وجود

... loading ...

وجود

زمانے سے آزادہوکرسوچیں

جمعه 29 ستمبر 2017 زمانے سے آزادہوکرسوچیں

آج کے انسان کے پاس سوچنے کے لیے وقت ختم ہوگیاہے وہ ایک مشین ہے جس کاکام پیسے کمانااورکمانابہت کمانااورہمیشہ کماناہے ۔مرداورعورت سبھی دولت جمع کرنے کے لیے صبح صبح گھروں سے اپنے نرم گرم بسترچھوڑکرمجبوری کی حالت میں نکل پڑتے ہیں ۔کراچی لاہور،فیصل آبادراولپنڈی کوئٹہ پشاورمیں صبح 7بجے اورشام 5 سے 8بجے تک بدترین ٹریفک جام ہوتی ہے ۔انسانوں کی شکل کے روبوٹ بس زندگی کی گاڑی کوکھینچنے کے لیے بغیرسوچے سمجھے ایک ریس میں مگن ہیں ۔
اگرہم آج کی طرززندگی پرتنقیدکرتے ہیں توہمارے سامنے چندعجیب سوالات آتے ہیں ۔موجودہ طرززندگی پرکی جانے والی تنقیدکولوگ سائنس پرتنقیدسمجھتے ہیں ۔مثلا اگرآپ کسی شخص سے کہیں کہ روزدنیامیں سینکڑوں لوگ ٹریفک حادثات میں زخمی ہوتے ہیں بعض عمربھرکے لیے معزورہوجاتے ہیں اورکئی لوگ اپنی جان سے جاتے ہیں ۔ٹرین کے حادثے میں کئی کئی سولوگ مارے جاتے ہیں ،فضائی حادثات میں ایک ہی لمحے میں کئی سولوگ بوڑھے بچے عورتیں مرجاتے ہیں ۔اگرکوئی کہے کہ ان سب کی ذمے دارجدیدذرائع نقل وحرکت یعنی ٹرانسپورٹ ہے ۔لہذالوگوں کوچاہیے کہ وہ پرانے ذرائع نقل وحرکت کی طرف لوٹ جائیں ۔یہ بات سنتے ہی سامنے بیٹھاشخص آپ کوذہنی مریض کہے گااوراس کی نظرمیں آپ ایک پاگل اورجاہل شخص ہیں ۔لوگ آپ کی درست اورحقیقت پرمبنی جدیدیت پرتنقیدکودراصل سائنس پرتنقید سمجھتے ہیں جودرست ہے ۔ لہذالوگ ان مسائل کاشکار ہونے کے باوجودان کاحل نہیں تلاش کرتے ۔یاکوئی حل تلاش کرے گاتووہ یہ کہ ایموبس سروس کوفعال کردیں ہوائی ایمولینس کابندوبست کریں ‘ مگرسوال یہ ہے کہ اس بات کی کیاگارنٹی ہے کہ ایمولینس حادثے کاشکار نہیں ہوگی ؟اگرکوئی کہے کہ اس بات کی کیاگارنٹی ہے کہ گھوڑے اوراونٹ پرسفرکرنے کے نتیجے میں حادثات نہیں ہونگے ؟ کیاگھوڑے اوراونٹ پرسفرکرنے کے وہ نتائج نکلتے ہیں جوجدیدٹرانسپورٹ پرسفرکرنے سے نکلتے ہیں ؟اول توسرمایادارانہ نظام نے اب کوئی راستہ باقی نہیں رہنے دیاکہ لوگ قدیم طرززندگی کوبحال رکھ سکیں اگردنیاکے کچھ حصوں میں قدیم اورروایتی طرززندگی کے آثار باقی بھی ہیں تووہ جلدختم ہوجائیں گے یاختم کردیئے جائینگے ۔
اس لیے اب قدیم سواری کے ذرائع استعمال میں لاناایک خواب سے کم نہیں ہے ۔مگرہم سوال یہ کررہے ہیں جب لوگ اپنی آنکھوں سے جدیددنیامیں ہرروزسینکڑوں اورسال بھرمیں ہزاروں لوگوں کوجدید سفری سہولیات کی وجہ سے زخمی معذوراورمرتے دیکھتے ہیں توپھروہ اس کوبطورمسئلہ قبول کیوں نہیں کرتے ؟ٹی وی اوراخبارات میں سیلاب طوفانوں اورزلزلوں کی ہرسال یادمنائی جاتی ہے ۔مگرٹائی ٹینک جہازکے حادثے اورماضی کے بڑے بڑے فضائی حادثات ،ٹرینوں کے حادثات ،ٹریفک حادثات کی یادکیوں نہیں منائی جاتی ؟اخبارات اورٹی وی لوگوں کوحادثات کے ایام یادکیوں نہیں کرواتے ؟جوآزمائش اللہ پاک کی طرف سے سیلاب یازلزلے کی وجہ سے آتی ہے وہ ہرسال یادکروائی جاتی ہے مگرجوجدیدترقی یافتہ خدابے زارانسان کے ہاتھوں تیارکردہ مشینوں کی وجہ سے آتی ہے اس کی یادکیوں نہیں منائی جاتی ؟کیایہ محض اتفاق ہے یاکوئی سازش ہے ؟دراصل یہ ترقی پرایمان تک یقین کرنے کے بعدپیداہونے والاردعمل ہے ۔
17صدی کے انقلاب کے بعدٹرانسپورٹ کوجبرکے طورپرسامنے لایاگیاہے۔اگرتیزترین ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ہوگی توپھرکوئی پشاورسے کراچی نوکری کرنے کیوں آئے گا؟اگرماضی میں لوگ سفرکرتے تھے معاش کے لیے تو سوال یہ ہے کہ کتنے لوگ سفرکرتے تھے ؟کیاہرگھرکاایک فرددوسرے صوبے دوسرے شہریادورکے ملک میں معاش کے لیے جاتاتھا؟یاکوئی اکادکاافرادہوتے تھے جوسفرکرتے تھے ۔اورلوگوں کے گھرسے دورنوکری کرنے کے نتیجے میں جوسماجی ،اخلاقی مسائل جنم لیتے ہیں ان کاادراک کون کرے گا؟لوگ اپناقدیم گھراوربرادری چھوڑکرجب نئے علاقوں میں داخل ہوتے ہیں ، پھر 20 سالوں بعدجب ان کوبیٹیوں کے رشتے کرتے وقت جن مشکلات کاسامنا کرناپڑتاہے کیایہ کسی کے وہم وگمان میں بھی ہے ؟جہاں تک حادثات کاتعلق ہے تواخلاقی ،سماجی حادثات کاازالہ توکیاہی نہیں جاسکتا۔
پھراگرلڑکی کوباپ قتل کردے تواس خبرکی عمرکئی دنوں کی ہوتی ہے ۔ اس ایک قتل کی خبرجنگل میں آگ کی مانندپھیلتی ہے ۔ہم باپ کے قتل کرنے کی حمایت نہیں کررہے بلکہ ان وجوہات کی طرف اشارہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے لڑکیاں بھاگتی ہیں اورقتل ہوتی ہیں ۔ اس طرح کے قتل پراین جی اوزکی آنٹیاں تماشاکرنے پریس کلب آجاتی ہیں ،اورچیف جسٹس بھی سوموٹولیتے ہیں اب پولیس بھی حرکت میں آتی ہے ۔اورکوئی شرمین عبیدچنائے فلم بھی بناتی ہے ۔کیاشرمین عبیدچنائے فضائی حادثوں ،ٹرین حادثوں پرفلم بھی بنائے گی ؟جلے لاشے ،کٹے پٹے چیختے انسان۔ کسی کاہاتھ کہیں کسی کاپاؤں کہیں پڑاہوتاہے۔ اس پرفلم بنائے گی شرمین؟ کبھی نہیں بنائے گی کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی کی خاطرمرنے والوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں ،جدیدسفری سہولیات سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ضروری ہیں اس لیے ان حادثات میں مرنے والوں کی نہ کوئی گنتی کرتاہے نہ ان کے مسائل پرکوئی ماتم کرتاہے ۔یہ بے چارے ترقی کی تاریک راہوں میں مارے گئے۔
مگرسوال یہ ہے کہ لوگ یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ آخرکب تک ہم مرتے رہیں گے ؟اس سوال کاجواب یہ ہے کہ لوگ زمان ومکان کے قیدی ہوتے ہیں وہ جس دورمیں جیتے ہیں اس دورکے غلام ہوتے ہیں ۔وہ جس عہدمیں پیداہوتے ہیں اس عہدکوعظیم عہدسمجھتے ہیں ۔ان کے سوالات بھی زمان ومکاں کے اپنی تاریخ سے پیداہوتے ہیں ۔حادثات میں مرنے والوں کے لواحقین صرف یہ اپیل کرتے ہیں کہ ایمبولینس جلدی نہیں آئی ۔چوک میں ٹریفک والاڈیوٹی پرہوتاتوابابچ سکتے تھے ۔اسپتال بہت دورتھاورنہ اماں کبھی نہ مرتی وغیرہ وغیرہ یہ مسائل کے حل بھی ان کے اپنے تجویزکردہ نہیں ہیں ۔یہ حل بھی اس تاریخ نے ان کے دماغ میں ڈالے ہیں ،سوال یہ ہے کہ حادثات توان ملکوں میں بھی ہوتے ہیں جہاں ایمبولینس وقت پرپہنچتی ہے ۔بلکہ ہیلی کاپٹرایمبولینس سروس مہیاکی جاتی ہے ۔
اورجہاں سگنل پرٹریفک والے بھی کبھی غائب نہیں ہوتے ۔ان تمام سوالات اورمسائل کاحل تلاش کرنے کے لیے ہمیں تاریخ سے اوپراٹھ کرسوچنے کی ضرورت ہے ۔جیسے 427قبل مسیح میں Platoسوچتاتھا۔ 1724 میں پیداہونے والا Kantسوچتاتھاجیسے 1921میں پیداہونے والاJohn Rawls سوچتاتھاجیسے 1931میں پیداہونے والافلسفی Rortyسو چتا تھا۔اگرآپ ان مسائل کے حل میں دلچسپی رکھتے ہیں توضروری ہے کہ آپ اس دنیاکے مسائل پرجب بات کریں توخودکواس تاریخ اوراس جدیدتہذیب کی ذہنی غلامی سے آزادی دلواکرکریں ۔ اوریہ اسی صورت میں ممکن ہوگاجب آپ جدیددورکے مسائل کاحل تلاش کرتے وقت اپنے زمانے کی قیدسے آزادہوکرسوچیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر