... loading ...
امریکا کی سابق خاتون اول مشعل اوباما نے لڑکیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے ایک پروگرام کے تحت پاکستان کو 7 کروڑ ڈالر کی امداد فراہم کی تھی ،اس پروگرام کااعلان 2015 میں وہائٹ ہائوس میں ایک تقریب کے دوران کیا گیا تھا جس میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بھی موجود تھیں ،اطلاعات کے مطابق یہ پروگرام براہ راست مریم نواز کی نگرانی میں شروع کیاجاناتھا لیکن 2 سال گزرجانے کے باوجود اب تک اس پروگرام پر کسی پیش رفت کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں جس کی وجہ سے یہ خدشات تقویت پارہے ہیں کہ امریکا سے ملنے والی امداد کی یہ رقم خورد برد کرلی گئی ہے یا اس کو غلط طور پر استعمال کیا جارہاہے ۔
ایک خاتون بسمہ نورین نے اس حوالے سے گزشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ معزز عدالت وفاقی حکومت کو امریکا سے لڑکیوں کی تعلیم کی مد میں ملنے والی اس امداد کے بارے میں تفصیلات طلب کرے ۔ خاتون بسمہ نورین نے اپنی اس درخواست میںپاکستان کی وزارت خزانہ، وزیراعظم کی سیکریٹری، نیب اور مریم صفدر کو فریق بنایا ہے، بسمہ نورین نے اپنی درخواست میں سندھ ہائیکورٹ سے استدعا کی ہے کہ’’ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے دو‘‘ کے زیر عنوان سابق امریکی خاتون اول کی جانب سے دی جانے والی امداد کی اس رقم سے اس ملک کی 10 سے 19 سال عمر کی2 لاکھ لڑکیوں کو تعلیم سے آراستہ کیاجاناتھا،درخواست میں بسمہ نورین نے خدشہ ظاہر کیاہے کہ ایسا معلوم ہوتاہے کہ مریم صفدر نے یہ رقم غلط طورپر استعمال کرلی ہے یا رقم خورد برد کرلی گئی ہے۔ بسمہ نورین نے اپنی درخواست میں یہ بھی لکھاہے کہ انھوں نے قومی احتساب بیورو اور وزارت خزانہ کو اس کی تفتیش کرنے اور حقائق سے آگاہ کرنے کے لیے خطوط لکھے تھے لیکن ان کی درخواست کو نظر انداز کردیا گیا،لہٰذا اب عدالت عالیہ قومی احتساب بیورو کو اس کی تحقیقات کرنے اوروزارت خزانہ کو اس رقم کے حوالے سے تفصیلات ظاہر کرنے کی ہدایت جاری کرے۔ بسمہ نورین کی اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ نے گزشتہ روز وفاقی حکومت سے اس حوالے سے تفصیلات ظاہر کرنے کی ہدایت کی تھی جس پر وفاق کے وکیل نے عدالت کوبتایا کہ متعلقہ وزارت کو ایک خط بھیج دیاگیاہے اور اس پر جواب کاانتظار ہے۔جس پر سندھ ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو اس حوالے سے تفصیلات جمع کرانے کے لیے 16 اکتوبر تک کی مہلت دیدی ہے۔
لڑکیوںکو پڑھنے دو کے اس پروگرام کا اعلان اکتوبر 2015 میں کیاگیاتھا اس کا مقصد لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرنا اور انھیں زیور تعلیم سے آراستہ کرناتھا۔تاکہ وہ معاشرے پر بوجھ بننے کے بجائے مفید شہری کی حیثیت سے ملک کی تعمیر وترقی میں ہاتھ بٹاسکیں۔اس پروگرام کاایک بڑا مقصد لڑکیوں کو تعلیم دینے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا تاکہ اسے وسیع تر مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم عام کی جاسکے اور انھیں بااختیار بنایاجاسکے۔
خیال کیاجاتاتھاکہ یہ پروگرام ملک میں لڑکیو ں کی تعلیم عام کرنے کا ایک ذریعہ ثابت ہوگا ، امریکا کی جانب سے ملنے والی امداد کی اس رقم سے ملک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے درجنوں نئے اسکول قائم کئے جاسکیں گے اور پہلے سے موجود اسکول میں تعلیم کی بہتر سہولتوں کی فراہمی کے انتظامات کئے جاسکیں گے۔لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد کے مصداق کم وبیش 2 سال گزرنے کے باوجود اس حوالے سے ملک کے کسی بھی حصے میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی جس کی وجہ سے یہ خیال پیداہونا فطری امر ہے کہ امریکا سے ملنے والی یہ امداد خورد برد کرلی گئی ہے یا اسے خورد برد کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں یا پھر لڑکیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے مخصوص مقصد کے لیے دی جانے والی امداد کی یہ رقم حکومت نے کسی اور منصوبے پر خرچ کردی ہے۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان میں لڑکیوںکی تعلیم عام کرنے کے لیے امریکی خاتون اول کے شروع کردہ پروگرام کے تحت امدادی رقم حاصل کرنے کے معاہدے پر امریکی خاتون اول مشعل اول کے ساتھ نااہل وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے دستخط کئے تھے اس لیے وہ اس رقم کے اصل مقصد پر ایمانداری کے ساتھ شفاف طریقے سے خرچ کی ذمہ دار ہیں،اور اس رقم کے بارے میں جواب دہی بھی بنیادی طور پر ان ہی کی ذمہ داری ہے۔یہاں یہ سوال بھی اہمیت رکھتاہے کہ مریم نواز نے حکومت میں کوئی عہدہ نہ ہونے کے باوجود کس حیثیت سے اس معاہدے پر دستخط کئے تھے اور کیا انھوں نے اس معاہدے پر دستخط کرکے وزیراعظم ہائوس کے اختیارات کاغلط استعمال تو نہیں کیا اور اگر انھوں نے ایسا کیاہے تو ان کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال اوراختیارات سے تجاوز پر کیاکارروائی نہیں کی اور اگر ان کے خلاف اب تک اس حوالے سے بوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے تو اب یہ کارروائی شروع کی جانی چاہئے اور انھیں اس حوالے سے اپنا موقف پیش کرنے اورپوزیشن واضح کرنا کاموقع دیاجانا چاہئے لیکن اگر وہ اپنے اس عمل کاکوئی معقول جواز پیش نہ کرسکیں تو ان کو ان کے اس سنگین جرم کی سزا بھی دی جانی چاہئے۔
سندھ ہائیکورٹ کو اس کے ساتھ ہی قومی احتساب بیورو (نیب) کے ارباب اختیار سے بھی یہ جواب طلب کرنا چاہئے کہ امریکا سے ملنے والی اتنی بڑی رقم کی خورد برد کے خدشے کے تحت ایک شہری کی جانب سے انھیں دی جانے والی درخواست پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور اگر یہ درخواست کارروائی کے قابل نہیں تھی تو درخواست گزار کو اس کے اسباب سے آگاہ کیوں نہیں کیاگیا ۔اتنی بڑی رقم کی خورد برد یا مبینہ طورپر غلط استعمال کے خدشے کے تحت ایک شہری کی جانب سے دی جانے والی درخواست کو دبالینا مجرم کی پشت پناہی کے مترادف ہے اور مجرم کی پشت پناہی کرنے والا بھی جرم میں برابر کا شریک تصور کیاجاتاہے اس لیے اس درخواست کو دبادینے والے افسران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرکے انھیں قرار واقعی سز ا دی جانی چاہئے تاکہ آئندہ نیب کاکوئی افسر کسی شہری کی درخواست کو اس طرح دباکر داخل دفتر کرنے کی جرات نہ کرسکے۔