... loading ...
شہروں کی زندگی بہت مصروف ہوتی ہے۔ کام پر آنا جانا خود ایک کام بن گیاہے اس پر کام کی تھکان گھر کے مسئلے مسائل آپ کو آہستہ آہستہ تھکاتے جاتے ہیں۔ ہفتے میں ایک چھٹی ضرور ملتی ہے لیکن وہ دن بھی رکے ہوئے کاموں اور گھریلوں ذمہ داریوں میں گزر جاتا ہے۔ ایسے میں کم از کم سال میں ایک بار کام سے چھٹیاں لینا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ آپ کسی پرسکون مقام پر یہ چھٹیاں گزار کر سارے سال کی تھکن اتار سکیں۔ یاد کریں آپ نے آخری مرتبہ خود سے کب یہ کہا ہے کہ مجھے چھٹی کی ضرورت ہے۔شاید آپ نے محسوس کِیا ہو کہ آپ کو روزمرہ کی پریشانیوں سے کہیں فرار حاصل کرنا چاہئے۔کیا آپ کبھی کہیں دور چھٹیاں منانے گئے ہیں؟اس پر غور کریں۔
تقریباً ایک صدی پہلے لوگوں کی اکثریت باقاعدہ چھٹیاں نہیں لیا کرتی تھی۔ بیشتر لوگ اپنی جائے پیدائش کے اردگرد ہی ساری زندگی گزار دیتے تھے۔ اپنے شہر گاؤں یا قصبے سے باہر نکلنا کسی کسی کو نصیب ہوتا تھا ۔تفریح یا تعلیم کے لیے دْوردراز سفر کرنے کا شرف صرف مہم جووئوں یا دولتمندوں کا استحقاق سمجھا جاتا تھا۔ اس دور میں سفر کرنا ایک رومانی تجربہ ہوا کرتا تھا سفر نامے ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے دنیا کا احوال انہی سفر ناموں کے ذریعے معلوم ہوتا تھا، کون سا پڑھا لکھا شخص ہوگا جس نے مارکوپولو یا البیرونی کا نام نہیں سنا ہوگا۔
دور جدید میں ٹیکنالوجی میں حیران کن ترقی نے کمپیوٹر اور دیگر ایسی مشینیں ایجاد کردیں جنہوں نے انسانوں کے زیادہ ترکاموں کو سنبھال لیا ہے۔کام کے مواقع بھی بڑھے ہیں اور لوگوں کی اصمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں لوگوں کو فرصت بھی میسر آئی اور پیسے کی فراوانی نے ملک اور بیرون ملک سیاحت کی راہ بھی ہموار کر دی اس سے پوری دنیا میں سیاحت کی صنعت تیزی سے پھیلتی چلی گئی۔ سیاحت کی اس طلب میں بڑھتے اضافے کی وجہ سے کاروبار،تفریح گاہوں اور سیاحوں کے لیے خدمات فراہم کرنے والے ممالک کی تعدادبھی بڑھتی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی سیروسیاحت زرِمبادلہ حاصل کرنے کا موثر ذریعہ ہے۔ کئی ممالک نے سیاحت کو فروغ دے کر اپنی جی ڈی پی میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔ان ممالک میں سیروسیاحت سے حاصل ہونے والا ریونیو بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے، اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کرنے اور دیگر قومی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔جس سے ان ممالک میں عام آدمی کا معیار زندگی بہتر ہو رہا ہے۔
ہمارے ملک پاکستان کو اللہ تعالی نے منفرد جغرافیے اور سارے موسم اور انواع و اقسام کی آب و ہوا دی ہے۔ پاکستان میں مختلف لوگ،مختلف زبانیں اور علاقائی ثقافتیں ہیں جو اس ملک کو بہت سے رنگوں کا گلدستہ بنا دیتی ہیں۔ پاکستان میں ریگستان ،سرسبز و شاداب میدان،پہاڑ، جنگلات،سرد اور گرم علاقے، ساحلی و صحرائی خطے، خوبصورت جھیلیں،جزائر اور دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہمارے یہاں سیاحت کی صنعت برے حالات کا شکار رہی ہے۔ سیاحت کی صنعت کے فروغ کے لیے اچھی مارکیٹنگ بہت ضروری ہے لیکن ہم آج تک مارکیٹنگ کی ایسی حکمتِ عملی ترتیب دینے میں ناکام رہے ہیں جس سے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنے خوبصورت ملک کی جانب راغب کر سکیں۔
نیپال پاکستان سے کہیں چھوٹا ملک ہے جہاں سیاحوں کے لیے واحد کشش پہاڑی سلسلے اور ٹریکنگ کا ایڈونچر ہیں۔ اِس کے باوجود مارکیٹنگ کی بہترین حکمتِ عملی کی بدولت وہاں سیاحت کی صنعت تقریباً آٹھ فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کررہی ہے۔ اگر ہماری حکومت سیاحت کے فروغ کے لیے موثر اقدامات کرے تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان بھی ملٹی بلین ڈالرز کی عالمی سیاحتی انڈسٹری سے اپنا حصہ لینے کے قابل ہو جائے گا۔۔آخر میں سب سے اہم بات وہ یہ کہ سیاحت کے فروغ کے لیے سیاحوں کو تحفظ کا اطمینان دلانا بنیادی مسئلہ ہے۔ جب تک اس امر کا اطمینان نہ ہو سیاحوں کو متوجہ نہیں کیا جاسکتا۔