... loading ...
(حصہ :دوم )
گاؤں کی یاد۔۔ دلی سے سات کوس مغل پور ایک جاٹوں کا گاؤں ہے۔ وہاں سر سید کے والد کی کچھ زمین بطور معافی کے تھی۔ اگر کبھی فصل کے موقع پر ان کے والد مغل پور جاتے تو ان کو بھی اکثر اپنے ساتھ لے جاتے اور ایک ایک ہفتہ گاوں میں رہتے۔ سر سید کہتے ہیں کہ ،اس عمر میں گاؤں جا کر رہنا، جنگل میں پھرنا، عمدہ دودھ اور دہی اور تازہ تازہ گھی اور جاٹنیوں کے ہاتھ کی پکی ہوئی باجرے یا مکئی کی روٹیاں کھانا نہایت ہی مزہ دیتا تھا۔
خلعت کا حصول۔
سر سید کے والد کو اکبر شاہ کے زمانہ میں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تین رقوم جواہر کا خلعت عطا ہوتا تھا مگر اخیر میں انہوں نے دربار کا جانا کم کر دیا تھا اور اپنا خلعت سر سید کو، باوجودیکہ ان کی عمر کم تھی، دلوانا شروع کر دیا تھا۔ سر سید کہتے ہیں کہ ایک بار خلعت ملنے کی تاریخ پر ایسا ہوا کہ والد بہت سویرے اْٹھ کر قلعہ چلے گئے اور میں بہت دن چڑھے اْٹھا۔ ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھی دیر ہو گئی۔ جب لال پردہ کے قریب پہنچا تو قاعدہ کے موافق اول دربار میں جا کر آداب بجا لانے کا وقت نہیں رہا تھا۔ داروغہ نے کہا کہ بس اب خلعت پہن کر ایک ہی دفعہ دربار میں جانا۔ جب خلعت پہن کر میں نے دربار میں جانا چاہا تو دربار برخاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اْٹھ کر ہوادار پر سوار ہو چکے تھے۔ بادشاہ نے مجھے دیکھ کر والد سے، جو اس وقت ہوادار کے پاس ہی تھے، پوچھا کہ ” تمہارا بیٹا ہے؟” انہوں نے کہا، “حضور کا خانہ زاد ہے ” بادشاہ چپکے ہو رہے۔ لوگوں نے جانا بس اب محل میں چلے جائیں گے، مگر جب تسبیح خانہ میں پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ تسبیح خانہ میں بھی ایک چبوترہ بنا ہوا تھا جہاں کبھی کبھی دربار کیا کرتے تھے۔ اس چبوترہ پر بیٹھ گئے اور جواہر خانہ کے داروغہ کو کشتیِ جواہر حاضر کرنے کا حکم ہوا۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا تھا۔ بادشاہ نے مجھے اپنے سامنے بلایا اور کمال عنایت سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ ” دیر کیوں کی؟” حاضرین نے کہا، “عرض کرو کہ تقصیر ہوئی” مگر میں چپکا کھڑا رہا۔
جب حضور نے دوبارہ پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ ” سو گیا تھا” بادشاہ مسکرائے اور فرمایا، “بہت سویرے اْٹھا کرو” اور ہاتھ چھوڑ دئیے۔ لوگوں نے کہا،آداب بجا لاؤ، میں آداب بجا لایا۔ بادشاہ نے جواہرات کی معمولی رقمیں اپنے ہاتھ سے پہنائیں ۔ میں نے نذر دی اور بادشاہ اْٹھ کر خاص ڈیوڑھی سے محل میں چلے گئے۔ تمام درباری میرے والد کو بادشاہ کی اس عنایت پر مبارک سلامت کہنے لگے اس زمانہ میں میری عمر آٹھ نو برس کی ہو گی۔
کھیل کْود اور شرارتیں ۔
بچپن میں سر سید پر نہ تو ایسی قید تھی کہ کھیلنے کودنے کی بالکل پابندی ہو اور نہ ایسی آزادی تھی کہ جہاں چاہیں اور جن کے ساتھ چاہیں کھیلتے کودتے پھریں ۔ ان کی بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ خود ان کے ماموں ، ان کی خالہ اور دیگر نزدیکی رشتے داروں کے چودہ پندرہ لڑکے ان کے ہم عمر تھے جو آپس میں کھیلنے کودنے کے لیے کافی تھے۔ خواجہ فرید کی حویلی جس میں وہ اور ان کے ہم عمر رہتے تھے، اس کا چوک اور اس کی چھتیں ہر موسم کی بھاگ دوڑ کے کھیلوں کے لیے کافی تھیں ۔ ابتداء میں وہ اکثر گیند بلّا، کبڈی، گیڑیاں ، آنکھ مچولی، چیل چلو وغیرہ کھیلتے تھے۔ اگرچہ گیڑیاں کھیلنے کو اشراف معیوب جانتے تھے مگر ان کے بزرگوں نے اجازت دے رکھی تھی کہ آپس میں سب بھائی مل کر گیڑیاں بھی کھیلو تو کچھ مضائقہ نہیں ۔ سر سید کہتے ہیں کہ، کھیل میں جب کچھ جھگڑا ہو جاتا تو بڑوں میں سے کوئی آ کر تصفیہ کر دیتا اور جس کی طرف سے چنید معلوم ہوتی اس کو برا بھلا کہتا اور شرمندہ کرتا کہ چنید کرنا بے ایمانی کی بات ہے، کبھی چنید مت کرو اور جو چنید کرے اس کو ہرگز اپنے ساتھ مت کھیلنے دو۔ سر سید کا کہنا ہے کہ باوجود اس قدر آزادی کے بچپن میں مجھے تنہا باہر جانے کی اجازت نہ تھی، جب میری والدہ نے اپنے رہنے کی جدا حویلی بنائی اور وہاں آ رہیں تو باوجودیکہ اس حویلی میں اور نانا صاحب کی حویلی میں صرف ایک سڑک درمیان تھی، جب کبھی میں ان کی حویلی میں جاتا تو ایک آدمی میرے ساتھ جاتا، اسی لیے بچپن میں مجھے گھر سے باہر جانے اور عام صحبتوں میں بیٹھنے یا آوارہ پھرنے کا بالکل اتفاق نہیں ہوا۔