... loading ...
سابق فوجی حکمراں ضیاء الحق ویسے تو بظاہر بڑے میسنے لگتے تھے خاموش رہتے تھے اور آہستہ آہستہ گفتگو کرتے تھے لیکن وہ بڑے شاطر تھے انھوں نے جو بیج بویا تھا وہ آج کیا آنے والے کئی سالوں تک اس کی فصل پاکستان کے عوام کاٹتے رہیں گے۔ ضیاء الحق نے افغان جہاد کے نام پر ہیروئن اور کلاشنکوف کا جو تحفہ دیا وہ آنے والی نسلوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ اور یہ ہیروئن اور کلاشنکوف اب ہمارے سماج کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ یوں ضیاء الحق نے ایک چال اور چلی کہ ارکان پارلیمنٹ کو ناکارہ بنایا جائے ۔اس کے لیے ان کو کرپٹ کیا جائے پہلی مرتبہ ارکان پارلیمنٹ کو ملازمتوں کا کوٹہ ملا اور ان کو ترقیاتی منصوبوں کا کوٹہ ملا بھلا ضیاء الحق سے کون پوچھتا کہ ارکان پارلیمنٹ کا کام تو صرف قانون سازی کرنا ہے عوامی مسائل کے حل اوران کے لیے ترقیاتی فنڈز اور نوکریوں سے اس کا کیا تعلق ہے؟ ۔
لیکن ضیاء الحق کو بھلا عوام کی کیا فکر تھی اس کو تو بس اقتدار میں دلچسپی تھی ۔اس نے غیر جماعتی الیکشن کروائے اور خود ہی اس حکومت کو ختم کردیا اسمبلیاں توڑ دیں اور عام الیکشن کروانے کا بھی اعلان کردیا۔ لیکن 17 اگست 1988ء کو جہاز کے حادثے میں وہ جاں بحق ہوئے عوام اور ملک کی ان سے جان چھوتی لیکن وہ جو بیج بوگئے تھے اس کی فصل آج تک ہم کاٹ رہے ہیں آج اگر اسمبلی میں کوئی بھی معاملہ آتا ہے تو اسمبلی کے ارکان کے منہ کھل جاتے ہیں وہ ہر بل پر سودے بازی شروع کر دیئے ہیں۔ وزیراعظم، وزیراعلیٰ ، صدر، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہوتا ہے تو ارکان پارلیمنٹ کے مطالبات شروع ہوجاتے ہیں۔
یوںہر حکومت ضیاء الحق کی اس روایت کو مزید آگے بڑھاتی ہے اور ہر سال جس طرح کسی سرکاری ملازم کی تنخواہ بڑھتی ہے اسی طرح ارکان پارلیمنٹ کے لیے نوکریوں کا کوٹہ اور ترقیاتی فنڈز بڑھ جاتا ہے ان کے تو وارے نیارے ہیں ۔ قومی اسمبلی میں پہلے نواز شریف اور بعدازاں شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے تو ارکان قومی اسمبلی کے مطالبات بھی بڑھے شاہد خاقان عباسی نے ارکان قومی اسمبلی کے لیے 30 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز کا اعلان کردیا ۔سندھ اسمبلی کا بھی یہی حال ہے پہلے قائم علی شاہ وزیراعلیٰ بنے تو ارکان سندھ اسمبلی کے مطالبات مانے گئے پھر مراد علی شاہ وزیراعلیٰ بنے تو ان کے مزید مطالبات بڑھے۔ اب جب نئے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کاانتخا ب عمل میں آیاتو ارکان قومی اسمبلی کو 30 ارب روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر دیئے گئے تو ارکان سندھ اسمبلی نے بھی وزیراعلیٰ سندھ پر دبائو بڑھایا کہ ان کو بھی فنڈز دیئے جائیں۔ مجبورا وزیراعلیٰ سندھ نے بھی 15 ارب روپے ارکان سندھ اسمبلی کے لیے مختص کردیئے ہیں کہ یہ رقم ارکان سندھ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر ملے گی اس پر ارکان اسمبلی خوش نظر آرہے ہیں کیونکہ دس سے پندرہ فیصد کمیشن کے لحاظ سے ایک ایک ایم پی اے کو ڈیڑھ سے دو کروڑ روپے مل جائیں گے اس رقم سے وہ آئندہ عام الیکشن میں حصہ لیں گے اور پھر وہ بہتر انتخابی مہم چلاسکیں گے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے فوری طورپر محکمہ خزانہ کو حکم دیا ہے کہ تمام ترقیاتی کام بند کرکے یہ رقم ارکان سندھ اسمبلی کو فراہم کی جائیں تاکہ وہ بھی ترقیاتی کام کراسکیں۔ ارکان سندھ اسمبلی کے گھروں پر اب ٹھیکیداروں کے ڈیرے ہیں اور ہر ٹھیکیداران ان سے ڈیل میں مصروف ہے ۔ اب ایم پی ایز فیصلہ کریں گے کہ کون ان کو زیادہ کمیشن دے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ رقم لے کر وہ آئندہ انتخابات کی تیاری کریں۔ حکومت سندھ کے سر درد میں بھی کمی ہوگئی ہے کیونکہ ایک ایم پی اے کو دو کروڑ روپے گھر بیٹھے ملے تو اس کے لیے انتخابی مہم چلانا آسان ہوگا اور وہ حکومت کے گن بھی گائیں گے پیسہ عوام کا ہے لیکن عوام کو یہ پوچھنے کا حق نہیں ہے کہ ایک ایم پی اے کو دس کروڑ روپے کس کھاتے میں دیئے جارہی ہیں؟