... loading ...
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی اسلام آباد میں نیب عدالت کے باہر’’ تاریخی بے عزتی‘‘ کے بعد پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں ایک نئے محاورے کا اضافہ ہوگیا ہے’’ مجھے کیوں روکا‘‘ ۔اس سے قبل رواں سال کے دوران جب پانامہ کیس کی سماعت کے بعد’’ اقاما کیس ‘‘میں وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے کر اقتدار سے باہر کیا گیا تھا تو انہوں نے اسلام آباد سے لاہور جلوس کے ہمراہ سفر کے دوران ایک استعارہ باربار دہرایا تھا’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ ۔یہ جملہ میڈیا اور عوام کے درمیان ہر زبان زد خاص وعام ہوگیا تھا۔
وزیر داخلہ احسن اقبال سمیت وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت احتساب عدالت میں نااہل وزیر اعظم میاں نواز شریف کی پیشی کے موقع پر عدالت میں داخل ہونا چاہتے تھے جنہیں عدالتی حکم پر رینجرز نے گیٹ کے باہر ہی روک دیا۔ رینجرز نے عدالت کے حکم کی تعمیل کی جس کی ن لیگی وزراء دھجیاں اڑانا چاہتے تھے۔ غیر قانونی طور پر عدالت میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں ن لیگ کا دامن پہلے ہی داغدار ہے۔ 1997 میں میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ ان کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ کی سماعت جاری تھی۔ دوران سماعت ن لیگی لیڈر اور کارکن گیٹ پھلانگ کر سپریم کورٹ میں داخل ہوگئے۔ توڑ پھوڑ کی۔ چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ اور دیگر ججوں نے بھاگ کر اپنے کمروں میں چھپ کر جان بچائی تھی۔ اس جابرانہ ٹریک ریکارڈ کی روشنی میں پاک فوج اور اس کے ذیلی ادارے رینجرز کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جج حضرات اور عدلیہ کو تحفظ فراہم کریں ‘ ان کی جان کی حفاظت کریں ‘ کسی کو بھی قانونی عمل میں رکاوٹ نہ ڈالنے دیں اور عدلیہ پر ہر قسم کا حملہ روک دیں ۔
2 اکتوبر کو رینجرز نے اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کیا ہے‘ اس میں وزیر داخلہ احسن اقبال کا برا فروختہ ہونا کسی طور بھی مستحسن نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے بالکل درست کہا کہ وفاقی وزراء کو نواز شریف کی پیشیوں پر آنے کے سوا کیا کوئی کام نہیں ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ن لیگ 1997 کی طرح ایک مرتبہ پھر ججوں اور عدلیہ کو سبق سکھانا چاہتی ہے لیکن گزشتہ 20 برس کے دوران بہت سا پانی دریائے سندھ کے پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔ بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اب پاک فوج کے سربراہ جنرل جہانگیر کرامت نہیں ‘ جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں جو اس طرز عمل اور پالیسیوں کے امین ہیں جو جنرل راحیل شریف اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں ۔ اب فوج اور رینجرز کو آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کا تجربہ ہے۔ پاک فوج نے گزشتہ دس برس کے دوران بیش بہا قربانیاں دی ہیں ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے بقول فوج اپنے اٹھارہ انیس سال کے جوان اور آفیسرز قربان کررہی ہے تاکہ پاکستان میں امن واستحکام ہو‘ لوٹ مار اور کرپشن ختم ہو‘ لوٹ کا مال ملک میں واپس آئے وزیر داخلہ احسن اقبال کہتے ہیں کہ اوپن کورٹ کو کس نے ٹیک اوور کیا‘ اس کی تحقیقات کی جائے گی‘ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی‘ ریاست کے اندر ریاست نہیں چلنے دیں گے۔ حالانکہ یہ کام خود ن لیگ کررہی ہے۔
میاں نواز شریف کو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے نااہل کیا ہے‘ اس کے حکم کو وہ تسلیم نہیں کررہے اور دریافت کررہے ہیں کہ انہیں کیوں نکالا احتساب عدالت میں واپسی کے باوجود ان کے بچے مریم نواز‘ حسین اور حسن نواز اور داماد کیپٹن صفدر عدالت میں پیش نہیں ہورہے جس کے بعد ان کیقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں ۔ ان کے سمدھی اسحاق ڈار نے احتساب عدالت کی جانب سے نا کردہ فرد جرم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ عدالتوں اور قانونی فیصلوں کو تو نواز خاندان تسلیم نہیں کررہا ہے۔ اس پر رینجرز عملدرآمد کرانا چاہتی ہے تو اسے خلا ف قانون قرار دیا جارہا ہے۔ عجب طرفہ تماشا لگا ہوا ہے عدالت عظمٰی نے میاں نواز شریف کو نااہل کیا اور انہیں حکومت اب بھیوزیر اعظم کا پرو ٹوکول دے رہی ہے‘ ان کی جگہ لینے والے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی فرماتے ہیں کہ نواز شریف ہی میرے وزیر اعظم ہیں ۔ گویا کہ سپریم کورٹ کے حکم کو خود وزیر اعظم ہی پامال کررہے ہیں ۔ سینیٹ میں جس بھونڈے طریقے سے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم پاس کراکے نواز شریف کے لیے ن لیگ کا صدر بننے کی راہ ہموار کی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کے اجلاس میں پارٹی آئین تبدیل کرکے میاں نواز شریف کو صدر منتخب کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے ’’ٹاپ سیاستدانوں ‘‘ پر برا وقت نازل ہے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی پارٹی انتشار کی شکار ہوکر کئی دھڑوں میں تقسیم ہے۔ نیب اور عدلیہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے تعاقب میں ہیں ۔
1997-98 اور اس کے بعد 2008 بعد اول الذکردونوں سیاستدانوں کا اچھا وقت تھا میاں نواز شریف نے بیک وقت صدر مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری‘ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جہانگیر کرامت اور چیف جسٹس سپریم کورٹ سید سجاد علی شاہ سے جنگ لڑی اور کامیابی حاصل کی۔ آصف علی زرداری نے اپنی اہلیہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد صدر پاکستان کا عہدہ حاصل کیا اور 5 سال تک بڑے اطمینان سے اپنی مدت پوری کی ۔متحدہ بانی الطاف حسین کی مرضی کے بر خلاف کراچی‘ حیدرآباد جیسے شہروں میں چڑیا بھی پر نہیں مارسکتی تھی۔ عام انتخابات میں ایم کیو ایم کی مسلسل کامیابی کا شاندار اور تاریخی ٹریک ریکارڈ موجود تھا لیکن موجودہ وقت تینوں ٹاپ سیاستدانوں کے لیے سازگار نہیں ہے۔ علم فلکیات (آسٹرولوجی) کے ماہرین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ انسان پر ساڑھ ستی کا وقت بڑا بھاری گزرتا ہے۔ اس دوران یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ اپنی سرگرمیاں کم سے کم کردی جائیں تاکہ نقصانات کا احتمال کم ہو۔ اداروں اور عدلیہ سے لڑائی سخت بھاری پڑ سکتی ہے۔ ان تینوں سیاستدانوں میں سے آصف علی زرداری نے شاید آسٹرولوجی کا سبق پڑھ رکھا ہے یا ان کے پیروں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ بہت آہستہ چلیں اور محتاط رویہ اختیار کریں ۔ ان کی پارٹی اس مشورے پر عمل پیرا ہے۔ زیادہ سختی کی صورت میں وہ دبئی یا لندن جاکر بیٹھ جاتے ہیں اور پاکستان کے سب سے بڑے بزنس ٹائیکون ملک ریاض حسین کو درمیان میں ڈال کر پھر وطن واپس آجاتے ہیں جیسا کہ گزشتہ ہفتہ ہوا ہے۔ لڑائی اور تنازعہ ہمیشہ سیاستدانوں کے حق میں ہی برا ثابت ہوا ہے 1977 اور 1999 اس کے شاہد ہیں ۔جب جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے طاقتور سیاستدانوں کو گھر بٹھادیا تھا۔