وجود

... loading ...

وجود

پاکستان 2018کی پہلی سہ ماہی میں عالمی مالیاتی اداروں کو 11ارب ڈالر کیسے ادا کرے گا؟

هفته 23 ستمبر 2017 پاکستان 2018کی پہلی سہ ماہی میں عالمی مالیاتی اداروں کو 11ارب ڈالر کیسے ادا کرے گا؟

موجودہ حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے4سال قبل جب امور خزانہ کا قلمدان سنبھالا تھا تو انھوں خزانہ خالی ہونے کا شور مچا کر آئی ایم ایف سے رجوع کیا تھاتو عوام نے اس پر انتہائی شدید ردعمل کااظہار کیاتھا ،وزیرخزانہ نے عوام کے اس ردعمل کونظر انداز کردیاتھا جس کے بعد پاکستان کو قرضے ملنا شروع ہوئے اور اتنے ملے کہ پاکستان کازر مبادلہ 23ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہونے کی نوید سنا دی گئی،اور اس طرح پوری قوم قرضوں میںڈوبتی چلی گئی جس کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ قومی اسمبلی میںگزشتہ روز وقفہ سوالات کے دوران پاکستان کی وزارت خزانہ نے یہ اعتراف کیاتھا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے گزشتہ 4سال کے دوران لیے گئے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کی وجہ سے پاکستان کا ہر شہری 94 ہزار روپے کا مقروض ہوچکاہے ،وزارت خزانہ نے یہ اعتراف بھی کیاتھا کہ موجودہ حکومت نے یکم جولائی 2016 سے 31 مارچ 2017 تک 819 ارب روپے کے مزید مقامی قرضے لیے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں وزارت خزانہ کی جانب سے دسمبر 2016 تک لیے گئے مقامی اور غیر ملکی قرضوں کی جوتفصیل پیش کی گئی تھی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 31 دسمبر 2016 تک پاکستان پر مجموعی مقامی قرضے 12 ہزار 310 ارب روپے تھے جبکہ مذکورہ تاریخ تک غیر ملکی قرضوں کا حجم 58 ارب ڈالر تھا۔تحریری جواب میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ یکم جولائی 2016 سے 31 مارچ 2017 کے دوران موجودہ حکومت نے 819.1 ارب روپے کے اندرونی قرضے لیے جو اسٹیٹ بینک پاکستان اور تجارتی بینکوں سے حاصل کئے گئے ۔ حکومت نے اسٹیٹ بینک پاکستان سے 734.62 ارب روپے اور کمرشل بینکوں سے 84.50 ارب روپے کے قرضے لیے۔ اس طرح وزارت خزانہ کے اس جواب سے یہ ظاہرہوا کہ پاکستان کے ہر شہری کے ذمہ 94 ہزار 890 روپے واجب الادا ہیں۔وزارت خزانہ نے اپنے تحریری جواب میں یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حالیہ دور میں ملکی قرضوں میں 35 فیصد اضافہ ہوا، جس کے بعد اس وقت ملک کا مجموعی قرضہ 182 کھرب 80 ارب روپے تک جاپہنچا ہے۔اس صورتحال سے یہ بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور آنیوالے دنوں میں جب موجودہ حکومت نہیں ہوگی تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے قرضوں پر قرض حاصل کرنے کی اس روش پر تو حکومت نے بڑی بغلیں بجائی تھیں کہ ان قرضوں کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہورہاتھا لیکن پاکستان کوقرضوں کی فراہمی کے ساتھ ہی آئی ایم ایف نے اپنی شرائط پر عملدرآمد کرنے پر زور دینا شروع کردیا جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کوخوش رکھنے کے لیے وزارت خزانہ نے عوام پر ٹیکس در ٹیکس لگانے کاسلسلہ شروع کردیا اور ہر نئے ٹیکس کے ساتھ ہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار یہ یقین دہانی کرانے کی ناکام کوشش کرتے رہے کہ ان ٹیکسوں سے عام آدمی کسی طرح بھی متاثر نہیں ہوگا،لیکن ان یقین دہانیوں کے برعکس نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے ساتھ ہی مہنگائی میںاضافہ ہونا شروع ہوایہاں تک کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کاحصول مشکل ہوتاچلاگیا اور عوام کی چیخیں نکلنا شروع ہو گئیں ، موجودہ حکومت نے اندرونی و بیرونی اداروں سے بے تحاشہ قرضے لیے، قرض کی یہ رقم کہاں خرچ کی گئی یا کس کی کمپنی یااکائونٹ میں جمع ہوئی یہ الگ بحث ہے اور اس کاانکشاف تو شاید اس حکومت کے رخصت ہونے کے بعد ہی ہوسکے گا، لیکن اس قدر قرضوں کی وجہ سے پاکستان کی معاشی حالت ابتر سے ابتر ہوتی چلی جارہی ہے، یہاں تک کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی ادارو ں کو مداخلت کرکے حکومت کو جھنجوڑنا پڑا ، جس پر آئی ایم ایف ودیگر مالیاتی اداروں نے پاکستان پر دبائو ڈالا کہ ڈالر اِس وقت 116 روپے فی ڈالر یا اس سے بھی کچھ زیادہ کا ہونا چاہیے تاکہ مہنگائی میں اضافہ ہو اور حکومت زیادہ سے زیادہ پیسے اکٹھے کر کے مالیاتی اداروں کو واپس کرے۔پاکستان جن عالمی مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کررہاہے ان کی ویب سائیٹس چیک کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان اگلے سال یعنی 2018کی پہلی سہ ماہی میں عالمی مالیاتی اداروں کو 11ارب ڈالر اداکرنے کا پابند ہے۔ اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ بجٹ 2017-18میں ملکی و غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے 14سو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
اس قدر زیادہ رقم چکا نے کے لیے یقینی طورپر پاکستان کو مزید قرضے لینے پڑیں گے، اور قرض لینے کے لیے ہم پہلے ہی ملک کے منافع بخش اداروں کو‘ جن میں ائیرپورٹس ، بندرگاہیںیہاں تک کہ موٹرویز تک پہلے ہی گروی رکھوا چکے ہیں،اس لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اب مزید قرض لینے کے لیے پاکستان کن اثاثوں کوگروی رکھنے کی کوشش کرے گا۔جہاںتک ملک میں زرمبادلہ کے ذخائرکاتعلق ہے۔ تو اس حوالے سے حقائق کااندازہ سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے اس بیان سے لگایاجاسکتاہے جو انھوںنے گزشتہ سال اسلام آباد میں ایک سیمینار کے دوران دیاتھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک کا موجودہ بیرونی قرضہ 2018-19تک بڑھ کر 90 ارب ڈالر ہو جائے گا۔جس کی وجہ سے حکومت کو ہر سال 20 ارب ڈالر بطور سود کی قسط ادا کرنا ہونگے۔ یعنی آنے والے3 برس میں یہ اضافہ 38% ہو گا۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ مقتدر طبقے اس معاشی صورتحال سے بے خبر اپنے تجوریاں بھرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ گردن تک قرضوں میں ڈوبے ملک کا سیاسی ڈھانچے یہاں کی اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔
عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ایسے ایسے حربے استعمال کیے جارہے ہیں کہ خدا کی پناہ یہ دعویٰ کیاجارہاہے کہ 2047یعنی پاکستان کے بننے کے 100 سال بعد پاکستان دنیا کی10 بڑی معیشتوں میں شامل ہوجائے گا، عقل کے اندھوں کا یہ بیان سمجھ سے بالاتر ہے، جبکہ وزیر خزانہ ، اور دیگر وزرا اورحکومتی ادارے کافی عرصے سے اس قسم کے ہی بیانات جاری کررہے ہیں کہ پاکستان دنیا کا تیز رفتار ترقی کرنے والا ملک بن چکا ہے،کبھی سالانہ شرح نمو بڑھنے کے دعوے کئے جارہے ہیں ،کبھی پاکستان کوابھرتی ہوئی معیشت دکھا یا جارہا ہے۔کبھی یہ دعویٰ کیاجاتاہے کہ2025میں پاکستان دنیا کا سولہواں بڑا مستحکم ملک بن جائے گا، کبھی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے شادیانے بجائے جارہے ہیں ، کبھی پاکستان اسٹاک ایکسچینج کوایشیا کی بہترین اسٹاک ایکسچینج قرار دیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ خیر آگے بڑھنے کی آس رکھنا،خوش گمانی کرنایا ترقی کی امید رکھناکوئی بری بات نہیںہے بلکہ یہ مثبت اور تعمیری سوچ کی عکاسی کرتا ہے مگرخوش فہم ہونا، خیالی پلائو پکانا یا ہوا میں محل بنانا کوئی تعمیری یا ترقی پسندانہ رویہ نہیںہوتابلکہ حقیقی و ذزمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر اپنی منصوبہ بندیا ں کرنے اور عملی جدوجہد سے ہی تعمیروترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنایا جاسکتا ہے۔
جہاں تک سرکاری اہلکاروں کی لوٹ مار کا تعلق ہے تو اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ جب پی آئی اے کے سابق ایم ڈی کو ان کی ناقص کارکردگی اور مبینہ بے قاعدگیوں پر ملازمت سے فارغ کیاگیا تو وہ رخصت ہوتے ہوئے پی آئی اے کا ایک طیارہ اپنے ساتھ جرمنی لے گئے،اورحکومت اورپی آئی اے کے حکام نے یہ طیارہ واپس لانے کی کوششیں کرنے کے بجائے اس معاملے کو اس وقت تک دبائے رکھنے اورخاموشی اختیار رکھنے کی کوشش کی جب تک کہ یہ معاملہ میڈیا میںآنے کے بعد سینیٹ میں اس کی بازگشت نہ سنائی دی اور حکومت کو سینیٹ میں اس کا اعتراف کرناپڑا کہ اس سے پہلے موصوف ایم ڈی ایک عدد طیارہ اونے پونے داموں میں بیچ بھی چکے تھے۔ جس کا آج تک کسی نے حساب نہیں مانگا۔ بہرکیف پاکستان کی معیشت کو آسرا دینے کے لیے کوئی’’ وائٹل فورس‘‘ یعنی خدائی طاقت ہی درکار ہوگی ورنہ آئی ایم ایف کے پلان کے مطابق اگلے سال مارچ میں جب پاکستان مالیاتی اداروں کو ادائیگی کر چکا ہوگا، اور ملکی زر مبادلہ 14ارب ڈالر کے ارد گر د چکر لگا رہا ہوگا تو اس کے قوم کو اثرات مارچ میں نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ جب ڈالر 130 روپے کا ہو جائے گا ، اْس قت ملک کی اکا نومی کو کون سنبھالے گا، پھر میاں نواز شریف کس سے پوچھیں گے کہ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘
آج حقیقت یہ ہے اوروزیرخزانہ کو یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ ملک کی% 90 سے زیادہ معیشت کالے دھن پر کھڑی ہے۔کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے اب تک کوئی خاطر خواہ وصولی ہوئی ہے اور نہ ہی کسی محکمے سے کرپشن ختم ہوئی ہے۔ البتہ کرپشن سے پاک معاشرے کے قیام کا شور و واویلا ضرور مچایا جا رہا ہے۔ سیاستدانوں کے درمیان بھی احتساب کے اس عمل پر اختلافات موجود ہیں۔حکومت حال ہی میں اربوں روپے کے نئے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے ایک دفعہ پھر ٹیکسوں کا یہ بوجھ بالواسطہ طور پر عوام پر ڈال دیا جائے گا۔اس صورت حال کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کو اعتماد میںلے کرانھیں حقائق سے آگاہ کیاجائے اور یہ بتایاجائے کہ ہم واقعی ڈیفالٹ کی طرف جار ہے ہیں،اس طرح عوام کم از کم آنے والے کڑے وقتوں کامقابلہ کرنے کے لیے خود کوکسی حد تک تیار کرسکیں گے اور حکومت تو کفایت شعاری پر عمل کرنے سے رہی کم از کم عوام کفایت شعاری اختیار کرنے کی کوشش ضرور کرسکتے ہیں تاکہ آنے والے کڑے وقت کاسامنا کرنے میں انھیں زیادہ دقت اور پریشانی نہ ہو۔


متعلقہ خبریں


ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان وجود - بدھ 20 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم

آرمی چیف کا کراچی میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 کا دورہ وجود - بدھ 20 نومبر 2024

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے شہر قائد میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 کا دورہ کیا اور دوست ممالک کی فعال شرکت کو سراہا ہے ۔پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی کے ایکسپو سینٹر میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 ...

آرمی چیف کا کراچی میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 کا دورہ

پی ٹی آئی کا احتجاج ، حکومت کا سخت اقدامات اُٹھانے کا فیصلہ وجود - منگل 19 نومبر 2024

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے وفاقی دارالحکومت میں 2 ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی جس کے تحت کسی بھی قسم کے مذہبی، سیاسی اجتماع پر پابندی ہوگی جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو شہر میں احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے ۔تفصیلات کے مطابق دفعہ 144 کے تحت اسلام آباد میں 5 یا 5 سے زائد...

پی ٹی آئی کا احتجاج ، حکومت کا سخت اقدامات اُٹھانے کا فیصلہ

علی امین اور بیرسٹر گوہر کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی اجازت وجود - منگل 19 نومبر 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا ہے کہ عمران خان نے علی امین اور بیرسٹر گوہر کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی اجازت دے دی ہے ۔اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے طویل ملاقات ہوئی، 24نومبر بہت اہم دن ہے ، عمران خان نے کہا کہ ...

علی امین اور بیرسٹر گوہر کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی اجازت

سیکیورٹی فورسز شہادتوں سے گورننس کی خامیوں کو پورا کررہی ہیں، آرمی چیف وجود - منگل 19 نومبر 2024

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ملکی سیکیورٹی میں رکاوٹ بننے اور فوج کو کام سے روکنے والوں کو نتائج بھگتنا ہوں گے ۔وزیراعظم کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہر پاکستانی سپاہی ہے ، کوئی یونیفارم میں ...

سیکیورٹی فورسز شہادتوں سے گورننس کی خامیوں کو پورا کررہی ہیں، آرمی چیف

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر