... loading ...
تہمینہ حیات نقوی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ تقریر کے بعد جس میں انھوں نے انتہائی طوطا چشمی کامظاہرہ کرتے ہوئے امریکا کے لیے پاکستان کی تمام قربانیوں اوردہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے بے پناہ جانی ومالی نقصانات کونظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کی امداد بند کرنے اور دیگر پابندیاں عاید کرنے کی دھمکیاں دیتے ہوئے بھارت کے کردار کو حقوق انسانی کی پامالی اور امن مخالف جارحانہ سرگرمیوں کی وجہ سے پوری دنیا کے امن پسند عوام اور حقوق انسانی کی تنظیمیںجس پر لعن طعن میں مصروف ہیں ، پاکستان میں امریکا پر سے ہی نہیں بلکہ تمام مغربی ممالک پر سے انحصار کم کرنے او ر ایک خوددار قوم کی حیثیت سے قوموں کی برادری میں اپنی شناخت پیدا کرنے کے مطالبات زور پکڑتے جارہے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کا ایک خوددار ملک کی حیثیت سے اپنی شناخت پیدا کرنے کے مطالبات اور خواہشات کاتعلق ہے تو اس کی اہمیت اور ضرورت سے کوئی بھی ذی ہوش او ر محب وطن پاکستانی انکار نہیں کرسکتا، لیکن یہ مقصدصرف سیمینارز میں تقریریں کرنے اور مذاکروں اور مباحثوں کے ذریعہ حاصل نہیں کیاجاسکتا،اس مقصد کے لیے مربوط حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ انتہائی استقامت کی ضرورت ہے ،اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری حکومت عوام کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ پیش رفت پر غور کریں،کیونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ عوام کی صلاحیتوں سے پوری طرح فائدہ اٹھایا جائے تو ہم اپنے ملک کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے پاس بیش بہا وسائل ہیںجن کے ذریعے ہم اپنی معاشی حالت بہتر بنا سکتے ہیں۔ خودداری کے لیے خودکفالت بہت ضروری ہے۔ ہمیں غیر ملکی امداد ترک کر کے خود انحصاری پر بھروسہ کرنا چاہیے۔خوددار ملک بننے کی خاطر ہمیں غیر ملکی امداد اور قرضوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور خود کفالت‘ کفایت شعاری اور سادگی کو اپنے قومی کردار کا حصہ بنانا ہوگا۔
پاکستان کو ایک خوددار ملک بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں دنیا کے سامنے خود کو بھکاری بناکر پیش کرنے کاوطیرہ تبدیل کریں ہم اپنی خارجہ اور داخلی پالیسیاں اپنی ضرورت کے مطابق تیار کریں اور کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے کسی ملک کے خواہ وہ امریکا ہی کیوں نہ ناراضگی اور خوشی کا خیال کئے بغیر اپنی ضرورتوں کو ترجیح دیں،مثال کے طورپر ایک خوددار ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے ہمارے وزیراعظم کو امریکا کے ڈرون حملے کے بعد امریکا جانے سے پہلے امریکی سفیر سے ملاقات نہیں کرنا چاہیے تھی۔ یہ طرز عمل قومی خودداری کے خلاف ہے۔ قومی غیرت مندی کے لیے ہمیں قائداعظم کے رویے کو سامنے رکھنا ہوگا۔
یہاںیہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ جب ہمیں کوئی ملک امداد دیتا ہے تو وہ اپنی شرائط بھی عائد کرتا ہے۔ اکثر یہ شرائط ہماری خودداری اور غیرت کے خلاف ہوتی ہیں۔ اس صورتحال میں امداد کا بڑا حصہ واپس چلا جاتا ہے۔ غیر ملکی امداد کے ساتھ کئی مشورے بھی آتے ہیں اوربعض اوقات بلکہ بسااوقات ہمیں امدادی رقم استعمال کرنے کے لیے ایڈوائزرز اور کنسلٹنٹس بھی امداد دینے والے ملک کی مرضی اورہدایت کے مطابق رکھنا پڑتے جنھیں بھاری فیس ادا کرنا پڑتی اس طرح کڑی شرائط پر ملنے والی امدادی رقم ہم آزادی سے استعمال نہیں کر سکتے۔
اس حوالے سے ایک پرانا واقعہ ہمارا سامنے ہے بیگم رعنا لیاقت علی خان ہالینڈ میں سفیر مقرر ہوئیں۔ ایک محل انہیں تحفے میں ملا تو انہوں نے وہ محل پاکستانی سفارت خانے کو دے دیا ہمارے وزرا، وزیراعظم اور سفارتکاروں کو بھی ان ہی کی تقلید کرنی چاہئے۔ہمیں اس قو م کو حقیقی معنوں میں خود دار قوم بنانے کے لیے دولت کی اس انتہائی غیر مساوی تقسیم کاخاتمہ کرنا ہوگا اور اس ملک کے ہر شہری کو زندگی کے لیے ضروری کم از کم سہولتوں کی بآسانی فراہمی کا انتظام کرنا ہوگا جبکہ اس وقت ہماری معاشی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ہاںبیشتر لوگوں کی ماہانہ آمدنی 20 ہزار روپے بھی نہیں ہے جبکہ بعض لوگ ایک وقت کے کھانے کے لیے 20 ہزار روپے اڑادیتے ہیں۔
یہ بات یقینا خوش آئند ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ اب پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے بھی جرات ایمانی پر مبنی ردِعمل سے پاکستانی قوم کی حقیقی امنگوں کی ترجمانی کی ہے نیز ایک خوددار ملک اور غیور قوم کی حیثیت سے پاکستان کا تاثر مضبوط کیا ہے۔ مفکر پاکستان نے مسلمانوں کو خودی یا خودشناسی کا جو درس دیا تھا‘ آج کا پاکستان اس کی عملی تعبیر دکھائی دے رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جذبے اور عزم کو پائیدار بنیادوں پر استوار کیاجائے،اور ایک خوددار قوم اور خودمختار ملک ہونے کے حوالے سے عوام کا شعور بیدار کیاجائے اور انہیں خطے میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال سے پیدا شدہ چیلنجز سے عہدہ برآہونے کے لیے تیار کیا جائے۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان کے عوم فطری طورپر خوددار ہیں ،پاکستان کے عوام بھوک پیاس برداشت کرسکتے ہیں مگر اپنی خودداری اور حاکمیت اعلیٰ پر کبھی سمجھوتہ کرنے پر کبھی تیار نہیں ہوں گے ۔ قدرت نے ہمیں بیش بہا مالی وسائل عطا فرمائے ہیں جن کے منصفانہ استعمال کے ذریعے ہم پاکستان کو معاشی لحاظ سے انتہائی مستحکم ریاست بناسکتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ہم بحیثیت قوم خودداری کا مظاہرہ اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے گریز کریں گے تو دنیا ہماری عزت کرے گی اور افغانستان و بھارت کے حوالے سے ہمارے موقف کی تائید کرے گی۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ‘ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو بعض کامیابیوں کے باوجود سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ، زر مبادلہ ذخائر میں کمی اور سرکاری اداروں کے نقصانات ترقی کو خطرے سے دوچار کر سکتے ہیں،پاکستانی حکومت کو مستقبل قریب میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے توازن میں جس مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس کی ایک جھلک ایشیائی ترقیاتی بینک کی اس رپورٹ میں نظر آ رہی ہے اس لیے حکومت پاکستان کو اپنے دستیاب مالی وسائل کو نہایت احتیاط کے ساتھ اپنی ضروریات پر خرچ کرنا ہونگے۔ اس کے علاوہ ہمیں ملک میں مالی مسابقت اور مالیاتی استحکام کے لیے میکرواکنامک اورا سٹرکچرل اصلاحات بھی کرنا ہوں گی، تاکہ ملکی معیشت کو صحیح راہ پر گامزن رکھا جا سکے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو سرمایہ کاری کے منصوبوں کے لیے 800ملین ڈالر کا جو قرضہ دیا ہے وہ اقتصادی رابطہ اور علاقائی تجارت میںا ضافہ کے منصوبوں پر خرچ کیا جا سکتاہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے پاکستانی حکومت فوری طور پر بیرونی ادائیگیوں جیسے مسئلہ کو حل کرنے پر بھرپور توجہ دے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے جس پر غور کرنا بے حد ضروری ہے جس کے لیے ہمیں کرنٹ اکائونٹ خسارے، زر مبادلہ میں کمی اور سرکاری نقصانات جیسے بڑے بڑے مسائل پر قابو پانا ہوگا۔ہمارے حکمرانوں کو یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ قرضے اور بھیک لینے والے ممالک کبھی خوددار نہیں ہو سکتے۔‘‘ ان کی اپنی کوئی پالیسی نہیں ہوتی۔ بھکاری کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ جب تک ہم خود اپنی معیشت کومضبوط نہیں بنائیں گے عالمی برادری میں ہماری کوئی عزت نہیں ہوسکتی۔