... loading ...
مغربی مفکر فریڈرک بستیات نے کہا تھا’’جب کسی سماج میں تباہی وبربادی انسانوں کے ایک گروہ کا طریقہ زندگی بن جائے جن کا آپس میں گٹھ جوڑ ہو تو وہ وقت کے ساتھ ساتھ ایسا قانونی نظام تیار کرلیتے ہیں جو انہیں تباہی پھیلانے کا اختیار دیتا ہے اور پھر وہ اسے ایک شاندار اخلاقی لباس پہنا دیتے ہیں۔ پاکستان کی آزادی کے گزشتہ 70 برس کے دوران یہی کچھ ہوتا رہا ہے جس میں آئین اور قانون نے ہمیشہ بالادست اور طاقتور حکمران طبقے کی طرفداری کی ہے اور غریب بے بس کروڑوں عوام کو حکمرانوں کے ضابطوں اور قوانین کی زنجیریں پہناکر غلام بناکر رکھا گیا ہے اس صورتحال نے ایک ایسا منظر نامہ تیار کردیا ہے جس میں حکومت ‘اپوزیشن جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ قانون اور آئین کو فٹ بال بناکر آپس میں کھیلتی رہتی ہیں اور عوام الناس دور کھڑے کھیل ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
اس کھیل کا ایک ادنیٰ سا مظاہرہ حال ہی میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کی منظوری کے سلسلے میں کیا گیا ہے۔ پہلے تو یہ ترمیم روایت کے برخلاف قومی اسمبلی کی بجائے سینیٹ میں پیش کرکے وہاں سے منظور کرائی گئی تاکہ اس کا اخلاقی جواز اور دباؤ پیدا کیا جائے ۔بعدازاں قومی اسمبلی نے بھی اسے منظوری کی سند ادا کردی ۔مقصد ایک تھا کہ سپریم کورٹ سے نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کو مسلم لیگ(ن) کا صدر بننے کا راستہ دستیاب ہوجائے۔ پھر مسلم لیگ کی جنرل کونسل نے ان کی نااہلی کے باوجود سپریم کورٹ کا فیصلہ ٹھکراتے ہوئے انہیں پارٹی کا صدر منتخب بھی کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی باریک کام یہ دکھایا گیا کہ ارکان اسمبلی کے حلف میں شامل ’’ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘پر ایمان کی جگہ ختم کا لفظ ہٹاکر صرف نبوت پر ایمان شامل کردیا گیا۔ اس طرح سے قادیانیوں کو اسمبلیوں کی رکنیت کا پروانہ مل گیا۔ پاکستان تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن سیاسی ومذہبی جماعتوں نے اس پر اعتراض کیا تو حکومت نے ممکنہ احتجاجی تحریک کے خوف سے ترمیم سابقہ اصل حالت میں بحال کردی۔
آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کے یہ مناظر ہماری قومی تاریخ کا حصہ ہیں۔ سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھی کمال کا ’’قومی مفاہمتی آرڈیننس ‘‘ جاری کیا تھا ‘جس کے تحت سیاستدانوں ‘سیاسی کارکنوں اور کرپٹ سرکاری ملازمین کے خلاف قائم 8 ہزار سے زائد مقدمات پلک جھپکتے ختم کردیئے گئے تھے۔ یہ آرڈیننس 2007 میں پرویز مشرف کے دستخطوں سے جاری ہوا جس کے تحت یکم جنوری1986 سے لے کر 12 اکتوبر 1999 تک کے سارے مقدمات ختم کردیئے گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کی شہید سربراہ بے نظیر بھٹو کے خلاف راولپنڈی احتساب عدالت میں اے آر وائی گولڈ اثاثہ جات کیس اور ایس جی ایس وکو ٹیکنا کے حوالے سے مقدمات زیر سماعت تھے لیکن آرڈریننس آنے کے بعد تینوں مقدمات ختم کردیئے گئے۔ لاہور کی احتساب عدالت نے ان کی والدہ بیگم نصرت بھٹو(مرحومہ) کے خلاف برطانیہ‘ فرانس اور سوئٹزر لینڈ میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے ناجائز اثاثے رکھنے کا کیس ختم کیا۔ احتساب عدالت نے اس ریفرنس میں بیگم نصرت بھٹو کو دانستہ روپوشی کے الزام میں دو سال قید اور جائیداد ضبطی کی سزا سنائی تھی جبکہ ان کی صاحبزادی بینظیر بھٹو کو اے آر وائی گولڈ کیس میں مفروری کے دوران تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ این آر او آیا تو آصف علی زرداری بھی مستفید ہوئے۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ نے دوران اسیری ہی ان کی بی ایم ڈبلیو کیس میں ضمانت منظور کرلی۔ ان کی رہائی کی راہ میں یہ آخری مقدمہ حائل تھا لہٰذا انہیں جیل سے رہا کردیا گیا۔ انہیں 10 لاکھ روپے کے مچلکوں پر ضمانت دی گئی تھی۔ چوہدری اعتزاز احسن‘ بابر اعوان اور فاروق ایچ نائیک ان کے وکیل تھے۔
این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں سابق وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ‘ نواز کھوکھر‘یوسف تالپور اور رحمٰن ملک بھی تھے جن کے خلاف کرپشن ‘اختیارات کے ناجائز استعمال اور غیر قانونی اثاثہ جات بنانے کے 11 ریفرنسز ختم کردیئے گئے تھے۔ اس عجیب وغریب آرڈینس نے سارا کالا دھن یکایک ’’سفید‘‘ اور ’’قانونی‘‘ کردیا تھا۔ نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کو بھی غالباً کسی سیانے نے یہی صلاح دی ہے کہ فی الحال دم دباکر نکل لو‘ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اختیار کرو‘ حضرت آصف علی زرداری کا یہی فرمانا ہے کہ وہ پہلے عدلیہ کو تھکاتے ہیں اور پھر کامیابی ان کے قدم چوم لیتی ہے ۔میاں نواز شریف اپنے کنبے سمیت اسی لیے پاکستان سے نکل کر لندن پہنچ گئے ہیں جہاں وہ 4 جنوری تک قیام کریں گے۔ ان کی زبان اور مریم نواز کے ٹوئیٹ کئی دن سے بند ہیں۔ اب وہ بھی کسی این آر او کا انتظار کریں گے اور ایک دن سارے مقدمات سے آزاد ہوکر اور سرخرو ہوکر پھر عوام کے پاس ووٹ لینے حاضر ہوجائیں گے انہیں پہلے بھی پرویز مشرف نے دس برس کے لیے جلا وطن کرکے سیاست سے آؤٹ کردیا تھا۔ پھر پرویز مشرف خود آؤٹ ہوگئے اور نواز شریف پاکستان واپس آکر 2013 کا الیکشن جیت کر تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے۔
یہ پابندی بھی پرویز مشرف نے این آر او کے تحت ختم کی تھی۔ اس کا فائدہ بینظیر بھٹو کو ہونا تھا لیکن وہ شہید کردی گئیں اور نواز شریف کا ’’جیک پاٹ‘‘ لگ گیا۔ این آر او کے حوالے سے2007 کے وفاقی وزیر بابر خان غوری نے کہا تھا کہ بے نظیر اور دیگر شخصیات پر قائم کرپشن کے مقدمات ختم کرنے میں ایم کیو ایم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ’’ہم قوم کے مجرموں کو یکطرفہ ریلیف دینے کا فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کابینہ میں کیے گئے فیصلوں کے حوالے سے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا‘‘لیکن جب ایم کیو ایم کو بھی این آر او کے فوائد اور کارکنوں پر قائم مقدمات کے خاتمے میں شامل کرلیا گیا تو قومی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ہم اس آرڈیننس کے حق میں ہیں۔ تمام جھوٹے مقدمات ختم ہونے چاہئیں ایم کیو ایم وسیع تر قومی مفاہمت کے حق میں ہے‘ ہمارا یہ اصولی موقف ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں پر جھوٹے مقدمات ختم ہونے چاہئیں۔ابتدا میں آرڈیننس کے تحت 1988 اور اس کے بعد دائر مقدمات کا احاطہ کیا گیا تھا لیکن ایم کیو ایم نے 1985 اور اس کے بعد والے مقدمات ختم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ متحدہ کے قائد الطاف حسین کے خلاف دائر مقدمات بھی ختم ہوجائیں۔ پرویز مشرف نے یہ مطالبہ تسلیم کرلیا تھا۔ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ الطاف حسین آج لندن میں بیٹھ کر آزادی کے نعرے لگارہے ہیں لیکن اگر وہ 1779 میں حیدرآباد سازش کیس کے خاتمے کا جائزہ لیں تو آئندہ کے کسی قومی مفاہمتی عمل کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے1973 کا دستورمتفقہ طور پر قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرایا اور پھر اپنے فائدے میں دستور کے اندر پے در پے ترامیم شروع کردیں۔
صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کی مخلوط حکومتیں قائم تھیں۔ ان پر پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کرنے کا الزام لگاکر انہیں ختم کرکے گورنر راج لگادیا گیا۔ نیپ کے سربراہ ولی خان اور ان کے ساتھیوں پر پاکستان سے بغاوت اور نظریہ پاکستان کے خلاف سازش کا الزام لگاکر نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگادی گئی۔ سپریم کورٹ نے اس پابندی کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیپ نے آزاد پختونستان اور گریڈ بلوچستان کے قیام کی کوشش کی تھی ۔حیدرآباد ٹریبونل میں چار سال سے زائد مقدمہ چلتا رہا ۔ اسی دوران 1977 میں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے حیدرآباد سازش کیس کے سارے کرداروں کو 1979 میں رہا کردیا۔رہائی پانے والوں نے ضیاء الحق کے مارشل لاء کو درست قرار دیا اور انتخابات سے قبل’’احتساب ‘‘کا نعرہ لگایا۔ یوں ساری بغاوت ’’دھل‘‘ گئی اور ولی خان نے نیپ کی جگہ عوامی نیشنل پارٹی بنائی جس کے موجود سربراہ ولی خان کے صاحبزادے اسفند یار ولی خان ہیں۔ان کی والدہ بھی اپنا الگ گروپ ختم کرکے بیٹے سے آملی ہیں۔اے این پی ان دنوں جے یو آئی (ف)کی طرح مسلم لیگ (نواز)کی اتحادی ہے ۔
پاکستان کی سیاست ان دنوں اندرونی چپقلش کے درجنوں نشیب و فراز سے گذر رہی ہے ۔اور یہ لڑائی حمکران طبقات کے درمیان اقتدار پر قبضے کیلئے ہے ۔ جس میں عوام کو خاموش تماشائی بنا دیا گیا ہے۔یا پھر عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری جیسے سیاستدانوں کے جلسے سجانے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔عمران خان ” تبدیلی ” کے نعرے بلند کرتے ہیں اور عوام کو پاکستان کے کرپٹ اور بوسیدہ سیاسی نظام سے نجات کی نوید سناتے ہیں۔کیا جاگیرداروں اور بااثر افراد کو منتخب کرا کے اسمبلیوں میں بھیجنے والے اس نظام کو تبدیل کئے بغیر پاکستان کے سیاسی اقتصادی اور سماجی نظام میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے۔ یہ بھی ہماری قوم کیلئے ایک سوالیہ نشان ہے۔