... loading ...
صحافت جمہوری حکومت کی عمارت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے اس کا گلہ گھوٹنے کی تیاریاں پہلے ہی موجودہ حکمرانوں کی طرف سے جاری تھیں کہ ٹی وی اینکر ارشد شریف کے خلاف اندراج مقدمہ کی باز گشت سنائی دینے لگی پیمرا جو کہ ٹی وی ،سوشل میڈیا و دیگر صحافتی اداروں کا کرتا دھرتا مانا جاتا ہے اور انہیں کنٹرول کرنے کی اتھارٹی اسے حکومت نے دے رکھی ہے کہ وہ ہر نشر ہونے والی خبر اور پروگرام پر گہری نظر رکھے اور جسے چاہے نوٹس دیکر سزا تجویز کرے یہاں تک کہ اسے پورے چینل کو مکمل بند کرنے کی اتھارٹی بھی دی گئی ہے اگر یہ کام اس کے ذمہ لگا ہوا ہے تو پھر اسے ایکشن لینے دینا ہی درست اقدام ہوگا ۔
صدر پی ایف یو جے افضل بٹ ،نیشنل پریس کلب ،آئی آر یو جے ودیگر تنظیموں کا یہ کہنا کہ وفاقی حکمران ایسے ہتھکنڈوں سے باز رہیں اور اگر پیمرا کے فیصلے سے قبل ہی انتقامی کاروائی کی گئی تو احتجاج ہو گااور شک شبہ کی بنیاد پر ہی اندراج مقدمہ پوری صحافی برادری پر مقدمہ تصور ہو گا۔سپریم کورٹ بار کے جنرل سیکریٹری آفتاب باجوہ نے جو ڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے دھمکیوں کی مذمت کی ہے اور ایسے افراد کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ باجوہ نے مزید بتایا کہ میں نے کئی پروگرام ارشد شریف کے ساتھ کیے ہیں وہ شریف النفس انسان ہیں ۔سابق آمروں ایوب خان یحییٰ ضیا ء الحق حتیٰ کہ بھٹو صاحب کے ادوار میں بھی ایسے ہتھکنڈے اختیار کیے گئے مگر بالآخر اپنے ہی بنائے ہوئے صحافت کو زنجیر پہنانے والے قوانین کو کبھی نرم اور کبھی مکمل ختم کرڈالا۔
صحافیوں کو کوڑے مارنے اور پابند سلاسل کرنے کے کبھی بھی نتائج درست نہیں نکلے ایوبی دور میں پی پی اوکے ذریعے ’امروز ،پاکستان ٹائمز ،انجام، مشرق ودیگراخبارات کو سرکاری قبضہ میں لیا گیاجناب بھٹو نے الطاف قریشی کا زندگی ،حسین نقی کا پنجاب پنچ اور پی پی ایل کا لیل ونہار بند رکھا ۔ضیاء الحق نے جسارت، حریت انگریزی اخبار سن پر پابندیاں لگائیں جسارت کے ایڈیٹر صلاح الدین کو تو ساڑھے تین سال جیل میں رکھاجس پر پرو فیسر عبدالغفور نے کہا تھاکہ جسارت اور بھٹو اکٹھے ہی نکلیں گے ۔
77کے انتخابات کے بعد دھاندلی زدہ الیکشن پر پاکستان قومی اتحاد نے تحریک شروع کردی جو کہ بعد ازاں تحریک نظام مصطفی میں تبدیل ہو گئی۔ حکومت اس قدر کمزور ہوگئی کہ خود ہی کچھ شہروں کو افواج کے حوالے کرنا پڑا جس پر ڈکٹیٹر ضیا ء الحق نے قبضہ کرکے مارشل لاء نافذ کردیا اور پھر یہ سیاہ رات 11سال تک طویل رہی۔
اس وقت چونکہ ملک چاروں اطراف سے دشمنان سے گھرا ہوا ہے اور ہم چو مکھی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ افواج پاکستان ہی ہماری ملکی و نظریاتی سرحدوں کی واحد محافظ ہیں اور ان کی قربانیاں تو نظر انداز کی ہی نہیں جاسکتیں اس لیے کسی اختلافی بحث و مباحثہ سے گریز کرتے ہوئے ملکی دفاع کو اولین حیثیت دینا اشد ضروری ہے اور آپس میں ایک دوسرے کی غلطیوں سے درگزر کرتے ہوئے انتشار و افتراق کی بجائے اتحاد واتفاق اور پیار و محبت کی صورتحال پیدا کریں تاکہ قومی اتحاد متاثر نہ ہو کہ اب تک بھی شر پسند عناصرجب چاہتے ہیں جھل مگسی کی درگاہ فتح پور شریف میں مزیدخود کش دھماکے کرکے دو درجن سے زائد افراد کو شہید کر ڈالتے ہیں ۔
رہا آزادیٔ ٔصحافت کا مسئلہ تو صحافیوں کی تمام تنظیموں کے بشمول ملک بھر سے صحیح سوچ رکھنے والے افراد و ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمیٹی بنا کر ایسا ضابطہ اخلاق ضرور مرتب کیا جانا چاہیے جس کی رو سے صرف ریٹ بڑھانے کے لیے بڑ ھک بازی ،مخالفین کو رگیدنے ،غیر اخلاقی و غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے کی مکمل پابندی ہو اور ایسا بڑے چھوٹے سبھی سیاستدانوں کے لیے بھی ضروری ہو اور اینکر پرسن بھی اس کا مکمل دھیان رکھیں اور پروگرام شروع کرنے سے قبل سبھی شرکاء سے بھی خصو صی گزارش کریں کہ پروگرام میں کسی طرف سے بھی ایسی کو ئی بات نہ ہو جس سے دوسرے کا دل دکھتا ہو ،جس سے لسانی ،مذہبی ،علاقائی یا فرقہ وارانہ اختلاف کے ابھرنے کا امکان ہو ۔
حکمرانوں نے پہلے ہی ممبران اسمبلی کے فارم نامزدگی میں الفاظ کی تبدیلی کرکے منہ کی کھائی ہے اور اپنا ہی روسیاہ کیا ہے اس طرح اندیشہ ہے کہ حکومت نے اگرپائپ لائن میں موجود صحافت پر پابندیاں لگانے والے اپنے مسودوں کو تلف نہ کرڈالاتو اندیشہ ہے کہ اپنے چوتھے ستون صحافت کے خلا ف کاروائی کرکے کہیں حکمران مزید قعرِ مذلت میں نہ جا گریں اور اپنا تھوکا ہی پھر خود ہی نہ چاٹنا پڑجائے۔
آئی ایس پی آر کے جناب آصف غفور نے حالیہ پریس کانفرنس میں واضح کردیا ہے کہ اداروں میں تصادم نہیں بلکہ کو آرڈینیشن بہتر ہونی چاہیے اور کوئی ادارہ ملک سے بڑھ کر نہیں ہے ، ملک کی حفاظت ہی سپریم ہے اس لیے موجودہ حکمران بھی عقل کے ناخن لیں اور صحافت ، نیب ودیگر ادارو ں میں مزیدقوانین کی تبدیلیوں سے باز رہیں اور 1973کے آئین کا حلیہ نہ بگاڑیں کہ یہ آئین سبھی کے اتفاق سے منظور ہوا تھا جس میں صوبوں کو مکمل خود مختاری بھی دی گئی تھی آج اگر یہ آئین نہ ہو تو ہم کسی صورت متحد و متفق نہیں رہ سکتے اور ملک کو لاحق خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں ۔
امریکی سامراج اسرائیل اور ہندو مہاشے ہمارے اندر انتشار پیدا کرنے اور قتل و غارت گری کروانے کے لیے “را “و دیگرتنظیموں اور ہمارے اندر ہی موجود ملک دشمن افراد کے ذریعے ہمیں مختلف تفرقوں میں الجھا کر ریزہ ریزہ کرڈالنا چاہتے ہیں جن سے ہمیں آپس میں یک رنگ ہو کر مقابلہ کرنا ہوگا وگرنہ ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں ۔اگر جمہوری اقدارکے حامل سیاستدانوں نے ہوش کا دامن مکمل ہاتھ سے چھوڑ ڈالاتو آپس کے کشتم کشتہ کے نتائج پھر کسی غیر قوت کے قابض ہوجانے کی صورت میں ہی نکلیں گے اور ہم خود ہی گم کردہ جمہوری فاختہ کوچراغ لیکر ڈھونڈھا کریں گے۔