وجود

... loading ...

وجود

قومی اسمبلی اور ختم نبوت کا حلف نامہ

جمعرات 05 اکتوبر 2017 قومی اسمبلی اور ختم نبوت کا حلف نامہ

2 ستمبر پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے جس دن قومی اسمبلی نے انتخابی اصلاحاتی بل منظور کیا جو کہ صدر پاکستان کی منظوری کے بعد اب قانون بن چکا ہے آئین میں ترمیم کی جا چکی ہے جس کے مطابق ایک طرف تو کسی بھی عدالت کے طرف سے کسی بھی نااہل کردہ شخص جس پر ممبر بننے کی پابندی لگ جاتی ہے وہ سیاسی پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے مگر در پردہ امریکی سامراج کی پرانی خواہش جس کا وہ اظہارہر دور ہ کرنے والے وزیر اعظم اور صدر سے کرتے آئے ہیں کہ ان کے پروردہ قادیانی فرقہ پر لگائی گئی ضیاء الحق دور کی پابندیوں کو ختم کیا جائے کو بھی پورا کرڈالا گیا ہے ۔ممبران اسمبلی بننے کے لیے نامزدگی فارم سے عقیدہ ختم نبوت پر کیے جانے والے حلف کے مخصوص الفاظ کو ختم کردیا گیا ہے حلف کے الفاظ کو ختم کرنے سے اس کی ساری حیثیت ہی یکدم ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔
اگر کوئی منتخب ممبر اسمبلی مسئلہ ختم نبوت کی خلاف ورزی بھی کرڈالے گا یا کل کو اس تحریر میں درج کردہ الفاظ سے مکر جائے گا تو کوئی عدالت اس کے خلاف کاروائی نہیں کرسکے گی کہ وہ کوئی حلف نہیں دے رہا ہو گا صرف اعلان کرنے سے اس متعلقہ تحریر اور اس کے مندرجات کوئی قانونی و آئینی حیثیت نہیں رکھتے غرضیکہ کوئی قادیانی بھی اب ممبر اسمبلی منتخب ہو سکتا ہے اور اگر انگریزوں کا یہ خود کاشتہ پودا ختم نبوت اور رسالت محمد عربی ﷺپر ایمان نہ رکھنے والا مکروہ ٹولہ چاہے تو 350ارب روپے اپنے نام نہاد امریکی و اسرائیلی آقاؤں سے لے کر پوری پاکستانی قومی اسمبلی کے لیے اپنے ممبران منتخب کرواسکتا ہے ۔اور اپنی اسلام دشمن تحریروں میں بیان کردہ اکھنڈ بھارت جیسے مذموم مقاصدکی خاکم بدہن تکمیل کرسکتا ہے اب تو قومی اسمبلی کے پاس کردہ اس قانون کے الفاظ کو دوبارہ پوری قومی اسمبلی اور سینیٹ کی منظوری ہی تبدیل کرسکتی ہے یا پھر سپریم کورٹ حلف نامے کے الفاظ کو حذف کرنے کے لیے سو موٹو لے کریا کسی درخواست پر غیر آئینی اور غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے پرانی تحریر کو بحال کرسکتی ہے۔
اچھنبے کی بات تو یہ ہے کہ اسمبلی میں اسلام کی دعویدار دینی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی،جمیعت علمائے اسلام (ف)کے ممبران بھی آنکھیں بند کیے رہے اور انہیں یہ ترمیم شدہ الفاظ نظر کیوں نہ آئے جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے ممبران کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ کیسے ہوگیا۔اب پورے ملک میں تحفظ ختم نبوت کی تحریک جاری ہو چکی ہے علماء کے اکٹھے ہورہے ہیں ۔جمعۃ المبارک کے دن بھرپور احتجاجوں کا فیصلہ ہو چکا ہے۔اگر مذکورہ تحریر کونامزدگی کے پرانے ممبر شپ فارم پر پرانے حلف نامہ والے الفاظ سے تبدیل نہ کیا گیا تو غیر مسلم قادیانی بھی پاکستان کے اعلیٰ عہدوں صدر وزیر اعظم اسپیکر اسمبلی و چیئر مین سینٹ تک پہنچ سکتے ہیں پھر اس ملک کا اللہ ہی وارث ہوگا۔
قرائن بتاتے ہیں کہ خود حکمرانوں نے امریکا کا حکم مانتے ہوئے یہ الفاظ تبدیل کیے ہیں ۔پاکستانی مسلمان خون کے آنسو رورہے ہیں کہ عقیدہ ختم نبوت ﷺان کے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے جس کے تحفظ کے لیے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓکے دور میں مسیلمہ کذاب کے فتنہ کو کچلنے کے لیے جنگ میں 1200صحابہؓ شہید ہو ئے جس میں 700حفاظ بھی تھے۔ پھراسی عقیدہ کے تحفظ کے لیے 1953میں پاکستان میں چلنے والی تحریک کو کچلنے کے لیے ایک ہی دن 10ہزارسے زائدغیور مسلمان بزرگ، نوجوان، خواتین اور بچوں کو شہید کرڈالا گیا۔قادیانی مرتدین نے سوات کی سیر پر جاتے ہوئے نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء کو25 مئی 1974سابق ربوہ( حال چناب نگر )کے اسٹیشن پر اپنے کفریہ پمفلٹ بانٹے جس پر انہوں نے راقم کے لکھے ہوئے پمفلٹ “آئینہ مرزائیت”سے ان کی اپنی ہی کتابوں سے اسلام دشمن اور کفریہ عقائد دکھائے تو وہ بہت تلملائے اور جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا مگر ختم نبوت زندہ باد کے نعرے گونج اٹھے۔
29مئی کو واپسی پر قادیانیوں کے مسلح نوجوانوں نے نشتر کالج کی مخصو ص ریل گاڑی کی بوگیوں کو گھیر کر 186طلباء کو شدید زخمی کرڈالا تھا جس پر راقم اور نشتر طلباء یونین کے دیگر عہدیداروں کی پریس کانفرنس اگلے روز تمام میڈیا اور اخبارات کی ہیڈ لائن بن گئی اور پورے ملک میں قادیانیوں کے خلاف اس تحریک نے جنم لیاجس کے نتیجے میں قومی اسمبلی نے7ستمبر1974کو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے ڈالا۔جس کو پورے عالم اسلام میں سراہا گیااب تو600قادیانی اسرائیلی فوج میں شامل ہو کر تربیت حاصل کرکے واپس پاکستان بھی پہنچ چکے ہیں ۔حکمران انہیں فوراً گرفتار کریں نیز قادیانیوں نے ہندوستان میں اپنا ترکہ نہ چھوڑنے کے باوجود پاکستان میں ہندوؤں کی جائیدادیں الاٹ کروالی ہیں وہ واپس لی جائیں ۔یورپی یونین کی طرف سے گاہے بگاہے پاکستان کے آئین میں موجود تحفظ ناموس انبیائؑ کے قانون کے خاتمے کا مطالبہ سخت قابل مذمت ہے ۔ یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔
قادیانی جماعت ایک عرصہ سے اس تگ و دو میں لگی ہوئی ہے کہ1974کی قادیانیت سے متعلقہ آئینی ترامیم کو ختم کرایا جائے قادیانی جماعت مسلمانوں سے جدا گانہ تشخص ،کفریہ عقائد و نظریات رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان کہلانے پر بضد ہے۔آئینی طور پر انہیں غیر مسلم قرار دیا جاچکا ہے مگر وہ اپنی روایتی سرکشی وباغیانہ فطرت کے باعث اسلامی شعائر کی بے حرمتی ،آئین پاکستان کی توہین و تضحیک کرتے رہتے ہیں ۔پاک فوج کا ماٹو جہاد ہے اور قادیانیوں کو جہاد کے منکر ہونے کی وجہ سے فوج کے تمام عہدوں سے نکالا جائے محسوس ہوتا ہے کہ پورا نظام قادیانی اقلیت کے ہاتھوں میں یر غمال بن چکا ہے۔
گستاخیٔ رسول ﷺکے واقعات کا بروقت نوٹس لیا جاتا تو غازی ممتاز قادری جیسے لوگ عشق رسالت میں اشتعال پذیر نہ ہوتے۔ختم نبوت کی پاسبانی کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ عقیدہ توحید اور ناموس رسالت ﷺکا دفاع کرنا ہمارا فرض اولین ہے ۔مرزا قادیانی کی کتابیں کذب بیانی اور تضادات سے بھری پڑی ہیں ملک میں قتل و غارت گری پر یقین رکھنے والوں کی خالص لسانی جماعتیں قادیانی عقائد کو مزید تقویت دے رہی ہیں ۔ قادیانی عبادت گاہوں پر کلمہ طیبہ قرانی آیات اور اسلامی شعائر کا استعمال قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ شدت پسند قادیانیوں نے حربی باغیوں کا کردار اپنایا ہوا ہے بیرون ممالک اور میڈیا پر مظلومیت کا جھوٹا واویلا کرکے مغربی مراعات حاصل کرنے والے قادیانیوں کے خلاف عدالتی کاروائی کی جائے ناموس رسالت اور عقیدہ ختم نبوت کے دفاع کے لیے 1974میں خانقاہوں کے روحانی اثرات اور پیران عظام کے عملی کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتاآج کا تقاضا ہے کہ تمام مسالک مل کر اس فتنہ کی سرکوبی کریں اور حکمران امریکی سامراج کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے بجائے موجودہ آئینی ترمیم میں حلف نامہ کے الفاظ میں کی گئی کتر بیونت کو فوراً ختم کریں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر