... loading ...
ایچ اے نقویایف بی آر کی ٹیکس وصولی کے حوالے سے ملنے والے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتاہے کہ ایف بی آر کے افسران اور عملے کے ارکان رواں مالی سال 2017-18 کی پہلی سہہ ماہی کے دوران بھی ٹیکس وصولی کا مقررہ ہدف پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں،ایف بی آر کے ذرائع کے مطابق رواں مالی سال 2017-18 کی جولائی ستمبر کی سہہ ماہی کے دوران وصولی کاہدف782.1 ارب روپے مقرر تھا ، جبکہ اس مقررہ ہدف کے مقابلے میں صرف753 ارب روپے وصول کئے جاسکے،س طرح ٹیکس وصولی میں کم وبیش29 ارب روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی ، ایف بی آر کے ذرائع کاکہناہے کہ رواں سال کی پہلی سہہ ماہی کے دوران ٹیکس وصولی کے کم وبیش 8ارب پائپ لائن میں ہیں اس طرح ٹیکس وصولی کے ہدف میں صرف 20 ارب روپے کی کمی رہ جائے گی ،جبکہ ایف بی آر کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ایف بی آر کے افسران اور عملے کے ارکان رواں مالی سال کی ہر سہہ ماہی کے لیے ٹیکس وصولی کا مقررہ ہدف پورا کرنے میں اسی طرح ناکام ہوتے رہے اور ٹیکس وصولی کی شرح میں اضافہ کرنے میں ناکام رہے تو رواں مالی سال کے دوران بھی بجٹ میں رکھا گیا ٹیکس وصولی کاہدف پورا کرنا ممکن نہیں ہوسکے گا اور رواں مالی سال کی آخری سہہ ماہی سے قبل ہی ٹیکس وصولی کے ہدف پر نظر ثانی کرکے گزشتہ مالی سال کی طرح اس میں کمی کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا جس کے اثرات ملک میںجاری اور مجوزہ ترقیاتی کاموں کے علاوہ عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے منصوبوں پر بھی پڑیں گے اور ہدف کے مطابق رقم دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے منصوبے درمیان میں ہی ادھورے چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ایف بی آر کے ذرائع کاکہناہے کہ رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی کے دوران ٹیکس وصولی کی ابتدائی صورت حال بہت ہی حوصلہ افزا تھی اور ٹیکس وصولی کی شرح گزشتہ سال کی نسبت 20 فیصد زیادہ ریکارڈ کی جارہی تھی لیکن سہہ ماہی کے اختتام پر یہ ظاہرہوا کہ ٹیکس وصولی کا مقررہ ہدف ہی پورا نہیں ہوسکا ہے۔ایف بی آر کے ذرائع کاکہنا ہے کہ 29 ستمبر تک ایف بی آر کو ٹیکس دہندگان کی جانب سے صرف 2 لاکھ گوشوارے موصول ہوسکے تھے جوکہ گزشتہ سال جمع کرائے گئے انکم ٹیکس گوشواروں کی مجموعی تعداد کے صرف 17 فیصد کے مساوی ہیں، اس صورت حال کے پیش نظر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے انفرادی، ایسوسی ایشنز اور کمپنیوں کے لیے پہلی سہہ ماہی کے دوران ٹیکس گوشوارے اور ٹیکس جمع کرانے کی میعاد میں ایک ماہ کی توسیع کرکے آخری تاریخ 31 اکتوبر مقرر کردی ہے تاکہ کم از کم ریکارڈ میں ایف بی آر کے افسران کی کچھ بہتر کارکردگی دکھائی جاسکے۔کیونکہ اصولی طورپر اضافی مدت کے دوران جمع ہونے والے ٹیکسوں کی رقم دراصل دوسری سہہ ماہی کی آمدنی شمار کی جانی چاہئے۔بصورت دیگر دوسری سہہ ماہی صرف دو ماہ کی رہ جائے گی اور جب پورے تین ماہ میں ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہیں کیاجاسکتا تو پھر دوماہ میں سہہ ماہی ہدف کس طرح پورا کیاجائے گا۔ ایف بی آر کے ذرائع کادعویٰ ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی کے دوران انکم ٹیکس کے جمع کرائے گئے گوشواروں کی تعداد کم ہونے کی ایک بڑی وجہ ایف بی آر کے حکام کی جانب سے ٹیکس گوشواروں کے فارمز کو حتمی شکل دینے میں تاخیر تھی۔وفاقی ریونیو بورڈ کے اندرونی ذرائع نے انکشاف کیاہے کہ ملک میں مجموعی طورپر 4.3 ملین یعنی43 لاکھ افراد ایف بی آر میں ٹیکس دہندگان یا متوقع ٹیکس دہندگان کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہیں لیکن گزشتہ سال ان میں سے صرف 1.2 ملین یعنی 12 لاکھ افراد نے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے جس سے ظاہرہوتاہے کہ ایف بی آر کا عملہ انکم ٹیکس کے قوانین پر پوری طرح عملدرآمد کرانے میں بری طرح ناکام رہاہے اور متوقع ٹیکس دہندگان کی بڑی تعداد ٹیکس نیٹ سے بچ نکلنے میں کامیاب رہی ہے۔ایف بی آر کے حکام کی ناقص کارکردگی کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ عالمی بینک نے اپنے طورپر کرائے گئے ایک سروے کے بعد اپنی جو رپورٹ جاری کی تھی اس میں انکشاف کیاتھا کہ ایف بی آر کے حکام کی ناقص کارکردگی اور ٹیکس قوانین پر پوری طرح عملدرآمد نہ کرائے جانے کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال کم وبیش 3.2 ٹریلین یعنی 3کھرب 20 ارب روپے کانقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے ۔جہاں تک رواں سال کی پہلی سہہ ماہی کے دوران جمع کئے جانے والے ٹیکس کاتعلق ہے تو اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیکس کی یہ رقم جمع کرنے میں بھی ایف بی آر کے حکام اور عملے کی کوششوں کاعمل دخل بہت کم ہے کیونکہ پہلی سہہ ماہی کے دوران وصول کی جانے والی رقم کا بڑا حصہ بالواسطہ ٹیکسوں اورڈیوٹیز کے ذریعے حاصل کیاگیاہے جو کہ ٹیکس وصولی کاانتہائی آسان ذریعہ ہے۔ایف بی آر کی ناقص کارکردگی پرمیڈیا کی جانب سے کی جانے والی تنقید سے بچنے کے لیے ایف بی آر کے نئے چیئرمین طارق پاشانے ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولی کے اعدادوشمار سے عوام اور خاص طورپر میڈیا کو لاعلم رکھنے کے لیے میڈیا کو اس حوالے سے کسی طرح کی معلومات فراہم کرنے پر سختی کے ساتھ پابندی عاید کردی ہے۔جبکہ اس سے قبل ایف بی آر کے ترجمان ٹیکس وصولی کے حوالے سے معلومات میڈیا کو بتایاکرتے تھے اور ساتھ ٹیکس اہداف پورے کرنے میں ناکام رہنے کے اسباب کی بھی وضاحت کردیتے تھے اس طرح عوام صحیح صورت حال سے آگاہ رہتے تھے اور میڈیا کی جانب سے اس اہم ادارے کی کارکردگی پر کی جانے والی تنقید کی وجہ سے ایف بی آر کے اعلیٰ افسران اور عملے کے ارکان اور خود وزارت خزانہ کے ارباب اختیار معاملات کی درستگی کے لیے بروقت اقدامات کرتے رہتے تھے۔تاہم ایف بی آر کے چیئرمین طارق پاشا نے گزشتہ روز یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کاادارہ ٹیکس وصولی کے اہداف پورے کرلے گا ان کاموقف یہ تھا کہ پہلی سہہ ماہی کے دوران ٹیکس وصولی کے اعدادوشمار کو پورے سال کی کارکردگی کاپیمانہ نہیں بنایاجانا چاہئے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ایف بی آر کے نئے چیئرمین طارق پاشا رواں سال کے لیے ٹیکس وصولی کامقررہ ہدف پورا کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اور اپنے عملے کو کس طرح اتنا فعال اور چوکس بنانے میں کامیاب ہوتے کہ ٹیکس وصولی کی ناقص کارکردگی کے الزامات یا قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوسکیں۔