... loading ...
وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزام میں فرد جرم عاید کئے جانے کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن پارٹیوں نے اسحاق ڈار پر وزارت سے استعفیٰ دینے کے لیے دبائو بڑھا دیا ہے ،اگرچہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شروع کی گئی مہم کی وجہ سے قومی اسمبلی میں باقاعدہ طورپر یہ مطالبہ نہیں اٹھایاگیاہے لیکن خیال کیاجاتا ہے کہ قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کے حوالے سے کوئی فیصلہ ہوتے ہی تمام اپوزیشن جماعتیں اسحاق ڈار کومستعفی ہونے پر مجبور ہونے کے لیے متحد ہوجائیں گی، اگرچہ خیال غالب ہے کہ نواز شریف کی طرح اسحاق ڈار بھی آخر وقت تک اپنی کرسی سے چمٹے رہنے کی کوشش کریں گے اور آسانی سے وزارت چھوڑنے پر تیار نہیں ہوں گے ، لیکن اپوزیشن کے زبردست دبائو کو جس میں ملک کے تجارتی اور صنعتی حلقوں کے شامل ہوجانے کے امکانات کو رد نہیں کیاجاسکتابرداشت کرنا بھی آسان نہیں ہوگا اور اسحاق ڈار وزارت کی کرسی پر براجمان رہنے کے باوجود کوئی اہم فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے اور اس طرح وزارت خزانہ عملی طورپر مفلوج ہوکر رہ جانے کے خدشے کونظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔
دوسری جانب اسحاق ڈار پر فرد جرم عاید کئے جانے کے بعد اب صنعتی اور تجارتی حلقوں میں یہ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ وزار ت خزانہ میں کسی بھی متوقع یا غیر متوقع تبدیلی کے نتیجے میں پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی لازمی امر ہوگا۔اگرچہ حکومت کی جانب سے اس بات کی سختی کے ساتھ تردید کی جارہی ہے کہ پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کوئی ردوبدل نہیں کیاجائے گا لیکن معروف کرنسی ڈیلرز کاکہناہے کہ اسحاق ڈار پر فرد جرم عاید کئے جانے کے بعد اب پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی کے امکانات میں اضافہ ہوگیاہے۔کرنسی ڈیلرز کاکہناہے کہ اسحاق ڈار پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کسی طرح کی کمی کے شدید مخالف تھے۔ اگرچہ کرنسی کی قیمت کم نہ کئے جانے کی وجہ سے ملک کی برآمدات اور درآمدات بڑی حد تک متاثر ہورہی تھیں اور بیرونی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے برآمدات میں مسلسل کمی کارجحان تھا اور اسحاق ڈار تمام تر کوششوں کے باوجود تجارتی خسارے کو کم کرنے اور درآمدات وبرآمدات میں توازن پیدا کرنے میں ناکا م رہے تھے لیکن اس کے باوجود وہ پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی کرنے پر تیار نہیں تھے۔جبکہ پاکستان کو قرض فراہم کرنے والے کم وبیش تمام بین الاقوامی مالیاتی ادارے ،غیر جانبدار ماہرین معاشیات اور تجزیہ کا ر اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے روپے کی قیمت اس کی اصل قدر سے کم وبیش 20 فیصد زیادہ شرح پر قائم رکھی گئی ہے ،ماہرین کاکہناہے کہ کرنسی کی قیمت میں کمی بیشی دنیا میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے بلکہ اس وقت دنیا کی مضبوط ترین کرنسی کے حامل ممالک جن میں چین، جرمنی،بھارت اور فرانس شامل ہیں مختلف اوقات میں مارکیٹ کی ضرورت اور اپنی کرنسی کی اصل قیمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی کرنسی کی قیمت میں کمی کرتے رہے ہیں۔
نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد اپنے بیان میں یہ واضح کردیاتھا کہ پاکستان کی کرنسی کی قیمت میں کوئی کی بیشی نہیں کی جائے گی۔جبکہ دوسرے اسٹیک ہولڈرز کاکہنا ہے کہ ملک کے تجارتی خسارے میںکمی کرنے کے لیے پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی کرنا ناگزیر ہے تاہم ان کاکہناہے کہ حکومت کو چاہئے کہ کرنسی کی قیمت میں اچانک کوئی بڑی کمی کرنے کے بجائے بتدریج اس عمل کو مکمل کرے اور کرنسی کی قیمت میں معمولی کمی کے ذریعے کرنسی کو اپنی اصل قدر پر مستحکم ہونے کاموقع دیاجانا چاہئے۔ماہرین معاشیات کاکہناہے کہ حکومت کی جانب سے کرنسی کی قیمت میں کمی نہ کئے جانے کے باوجود گزشہ کم وبیش 3 ماہ کے دوران کھلی منڈی میں پاکستانی کرنسی کی قیمت میں بتدریج کمی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں کم وبیش نصف فیصد کمی ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت کھلی منڈی میں105.42 روپے کے مساوی ہوگیاہے۔جبکہ اسٹیٹ بینک کے مطابق 4 جولائی 2017 کو انٹر بینک لین دین میںڈالر کی قیمت 104.90 روپے کے مساوی تھی۔
یہاں یہ بات حیرت انگیز ہے کہ پاکستانی معیشت میں متعدد مرتبہ اتھل پتھل اور اتار چڑھائو کے باجود پاکستانی کرنسی کی قیمت اپنی جگہ قائم رکھی گئی ہے جبکہ معیشت میں اتارچڑھائو کے اثرات کرنسی کی قیمت میں بھی ظاہر ہونے چاہئے تھے۔
ماہرین معاشیات کاکہناہے کہ حکومت نے مختلف ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے بڑے پیمانے پر قرض حاصل کئے ہیں جن کی مالیت 75 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے، حکومت کو اصل آزمائش کا سامنا ان قرضوں پر بھاری سود کی ادائیگی پر کرناپڑے گا کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں اورحکومتوں کو بھاری رقوم کی ادائیگی کے اثرات پاکستانی کرنسی پر بھی پڑیں گے اور پاکستانی کرنسی کی قیمت میں اچانک بڑی شرح سے کمی کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔دوسری جانب چین کی جانب سے سی پیک کے منصوبے اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں جبکہ بعض منصوبے مکمل ہوچکے ہیں اس لیے چین کی حکومت کے ساتھ کئے گئے سمجھوتوں کے مطابق حکومت کو مکمل ہوجانے والے منصوبوں پر خرچ ہونے والے قرض کی رقم اور اس پر منافع شکل میں اربوں ڈالر کی ادائیگی شروع کرناہوگی اور اتنی بھاری رقم کی ادائیگی کاانتظام کرنا موجودہ حالات میں حکومت کے بس میں نظر نہیں آتا۔
فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان کاکہناہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے روپے کی قدر میں کمی سے صاف انکار کے بعد اب پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی کے حوالے سے قیاس آرائیاںاگرچہ بظاہر دم توڑتی نظر آرہی ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آرہے ہیں جس کی وجہ سے پوری مارکیٹ اورخاص طورپر تاجر برادری گومگو اور غیر یقینی صورت حال کاشکار ہے جس سے مارکیٹ پر جمود کی سی کیفیت طاری نظر آرہی ہے۔
دوسری جانب وفاق ایوانہائے صنعت تجارت کے صدر زبیر طفیل کاکہناہے کہ حکومت کی جانب سے پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی نہ کرنے کافیصلہ دانشمندانہ ہے اور حکومت کو اس فیصلے پر قائم رہنا چاہئے کیونکہ ان کے بقول پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی سے حکومت کے لیے مزید مسائل پیداہوں گے اوراس سے معیشت کوزبردست جھٹکا لگ سکتاہے۔زبیر طفیل کاکہناہے کہ پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی کئے جانے کی صورت میں افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوگا اور درآمدی اشیا کی قیمتیں موجودہ کے مقابلے میں دگنی بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتی ہیں۔ان کاکہناہے کہ اگرپاکستان کی کرنسی کی شرح تبادلہ میں 10فیصد کمی کی جاتی ہے تو اس سے افراط زر کی شرح میں 15 فیصد اضافہ ہوگا جبکہ برآمدات میں صرف 5 فیصد ہی اضافہ ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔