا تھا، اس سے خود جا کر ملا اور اس سے کہا کہ میں علی گڑھ جانے والا ہوں اور میرا ارادہ سید احمد خان سے ملنے کا ہے جب تک میں ان کے عقائد اور مذہبی خیالات دریافت کر کے آپ کو اطلاع نہ دوں ، آپ اس ارادہ سے باز رہیں ۔ چنانچہ میں علی گڑھ میں آیا اور آپ سے ملا اور بعد دریافتِ حالات کے اس کو لکھ بھیجا کہ سید احمد خان میں کوئی بات میں نے اسلام کے خلاف نہیں پائی تم کو چاہئے کہ اپنے منصوبے سے توبہ کرو اور اپنے خیال خام سے نادم ہو۔ سر سید نے یہ حال سن کر اس کو جو جواب دیا وہ لطف سے خالی نہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ آپ نے اس دین دار مسلمان کو اس ارادہ سے روک دیا اور ہم کو ہمارے بزرگوں کی میراث سے، جو ہمیشہ اپنے مسلمان بھائیوں ہی کے ہاتھ سے قتل ہوتے رہے ہیں ، محروم رکھا۔
(جاری ہے)