... loading ...
اختر حفیظ
صحراؤں کے بھی اپنے دکھ اور سکھ ہیں ۔ ریت کے ٹیلوں ، پگڈنڈیوں ، جانوروں کے ریوڑ اور انسانی آبادی کو اپنے اندر سمائے ان صحراؤں کے رنگ بھی الگ ہوتے ہیں ۔ بارش کا انتظار کرتے لوگوں کی آنکھیں اْس وقت برسنے لگتی ہیں ، جب بادل اِن صحراؤں کی ریت پر برسنے سے انکار کردیتے ہیں ۔ لیکن آنکھوں کا نمکین پانی ریت کو سینچ نہیں پاتا اور نہ ہی اِن میں زندگی کی بہار لاسکتا ہے۔ لیکن زندگی ہر صورت میں صحراؤں میں اپنی بقا کی جنگ لڑتی رہتی ہے۔
سندھ کے دو بڑے صحرا، تھر اور اچھڑو تھر ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں اِس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب آپ صحرا کا رختِ سفر باندھتے ہیں ۔ ایک بار پھر میں اچھڑو تھر کی جانب نکل پڑا۔ اچھڑو تھر ضلع سانگھڑ کے قریب ایک ایسا ریگستان ہے جس کی سفیدی مائل ریت کی وجہ سے اِسے اچھڑو تھر کہا جاتا ہے۔ یہ سندھ کے جنوبی تھر کے علاقے سے بالکل مختلف ہے، کیونکہ اِس ریت میں نہ تو بارش کے بعد بہتر سبزہ اگانے کی خاصیت ہے اور نہ ہی آپ کو یہاں زیادہ پودے اور درخت نظر آئیں گے۔
دوپہر کو میں کھپرو کے قریب واقع ایک گاؤں ، بانکوں چانیہوں پہنچا، جہاں عطا چانیہوں نے اپنا ایک ذاتی میوزیم قائم کر رکھا ہے۔ عطا نے مجھے بتایا کہ آج وہ مجھے اِس صحرا کی وہ خاص دلدلیں دکھانا چاہتے ہیں جو کسی زمانے میں حْروں کے انگریزوں سے لڑی گئی جنگ میں اْن کے ٹھکانے ہوا کرتے تھے۔ اِنہیں سندھی میں ‘ڈرینہہ’ کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ ریت کے وہ ٹیلے ہوتے ہیں جو ہمیشہ اپنی جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں ۔ ہوا کے زور پر یہ بڑے بڑے ٹیلے ہمیشہ حرکت میں ہی رہتے ہیں ، اور جب ہوا کچھ دیر کے لیے رک جاتی ہے تو یہ ٹیلے بلند و بالا چٹان کی طرح نظر آتے ہیں ، جس کی دوسری جانب ایک گہری کھائی بن جاتی ہے۔
آپ اِس صحرا میں فور وہیل کے بغیر سفر نہیں کرسکتے۔ کچھ ہی دیر بعد ہم اچھڑو تھر کی طرف نکل پڑے۔ اْس روز موسم ابر آلود تھا اور ہوا بھی کافی تیز تھی، جس کی وجہ سے منزل تک پہنچنے میں کافی دقت پیش آئی۔ ریت کے سینے پر بنا ہوا راستہ ہوا کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ کسی بھی گاڑی کے ٹائروں کے نشانات ہوا کے زور پہ اڑتی ہوئی ریت میں دب جاتے ہیں اور پھر راستہ تلاش کرنا خاصا مشکل ہوجاتا ہے۔ خوش قسمتی کے ساتھ ڈرائیور عبداللہ کو اِس صحرا کے راستے ایسے یاد تھے جیسے پورا صحرا ہی اْس کے گھر کا آنگن ہو۔ وہ بنا کسی ٹریک (جسے سندھی میں ‘چیلو’ کہا جاتا ہے) کے گاڑی کو اِن راستوں پر چلا رہا تھا، جس کے چہار سو ریت ہی ریت تھی، جہاں تک نگاہ جا رہی تھی ریت کے سوا اکا دکا درخت دکھائی دے رہے تھے۔ آڑے ترچھے راستوں سے گزرتے ہوئے ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم اْس جگہ پہنچے جہاں ریت کے ٹیلوں کا ایک طلسم کدہ تھا۔ہوا کے ہاتھ جب کسی پیڑ کی جڑوں سے ریت ہٹاتے تو گماں ہوتا کہ جیسے یہ پیڑ اِسی صحرا میں بھٹکتا مسافر ہو اور سفر کرتے کرتے کسی تھکے ہارے مسافر کی مانند کہیں رک گیا ہو۔ وہاں پر کئی ایسے درخت اِسی حالت میں نظر آتے ہیں جن کی جڑیں باہر نکلی نظر آتی ہیں ۔اِس صحرا کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ آپ کو کسی بھی گاؤں میں گھروں کے گرد کانٹوں کی باڑ نظر نہیں آئے گی، کیونکہ ہر گاؤں میں بسنے والے کو کسی بھی قسم کے عدم تحفظ کا احساس نہیں ہے۔ لوگوں کو اگر کہیں جانا ہے تو اْس کے لیے سب سے بڑی نشانی کوئی بڑا سا پیڑ ہوتا ہے، لیکن میرے لیے اِن سب باتوں سے زیادہ منفرد تجربہ ایک خاص بھیل قیبلے سے ملاقات ٹھہرا، جس کا ذکر عطا چانیہوں نے سفر کے دوران مجھ سے کیا تھا۔
بھیرو مل مہرچند آڈوانی اپنی کتاب ’’قدیم سندھ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ، “موجودہ بھیل مارواڑ یا راجستھان سے آکر یہاں آباد ہوئے۔ مگر یہ سندھ کی تہذیب کے کن قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ‘وائلڈ ٹرائبس آف انڈیا’ کے انگریز مصنف رون نے بھیلوں کا دیس مارواڑ بتایا ہے، جہاں سے وہ دیگر علاقوں میں پھیل گئے۔ بھیلوں کی کئی ذاتیں ہیں جن میں سے کئی راجپوتوں کی ہیں ، یہ محنتی اور بہادر ہیں ، اِن کا گزر بسر شکار پر ہوتا تھا اِس لیے اِنہیں شکاری بھی کہا جاتا ہے۔عام طور پر انہیں دراوڑ سمجھا جاتا ہے جو ’’گونڈ‘‘ نامی ایک قبیلے سے قربت رکھتے ہیں ۔ اِن کے دراوڑ ہونے کے حوالے سے مختلف آراہیں ، کیونکہ بھیلوں اور دراوڑوں کے رہن سہن اور رسم و رواج میں کافی فرق ہے لیکن اِن کی اصلیت، ثقافتی خصوصیات اور عادات دراوڑوں کے پڑوسی قبیلے گونڈ سے کافی مماثلت رکھتی ہیں ۔ ایک دوسرے نظریے کے مطابق بھیل حقیقت میں منڈا قبیلے کی شاخ کہی جاتی ہے، منڈا قبیلے سے ’’سنتھال‘‘ اور ’’کول‘‘ بھی ہیں جو بنگال، بہار اور آسام میں رہائش پذیر ہیں ۔ حالانکہ غور کیا جائے تو منڈا اور بھیل لہجے میں کسی قسم کا ملاپ یا یکسانیت نظر نہیں آتی۔
‘انسائیکلو پیڈیا آف انڈین ٹرائبز اینڈ کاسٹس’ میں لکھا گیا ہے کہ بھیل غیر آریائی قوم ہے جو شمال مشرق ٹاکرو علاقے کے دامن اورنگ آباد سباح میں رہتے ہیں ۔ جس کے مشرق میں گونڈ اور انڈ قبیلہ جبکہ مغرب اور جنوب میں کولہی اور بجارا قبیل رہتا ہے۔ ونجاپور، کنڑ، بھوکر دان، اورنگ آباد اور گنگاپور تعلقوں میں اِن لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انہیں راجپوتوں نے بے دخل کردیا تھا۔اِس قبیلے کے لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ آریا سے پہلے بسنے والا قبیلہ ہے، جس کا ذکر رامائن میں بھی ملتا ہے۔ جب ہندو دیوتا رام وہ سزا کے طور جنگل میں بھٹک رہے تھے تب ایک بھیل عورت نے انہیں بیر کھلائے تھے۔ اِن کے ساتھ مرہٹوں اور مسلمانوں نے بھی ظالمانہ سلوک برتا سو یہ بھی اِن کے ساتھ بھڑ گئے۔ چند مغل بادشاہوں نے اِنہیں اپنی فوج میں بھی شامل کیا۔ یہ سخت جان تھے، مگر مرہٹوں نے اِن پر کافی مظالم ڈھائے۔’’
اچھڑو تھر میں اِس بھیل قبیلے کا گھر ایک اونچے سے ٹیلے پر آباد ہے، ہم جیسے ہی وہاں پہنچے تو لوگ اپنے کام میں مصروف نظر آئے۔ عارب اور ملہار کھیس، فراسی اور چادریں تیار کرنے میں لگے تھے۔ اِن کا گاؤں دنگائوں کے قریب ہے۔ دنگائو، اِس صحرا میں بارڈر کے قریبی علاقے کو کہا جاتا ہے، یہاں سے ہندوستان کا سرحدی علاقہ زیادہ دور نہیں ہے۔عارب اور ملہار دونوں بھائی ہیں اور بچپن سے اِسی کام سے وابستہ رہے ہیں ۔ وہ بھیڑ، اونٹ اور بکری کے بالوں سے فراسی، کھیس اور چادریں تیار کرتے ہیں ۔ یہ بال وہ خرید کرتے ہیں اور اِن سے دھاگہ تیار کرنے کا کام وہ اپنے گھر میں ہی کرتے ہیں ۔ ریتیلے آنگن میں جا بجا بالوں سے تیار کی گئی گیندیں پڑی ہوئی تھیں ، جو آنے والے مرحلوں میں کسی رنگین فراسی میں استعمال ہونی تھیں ۔بافراسی اور کھیس کے دھاگوں کو گھر پر ہی تیار کیا جاتا ہے۔میں نے پوچھا کہ، “آپ کے کام میں تو کافی نفاست نظر آتی ہے، یہ کام آپ کب سے کر رہے ہیں ؟”عارب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ، ” کچھ یاد تو نہیں کہ کب سے کر رہے ہیں مگر اب یہ کام کرتے کرتے بوڑھے ہو گئے ہیں ۔’’ایک فراسی یا کھیس کی تیاری میں کتنا وقت درکار ہوتا ہے؟”عارب نے بتایا کہ، “فراسی تو تقریباً پانچ دن میں جلدی تیار ہوجاتی ہے مگر کھیس تیار کرنے میں زیادہ دن لگ جاتے ہیں کیونکہ اِس کی تیاری کچھ مشکل ہے۔’’
اب آتے ہیں اِس قبیلے کی اْس سماجی انفرادیت پر جس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا تھا۔ وہ انفرادیت یہ ہے کہ اِس قبیلے کے باشندوں کے نام بھی مسلمانوں والے (محمد، رسول، احمد) ہیں اور وہ خود کو مسلمانوں کی تمام رسومات سے منسلک کیے ہوئے ہیں ۔ یہ قبیلہ نہ تو ہولی مناتا ہے اور نہ ہی دیوالی پر دیے جلاتا ہے۔ اِن کا جس بھیل قبیلے سے تعلق ہے اْسے شکاری کہا جاتا ہے۔یہ اِس قبیلے کا عدم تحفظ ہی ہے کہ یہ لوگ خود کو مسلم آبادیوں سے جوڑے رکھتے ہیں ، کیونکہ ہندوؤں میں ذات پات کے چکر نے اِنہیں کافی مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ اِن کا ماننا ہے کہ جب ہندو مذہب میں خود کو اعلیٰ ذات سمجھنے والے لوگ اِنہیں کسی بھی طرح اپنانے کو تیار نہیں ہیں تو وہ یہاں آباد اِن مسلمان ذاتوں میں زیادہ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں ، جہاں پر اِن سے ہاتھ ملانے سے کوئی نہیں کتراتا ہے۔انِہیں آج بھی یہی خوف ہے کہ اگر انہوں نے اپنے راستے یہاں بسنے والے مسلمانوں سے جدا کرلیے تو شاید اِن کی حیثیت وہی ہوگی جو دیگر قبائل کی ہے۔ اِن کے لیے اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ ہندو برادری کی دیگر ذاتیں اِنہیں کیا سمجھتی ہیں ؟ وہ بس اْنہیں ہی اپنا محسن مانتے ہیں جو نہ صرف اْنہیں تحفظ کا یقین دلائے بلکہ اس کو اپنے عمل سے بھی ثابت کرے۔ اِس لیے یہاں پر کوئی مذہبی تفریق نہیں ہے بلکہ اِس صحرا میں مذہبی رواداری کی یہ رسم عرصے سے چلی آ رہی ہے۔اب مجھ سے یہ پوچھے بغیر رہا نہ گیا کہ، ‘‘آپ تو مذہبی طور ہندو ہیں تو پھر مسلمانوں کے تہوار کیوں مناتے ہیں ؟”
عارب نے بتایا کہ، “ہم پیڑھی در پیڑھی دونوں عیدیں اور دیگر مذہبی تہوار مناتے آ رہے ہیں ، چونکہ ہم بھیل ہیں سو یہاں آباد بڑی ذاتوں والے ہندو ہمیں ہندو تسلیم نہیں کرتے جبکہ مسلمانوں کے مذہبی تہوار منانے اور اْن میں شریک ہونے پر مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔”میں نے متجسس ہو کر پوچھا کہ، ‘‘تو کیا آپ عید کے روز نماز پڑھنے کے لیے بھی مسجد کا رخ کرتے ہیں ۔”عارب نے جواب دیا کہ، “ہم جاتے ہیں مگر مسجد کے باہر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والوں کا انتظار کرتے ہیں ، جب وہ نماز پڑھ کر باہر آتے ہیں تو ہم سے تمام لوگ عید ملتے ہیں ۔’’عارب اور ملہار کے قبیلے کی ایک اور بات نے بھی مجھے حیران کیا وہ یہ تھی کہ ان کے ہاں جب بھی کسی کی شادی ہوتی ہے اور اگر ان کے قبیلے کا کوئی مرد نکاح پڑھنے کی رسم ادائیگی کے لیے موجود نہ ہو تو وہ کسی بھی مسلمان مولوی سے بھی نکاح پڑھوا لیتے ہیں ۔ اْن کے ہاں اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ اْن کا نکاح لازماً کوئی ہندو برادری کا فرد ہی پڑھائے۔ایک بار پھر متجسس ہو کر پوچھا کہ، “تو کیا آپ کا نکاح ایسے ہی ہوتا ہے جس طرح ہمارے ہاں ہوتا ہے؟”عارب نے بتایا کہ، ‘‘ہاں ہمارا نکاح مسلمان بھی پڑھاتے ہیں ، اگر کسی کو قرآنی آیات یاد نہیں ہیں تو ہمارا نکاح شاہ لطیف کی شاعری پڑھ کر پڑھایا جاتا ہے۔ اِس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نکاح پڑھانے والا کون ہے۔’’یہاں آباد ہندؤوں کی شادی کے لیے مذہبی طور پر کوئی تحریری دستاویز موجود نہیں ، جس طرح مسلمانوں کا نکاح نامہ ہوتا ہے، عورت کے سہاگ کی سب سے بڑی نشانی منگل سوتر ہی ہوتا ہے۔’’کیا کوئی پریشانی درپیش نہیں ہوتی جب آپ کی شادی کی رسومات کوئی مسلمان ادا کرتا ہے؟‘‘’’نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی ہمیں اِس حوالے سے کوئی تنگ کرتا ہے،” جواب ملا۔مگر اچھڑو تھر میں آباد یہ قبیلہ اِس بات کا دعوی کرتا ہے کہ اْن کا قبیلہ یہاں صدیوں سے آباد ہے۔ یہ قبیلہ اپنے بارے میں ایک یہ بھی خیال پیش کرتا ہے کہ وہ جن کی اولاد ہیں اور آج بھی اِس علاقے میں جو بھی ٹھاکر ذات کا مرد جب شادی کرتا ہے تو اْس کے آگے اونٹ چلانے والا کوئی بھیل ہی ہوتا ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آنے والے وقت میں اْس نئے دولہے پر کوئی مصیبت نہیں آئے گی کیونکہ اْس نے اپنی حفاظت کا بندوبست بھیل نوجوان کے ہاتھوں سپرد کیا ہے۔اِس قبیلے نے نہ تو آج تک کسی مندر کا رخ کیا ہے اور نہ ہی کسی مورتی کے آگے ماتھا ٹیکا ہے۔ ایک ایسا قبیلہ جو صحرا کی ریت میں آج بھی اِس سوال کا متلاشی ہے کہ اْس کی اصل شناخت کیا ہے؟ جس کا گزر بسر جانوروں کے بالوں سے بنائی ہوئی فراسی اور کالین پر ہے، جنہیں بیچ کر وہ اپنی بھوک مٹاتے ہیں ۔دن گزر چکا تھا، شام کے سائے اچھڑو تھر پر چھا چکے تھے۔ ہمیں پھر اْسی راستے سے واپس لوٹنا تھا، جہاں ہوا نے راستے کو مٹا دیا ہوگا۔ میں نے ملہار اور عارب کو دیکھا، دنوں کی آنکھیں سوالیہ نشان سی لگیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آج بھی شناخت کے بحران کو جھیل رہے ہیں ۔لیکن میں بھی یہ نہیں جانتا کہ کب اْنہیں اِس بات کا جواب مل پائے گا کہ وہ ہندو برادری کا مکمل حصہ بن سکیں گے؟ اور جو نفرت وہ برسوں سے جھیل رہے ہیں وہ ختم ہو بھی سکے گی یا نہیں ؟سورج ڈھل رہا تھا اور میں نے عارب اور ملہار کو الوداع کہا، اور راستے میں یہی سوچتا رہا کہ عارب اور ملہار کی آنے والی نسلیں بھی کیا اِسی نفرت کا شکار ہوتی رہیں گی، جس کی وجہ سے وہ اپنی شناخت طے نہیں کر پا رہے ہیں ؟