... loading ...
جراتشجاعت، عبادت، شعور، حریت، خودداری، ایثار وقربانی اور صبر و انقلاب ان تمام فلسفوں کو یکجا کیا جائے تب بھی فلسفہ کربلا کی تفسیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ میدان کربلا میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے خطبے نے استقامت، صبر، شجاعت، غیرت، عزت، صداقت، امانت، شرافت، وفاداری اور استواری کو معنیٰ و مفہوم کی انتہا پر پہنچا دیا۔ یزیدی فوج کے سامنے دیئے گئے اپنے خطبے میں امام حسین نے فرمایا۔۔۔ اے لوگوں ! جلدی نہ کرو۔ پہلے میری بات سن لو۔ مجھ پر تمہیں سمجھانے کا جو حق ہے اسے پورا کرلینے دو اور میرے آنے کی وجہ بھی سن لو۔ اگر تم میرا عذر قبول کرلو گے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے لیکن اگر تم اس کے لئے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی۔ تم اور تمہارے شریک مل کر میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ اللہ تعالیٰ میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے لوگوں ! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں ۔ اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو۔ تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ ان کے چچازاد بھائی علی کا بیٹا نہیں ؟ جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کیا اور اس کے رسول پر ایمان لائے؟ کیا سیدالشہداء حضرت امیر حمزہ ؓمیرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیارؓمیرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا کہ حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں ۔
اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے۔ تو بتاؤ کہ کیا اب بھی تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے، اگر تم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو تو آج بھی تم میں وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث سن رکھی ہے کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ۔تم ان سے دریافت کرسکتے ہو۔ جابر موجود ہیں ، زید بن ارقم موجود ہیں ، انس بن مالک موجود ہیں ۔ اْن سے دریافت کرو اور پھرتم مجھے بتاؤ کہ کیا رسول خدا اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ فرامین بھی تمھیں میرا خون بہانے سے باز نہیں رکھ سکتے۔ وائے ہو تم پر میری طرف توجہ کیوں نہیں دیتے ہو تاکہ تم میری بات سن سکو۔ جو شخص بھی میری پیروی کرے گا وہ خوش بخت اور سعادت مند ہے اور جو کوئی گناہ اور مخالفت کا راستہ اختیار کرے گا، ہلاک ہونے والوں میں اس کا شمار ہوگا۔تم سب نے گناہ اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا۔ میرے حکم اور مشن کی مخالفت کر رہے ہو، اسی لئے میری بات نہیں سن رہے۔ ہاں یہ ان ناجائز اور حرام طریقہ سے حاصل شدہ تحفوں کا اثر ہے جو تمہیں اس فاسق گروہ کی طرف سے ملے ہیں ۔ یہ ان حرام اور حرام غذاؤں اور غیر شرعی لقموں کا اثر ہے جن سے تمہارے پیٹ بھرے ہوئے ہیں کہ خدا نے تمہارے دلوں پر اس طرح مہریں لگا دی ہیں کہ میری بات نہیں سن رہے۔
یہ امام حسین کے خطبے کا اقتباس ہے۔۔ امام حسین کے ماننے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ امام عالی مقام کے قول پر لبیک کہیں ، اپنے اندر روح کربلا جذب کریں اور وہ زندگی گزاریں جس کی امام حسین نے دعوت دی ہے۔ باطل کی کثریت سے خوف زدہ اور مرعوب ہونے کے بجائے اس کے ساتھ پوری جوانمردی سے مقابلہ کرنے کے حسینی عمل کی تقلید کریں ۔ انسان کو بیدار تو ہولینے دو، ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین۔